’ایک ایکڑ سے ایک کروڑ روپے آمدن‘: وہ پڑھے لکھے نوجوان جو نوکری چھوڑ کر کارپوریٹ فارمنگ کا رُخ کر رہے ہیں

پاکستان میں بہت سے پڑھے لکھے نوجوان اب زراعت جیسے روایتی شعبے میں قسمت آزمائی کرتے نظر آتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں بہت سے سوشل میڈیا چینلز پر یہ نوجوان مختلف فصلوں کو اُگانے سے لے کر منڈی میں ان کی فروخت اور اس سے حاصل ہونے والے منافعے تک کے بارے میں اپنے تجربات شیئر کرتے ہیں۔
ثناخوان حسین
BBC

کہاں سٹاک مارکیٹ کا افراتفری والا ماحول اور کہاں شہر کی ہنگامہ خیز زندگی سے دور کیلے کے خاموش باغات کی دیکھ بھال۔۔۔

کراچی میں پیدا ہونے اور لاہور سے بزنس گریجویشن کی ڈگری حاصل کرنے والے ثناخوان حسین کے لیے یہ تبدیلی بہت مختلف اور صبر آزما تھی۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی اور زراعت میں آنے والی نئی تکنیکوں نے انھیں کارپوریٹ فارمنگ کی طرف راغب ہونے میں مدد دی۔

سنہ 2021 میں زراعت سے متعلق اپنی کمپنی ’انڈس ایکرز‘ شروع کرنے سے پہلے ثناخوان حسین سٹاک مارکیٹ میں فرٹیلائزر سیکٹر سے بطور تجزیہ کار منسلک تھے اور ان کا بنیادی کام اپنی کمپنی کے کلائنٹس کو اینگرو، ایف ایف سی، ایف ایف بی ایل، اور فاطمہ فرٹیلائزر جیسی بڑی پاکستانی کمپنیوں کے حصص کے بارے میں معلومات فراہم کرنا تھا تاکہ وہ سرمایہ کاری سے متعلق بہتر فیصلے کر سکیں۔

ثناخوان کے مطابق اس شعبے میں مسلسل بہتر ہوتے نمبرز انھیں پُرکشش لگے اور عملی میدان میں قدم رکھنے کی وجہ بنے۔

’سٹاک مارکیٹ میں کام کرتے ہوئے، مجھے ایگریکلچر (زراعت) کی اہمیت کا صحیح طور پر اندازہ ہوا کیونکہ فرٹیلائزر انڈسٹری ایگریکلچر سے براہ راست جڑی ہوئی ہوتی ہے۔ مجھے سمجھ آئی کہ ایگریکلچر میں جدید اور پائیدار طریقوں سے کام کر کے ہی بہتر منافع حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘

ثناخوان کا تعلق سندھ کے شہر ٹھٹھہ سے ہے لیکن ابتدائی طور پر انھوں نے ٹنڈو الہ یار میں ٹھیکے پر زمین لے کر وہاں کیلے کی کاشت کرنے کا منصوبہ بنایا کیونکہ، اُن کے مطابق، وہاں کی زمین اور پانی دونوں کا معیار بہتر تھا۔

انھوں نے بتایا کہ مارکیٹ ریسرچ سے انھیں یہ بھی پتہ چلا کہ ٹنڈو الہ یار کیلے کی پیداوار کے لیے ملک کی مرکزی منڈی ہے۔

پاکستان میں بہت سے پڑھے لکھے نوجوان اب زراعت جیسے روایتی شعبے میں اپنی قسمت آزمائی کرتے نظر آتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں بہت سے سوشل میڈیا چینلز پر یہ نوجوان مختلف فصلوں کو اُگانے سے لے کر منڈی میں ان کی فروخت اور اس سے حاصل ہونے والے منافعے تک کے بارے میں اپنے تجربات شیئر کرتے ہیں اور ایسے یوٹیوب چینلز پر ویڈیوز کو دیکھنے والے صارفین کی تعداد بھی کافی زیادہ ہوتی ہے۔

نوکری چھوڑ کر زراعت کے شعبے میں قدم رکھنے کا ’بڑا اور مشکل‘ فیصلہ

تاہم لگی لگائی نوکری چھوڑ کر اپنا بزنس کرنے کا فیصلہ ثنا خوان کے لیے کچھ اتنا آسان نہیں تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’میرے والد اینگرو میں ملازم تھے۔ جب میں نے نوکری شروع کی تو وہ ریٹائر ہو گئے۔ اُس وقت مجھے احساس ہوا کہ مجھے کاروبار کے میدان میں کچھ کرنا چاہیے، کیونکہ نوکری ختم ہونے کے بعد کی سخت زندگی کا سامنا مجھے بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔‘

