امریکی فوج کا کہنا ہے کہ اس کے ایک لڑاکا طیارے کو بحیرۂ احمر کے اوپر ’بظاہر فرینڈلی فائر‘ یعنی اپنے ہی بحری جہاز کے فائر سے تباہ کر دیا گیا ہے۔
امریکی فوج کا کہنا ہے کہ اس کے ایک لڑاکا طیارے کو بحیرۂ احمر کے اوپر ’بظاہر فرینڈلی فائر‘ یعنی اپنے ہی بحری جہاز کے فائر سے تباہ کر دیا گیا ہے۔
سینٹرل کمانڈ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق امریکی نیوی کے طیارے ایف/اے 18 ہارنیٹ کے دونوں پائلٹ بحفاظت طیارے سے ایجیکٹ کرنے میں کامیاب رہے اور انھیں معمولی چوٹیں آئیں۔
یہ واقعہ امریکہ کے مطابق اس کی جانب سے یمن کے دارالحکومت صنعا میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے میزائل سٹوریج سائٹ اور کمانڈ فیسیلیٹیز پر حملوں کے بعد ہوا ہے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کے مطابق اس کی جانب سے متعدد حوثی ڈرونز اور ایک بحری جہاز شکن کروز میزائل کو بحیرۂ احمر کے اوپر نشانہ بنایا گیا تھا۔
امریکی سینٹرل کمانڈ نے ایک بیان میں تصدیق کی کہ بحیرۂ احمر میں ہونے والا واقعہ ’فرینڈلی فائر‘ یا اپنے ہی بحری جہاز کی جانب سے طیارے کو غلطی سے نشانہ بنانے کے نتیجے میں پیش آیا۔
بیان کے مطابق 'بحری جہاز یو ایس ایس گیٹسبرگ نے غلطی سے ایف/اے 18 طیارے کو نشانہ بنایا جو طیارہ بردار بحری جہاز یو ایس ایس ہیری ٹرومین پر سے پرواز بھر چکا تھا۔‘
یہ واضح نہیں ہے کہ جس طیارے کو مار گرایا گیا ہے وہ یمن میں ہونے والے فضائی آپریشن کا حصہ تھا یا نہیں۔
اس سے قبل سینٹرل کمانڈ نے بتایا تھا کہ صنعا میں اہداف کو نشانہ بنانے کا مقصد 'حوثیوں کی صلاحیت کو کمزور کر کے ان کے آپریشنز میں خلل ڈالنا تھا جو امریکی جنگی بحری جہازوں اور عام بحری جہازوں کو جنوبی بحیرۂ احمر، آبنائے باب المندب اورخلیجِ عدن میں انھیں نشانہ بناتے ہیں۔
امریکی فوج کا مزید کہنا ہے کہ اس کی جانب سے ’حوثیوں کے متعدد ڈرونز اور بحری جہاز شکن کروز میزائلوں کو بھی بحیرۂ احمر کے اوپر نشانہ بنایا گیا ہے اور ایسا امریکی ایئرفورس اور نیوی کے اثاثوں کا استعمال کیا گیا ہے جن میں ایف/اے 18 طیارے بھی شامل ہیں۔‘
حوثی ایران کا حمایت یافتہ باغی گروہ ہے جس کا یمن کے شمال مغربی حصے پر قبضہ ہے اور اس کی جانب سے اسرائیل اور بین الاقوامی بحری جہازوں پر غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سےحملے کیے جاتے رہے ہیں۔ ان کے مطابق اس کا مقصد فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنا ہے۔
نومبر 2023 کے بعد سے حوثی میزائل حملوں کے باعث بحیرۂ احمر میں اب تک دو بحری جہاز ڈوبے ہیں جبکہ متعدد کو نقصان پہنچا ہے۔ ان کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ وہ صرف امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ سے منسلک بحری جہازوں کو نشانہ بنا رہے ہیں لیکن یہ دعویٰ اکثر جھوٹا بھی ثابت ہوا ہے۔
گذشتہ دسمبر کو امریکہ، برطانیہ اور 12 دیگر ممالک کی جانب سے آپریشن پراسپیرٹی گارڈیئن لانچ کیا گیا تھا تاکہ بحیرۂ احمر میں بحری جہازوں کو حملوں سے بچایا جا سکے۔
سنیچر کو اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ یمن سے لانچ ہونے والے ایک پروجیکٹائل کو مار گرانے میں ناکام ہوا تھا اور یہ میزائل تل ابیب میں ایک پارک میں گرا تھا۔
اسرائیلی ایمرجنسی میڈیکل سروس کے مطابق اس کے باعث 16 افراد 'معمولی زخمی' ہوئے تھے اور اس کی وجہ آس پاس کی عمارتوں کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹنا تھا۔
اس کے مطابق مزید 14 زخمیوں کا بھی علاج کیا گیا ہے۔
حوثیوں کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی جانب سے ہائپرسونک بیلسٹک میزائل کے ذریعے ایک فوجی ہدف کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
رواں ہفتے کے آغاز میں اسرائیل کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ اس نے یمن میں حوثی فوجی اہداف کو نشانہ بنایا جن میں داراحکومت صنعا میں توانائی کے انفراسٹرکچر پر متعدد حملوں کے علاوہ بندرگاہ پر بھی حملہ شامل ہے۔
حوثیوں کے زیرِ انتظام المسیرہ ٹی وی نے رپورٹ کیا کہ بندرگاہ صلیف اور راس عیسٰی تیل کے ٹرمینل پر حملوں میں نو افراد ہلاک ہوئے۔
حوثیوں کی جانب سے غزہ جنگ کے اختتام تک یہ حملے جاری رکھنے کا اعادہ کیا گیا ہے جبکہ امریکہ کا کہنا ہے کہ اس کی جانب سے کیے گئے تازہ ترین حملے اپنے اور اپنے اتحادیوں کے دفاع کے لیے کیے جا رہے ہیں۔