امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے کہا ہے کہ امریکہ نے شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک کا کنٹرول سنبھالنے والے باغی گروہ ہیئت التحریر الشام سے براہ راست رابطہ کیا ہے۔ایسا پہلی بار ہے جب امریکہ نے ہیئت التحریر کے ساتھ براہ راست رابطے کی تصدیق کی ہے جس کو وہ ایک دہشت گرد تننظیم کے طور تسلیم کرتا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے کہا ہے کہ امریکہ نے شام میں سابق صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک کا کنٹرول سنبھالنے والے باغی گروہ ہیئت التحریر الشام سے پہلا براہ راست رابطہ کیا ہے۔
ایسا پہلی بار ہے جب امریکہ نے ہیئت التحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کے ساتھ براہ راست رابطے کی تصدیق کی ہے۔ واضح رہے کہ ایچ ٹی ایس کو امریکہ نے دہشتگرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے اور شام کے نئے حکمران گروپ کو ابھی تک اس فہرست سے اس گروپ کا نام نکالا نہیں گیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے اپنی بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ اس رابطے کا بنیادی مقصد لاپتہ امریکی صحافی آسٹن ٹائس سے متعلق دریافت کرنا تھا۔
وزیر خارجہ انتونی بلکن نے اس رابطے کی تصدیق اردن میں متعدد عرب ممالک، ترکی اور یورپ کے نمائندوں سے اس ملاقات کے بعد کی جس میں شام کے مستقبل کے حوالے سے معاملات پرغور کیا جا رہا تھا۔
اجلاس میں شریک حکام نے شام میں اقتدار کی پرامن منتقلی کے عمل کی حمایت کرنے پر اتفاق کیا۔ اس موقع پر اردن کے وزیر خارجہ نے کہا کہ علاقائی ممالک شام کو مزید انتشار کا شکار ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے۔
اس اجلاس کے بعد ایک مشترکہ بیان بھی جاری کیا گیا جس میں میں کہا گیا کہ شام میں ایک ایسی جامع حکومت کی حمایت کی جائے گی جو اقلیتوں کے حقوق کا احترام کرے اور ساتھ ہی ساتھ دہشت گرد گروہوں کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہ دے۔
حالیہ ہفتوں میں شام میں ہونے والی ڈرامائی تبدیلیوں اور ہنگامہ خیز واقعات کے بعد اب شام کے اندر اور باہر بات چیت کا محور ایک ایسی نئی حکومت کے قیام کی اہمیت پر ہے جو شام کے عوام کی نمائندگی کر سکے۔
یاد رہے کہ حیات تحریر الشام کا اردن میں ہونے والے اجلاس میں کوئی نمائندہ موجود نہیں تھا۔
اس اجلاس میں عراقی وزیر خارجہ فواد حسین نے مشرق وسطیٰ اور دیگر علاقوں میں شام کے مستقبل کے بارے میں پائی جانے والی گہری تشویش کا اظہار کیا۔
انھوں نے کہا کہ خطے کے ممالک شام کو لیبیا جیسی صورتحال کا شکار نہیں دیکھنا چاہتے۔
یاد رہے کہ عرب جمہوریہ لیبیا کے کرنل معمر قذافی طویل ترین عرصے تک برسر اقتدار رہنے والے عرب رہنما تھے تاہم سنہ 2011 میں تیونس سے شروع ہونے والے عرب عوامی بیداری کا سیلاب کرنل معمر قذافی کو بھی بہا لے گیا تھا۔
لیبیا کرنل قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد شدید افراتفری کا شکار رہا تھا۔
اردن کے اجلاس میں ترکی کے وزیر خارجہ حکان فیدان نے اپنے موقف میں کہا کہ شام کے موجودہ اداروں کو محفوظ رکھنا اور ان میں اصلاحات لانا اس وقت سب سے ضروری ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کےمطابق ترکی کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ’شام میں اقتدار کی منتقلی کے دوران دہشت گردی کو فائدہ اٹھانے کا موقع نہ دیا جائےگ ۔ ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھن اور اپنے اقدامات کو مربوط کرنا ہوگا۔‘
دوسری طرف اسرائیل نے خطے کے ممالک کی مذمت کے باوجود شام پر مزید درجنوں فضائی حملے کیے ہیں۔ ان حملوں کی تصدیق وار مانیٹرز کی جانب سے کی گئی ہے۔
اسرائیل اس سے قبل یہ کہہ چکا ہے کہ وہ ان ’سٹریٹجک صلاحیتوں‘ کے خاتمے کے لیے یہ کارروائیاں کر رہا ہے جو اس کے لیے خطرے کا سبب بن سکتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی شام میں اسرائیل کے سیکڑوں فضائی حملوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ہیئت التحریر الشام اس وقت شام کا سب سے طاقتور باغی گروپ ہے جس کا قیام سنہ 2011 میں جبہت النصرہ کے نام سے عمل میں آیا تھا اور القاعدہ کا براہ راست اتحادی تھا۔
یہ گروپ شام کے سابق صدر بشار الاسد کا سب سے بڑا مخالف سمجھا جاتا رہا ہے۔
اس گروہ پر مغربی ممالک کے علاوہ اقوام متحدہ اور چند مسلم ممالک نے بھی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور اسے ’دہشت گرد گروہ‘ کا درجہ دیا گیا ہے۔
ہیئت التحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے سنہ 2016 میں القاعدہ سے تعلقات توڑنے کا اعلان کیا تھا۔
حالیہ دنوں میں انھوں نے مختلف مذہبی گروہوں اور اقلیتوں کے لیے حقوق کا اعلان کیا ہے تاہم اس گروہ کے ماضی کے پرتشدد جہادی کردار کے باعث لوگوں کو ان وعدوں پر اعتبار نہیں۔
اردن میں ہونے والی بات چیت میں شام کا کوئی نمائندہ موجود نہیں تھا۔
اجلاس میں موجود آٹھ عرب ممالک کے وزرائے خارجہ نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ شام متحد رہے اور فرقہ واریت کی بنیاد پر تقسیم نہ ہو۔
برس ہا برس تک بشار الاسد کی حکومت کے حمایتی ایران اور روس کی بھی اجاس سے غیر حاضری تھی۔
بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ 13 سالہ خانہ جنگی کے بعد ہوا۔ شام کی ایک دہائی سے ذیادہ جاری خانہ جنگی اس وقت شروع ہوئی تھی جب انھوں نے جمہوریت نواز مظاہروں کے خلاف طاقت کا استعمال کیا تھا۔
اس جنگ میں پانچ لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے تھے جبکہ لاکھوں بے گھر ہوئے۔ اس دوران شام بین الاقوامی طاقتوں اور ان کے پراکسی گروہوں کی جنگ کا میدان بن کر رہ گیا تھا۔
وہ تمام ممالک جو شام کی خانہ جنگی میں کسی نہ کسی طرح شامل رہے اب اس ملک کے مستقبل پر ان کا بھی گہرا کردار شامل ہو گا۔
اگر شامی عوام کو حالیہ ہفتے میں حاصل ہونے والی آزادی کو مضبوط بنیادوں پر قائم رکھنا ہے تو یہاں کے نئے حکمرانوں کو ملک کے اندر اور باہر مکمل یکجہتی پیدا کرنی ہوگی۔