ثنا کے مطابق اسلام میں کسی بھی کاروبار کے لیے رسک لینے کا ایک اہم تصور ہے۔ ’میں نے 2013 میں نوکری شروع کی اور 2019 میں چھوڑ دی۔ اس دوران 2017-18 میں میں نے کیلے کی کاشت کے اعداد و شمار پر کام کرنا شروع کیا اور پھر مجھے لگا کہ یہ صحیح وقت ہے کہ میں اپنا کام شروع کروں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ابتدائی ڈیڑھ سے دو سال اُن کے لیے بہت مشکل تھے۔ ’حقیقت یہ ہے کہ کاروبار چلانے کے لیے مجھے پارٹ ٹائم کام بھی کرنا پڑا۔ لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ کام ملازمت کے بجائے ایک مشاورتی کردار جیسا تھا، جس میں ہفتے میں تین، چار گھنٹے کام کے عوض اچھی رقم مل جاتی تھی اور اس کی بدولت میں اپنا کچن مینیج کرتا رہا۔‘

’میرا خیال ہے کہ یہ سب سے اہم بات ہے۔ کوئی بھی نوجوان جو کچھ نیا کرنا چاہتا ہے، اسے سب سے پہلے ناکامی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ ناکامی کو قبول نہیں کرتے۔ شروع میں یہ مشکل ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ تین، چھ مہینے یا ایک سال کے بعد آپ نے غلط فیصلہ لیا ہے اور اس میں کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ آپ کوئی بھی کام شروع کریں، ابتدا میں مشکلات ضرور آتی ہیں۔‘

پہلے فارم کے لیے سرمایہ کہاں سے اکھٹا کیا؟

ثنا
BBC

ثنا جیسے نوکری پیشہ افراد اگرچہ کاروبار تو کرنا چاہتے ہیں مگر ان کو درپیش سب سے بڑا سوال کاروبار کے لیے درکار سرمایہ اکٹھا کرنے کا ہوتا ہے۔

ثنا بتاتے ہیں کہ ’شروع میں، میں نے اپنے قریبی خاندان اور دوستوں سے کچھ رقم لی، لیکن سرمایہ کاری زیادہ نہیں تھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب آپ کسی سے سرمایہ حاصل کرتے ہیں، تو یہ بہت اہم ہوتا ہے کہ کاروبار کرنے کے لیے آپ تیار ہیں بھی یا نہیں۔ اگر آپ تیار ہوں تو سامنے والا بھی محسوس کرتا ہے کہ یہ شخص کام کو جانتا اور سمجھتا ہے، تیار بھی ہے، لہذا اسے اس بات کا خدشہ بھی کم ہوتا ہے کہ اس کا پیسہ ڈوب جائے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ’زراعت میں سرمایہ کار کا طویل المدتی ہونا بہت ضروری ہے۔ سرمایہ کار 5 یا 10 سال کے لیے صبر کرنے والا ہو۔ یہ نہ ہو کہ 6 مہینے یا ایک سال بعد وہ سرمایہ واپس لینے کی بات کرے۔ میں تجویز کروں گا کہ آپ طویل مدتی سرمایہ کار لائیں اور مثالی طور پر ایسے لوگوں سے سرمایہ لیں جو پہلے سے زراعت کے شعبے میں سرمایہ کاری کر رہے ہوں تاکہ وہ آپ کو کسی نان پروفیشنل شخص کے طور پر نہ دیکھیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’سچ کہوں تو شروع میں کافی مالی نقصان ہوا اور پہلے ڈیڑھ سال میں منافع کا کوئی نظام ہی نہیں تھا۔ ہم صرف چیزوں کو سمجھ رہے تھے اور پھر آہستہ آہستہ صورتحال بہتر ہوئی۔ کیونکہ جب آپ کسی نئی مارکیٹ میں جاتے ہیں یا کچھ نیا کرتے ہیں، تو آپ بہت سی غلطیاں کرتے ہیں۔ یہ فطری عمل ہے جس کے لیے سب کو ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔‘

ثنا کے مطابق ’یہ ہوتا ہے کہ آپ ایک خاص سٹیج سے لازمی گزرتے ہیں لیکن کچھ وقت کے بعد آپ کوموقع ضرور ملتا ہے۔ اور 2022 میں ہمیں بھی ایسا ہی ایک بڑا موقع ملا۔ ہم نے پاکستان کے ایک بڑے ٹیکسٹائل ایکسپورٹر سے رابطہ کیا، جنھوں نے ہمیں ایک بڑی سرمایہ کاری فراہم کی۔‘

’اسی سرمایہ کاری کی بدولت ہم گذشتہ دو سالوں میں تیزی سے ترقی کر سکے۔ یہ اسی طرح ہوتا ہے کہ آپ نے 2020 میں آغاز کیا اور دو سے ڈھائی سال کی جدوجہد کے بعد آپ کو تجربہ حاصل ہوتا ہے۔ چونکہ زراعت میں سرمایہ کاری کرنے والے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس شعبے میں طویل مدتی امکانات ہوتے ہیں، اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ آپ انویسٹر کا درست انتخاب کریں۔‘

ثنا
BBC

انھوں نے کہا کہ جہاں تک ٹھیکے پر زمین حاصل کرنے کا تعلق ہے تو انھوں نے ٹندو الہ یار کے بروکرز کے ذریعے کچھ لوگوں سے رابطہ کیا جو زمین کے بارے میں جانتے تھے، اور انھوں نے ہی انھیں ریفرنس کے ذریعے زمین فراہم کی۔

’پہلا رقبہ (زمین کا ٹکڑا) جو میں نے خریدا تھا وہ ایک 24 ایکڑ کا کیلے کا فارم تھا جو پہلے سے موجود تھا لیکن اچھی حالت میں نہیں تھا۔ میں نے یہ زمین اگست 2020 میں لی اور پھر اس میں اضافہ ہوتا گیا اور میرے پاس 44 ایکڑ کا فارم ایک ہی جگہ پر اکھٹا ہو گیا۔‘

بہرحال ’انڈس ایکرز‘ کے نام سے اپنی کمپنی شروع کرنے کے بعدثناخوان کے مطابق انھوں نے بھرپور محنت کی جس کا خاطر خواہ فائدہ حاصل ہوا۔ ان کے مطابق ابتدائی نقصانات کے بعد لیز پر لی گئی زمین پر کیلے کی کاشت کے لیے آپریٹنگ مارجن 35 سے 45 فیصد کے درمیان رہا اور سرمائے کی واپسی کی مدت تقریباً تین سال رہی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’دیکھیں۔۔۔ کیلا ایک منافع بخش تجارتی فصل ہے، جس کے پودے پورا سال پھل دیتے ہیں۔ ہمارے معاملے میں سب سے بڑا خرچہ زمین کا کرایہ ہے، جس کے بعد کھاد اور مزدوری آتی ہے۔ کیلے کی قیمت مہنگائی کے ساتھ بڑھتی رہی ہے، اس لیے اس میں مستقل ترقی جاری ہے۔‘

’اس وقت ایک اچھی کیلے کی کاشت فی ایکڑ سالانہ ایک کروڑ روپے سے زائد آمدنی دیتی ہے، جبکہ اگر زمین کرائے پر لی گئی ہو تو آپریٹنگ مارجن تقریباً 50 فیصد ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر ہمارے لیے سرمایہ واپس حاصل کرنے کا دورانیہ تقریباً تین سال ہے، یعنی تین سال میں ہم اپنی سرمایہ کاری واپس حاصل کر لیتے ہیں۔‘

’جدید زرعی طریقوں پر عمل پیرا ہونا ناگزیر ہے‘

ثنا
BBC

اس فیلڈ میں کافی کام کے بعد کیلے کے علاوہ ثنا خوان نے دریائے سندھ کے کنارے مختلف زمینوں پر جو پراجیکٹس کیے اُن میں پپیتا، گنا، چاول اور مرچ قابل ذکر ہیں۔

ثناخوان حسین کے بقول انھوں نے دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں رائج جدید زرعی طریقوں کو پڑھا اور سمجھا اور اب ان پر عمل کر کے وہ پیداوار میں مسلسل بہتری لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

’دریائے سندھ کے کنارے کی زمینیں بہت زرخیز ہیں، اُن سے اُسی وقت صحیح معنوں میں فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جب باقاعدہ مٹی اور پانی کی ٹیسٹنگ کرنے، موسم اور آب و ہوا پر نظر رکھنے، دوبارہ قابلِ استعمال زرعی طریقے اپنانے اور ہر سیزن میں صحیح فصلوں کا انتخاب یقینی بنانے کو ترجیح دی جائے۔ اس ضمن میں ٹیکنالوجی سے مدد حاصل کرنا فائدہ مند ہی نہیں بلکہ اب ناگزیر ہے۔ اس کے لیے ہم نے ٹِشو کلچر ورائٹی استعمال کی، جن میں گرینڈ نائین، یا جی نائین اور ولیم کلچر قابل ذکر ہیں۔‘

پاکستان کی بڑی معاشی مشکلات میں سے ایک کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کو ڈالر کی قلت کا سامنا رہتا ہے۔

ثناخوان حسین کے بقول انھوں نے پاکستان کی میکرو اکانومی کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ محسوس کیا کہ صرف اُن شعبوں میں سرمایہ کاری سے فائدہ حاصل ہو سکتا ہے جن میں کم سے کم درآمدی انحصار ہو۔

’زراعت میں تحمل مزاجی انتہائی ضروری ہے‘

ثنا
BBC

ثنا کہتے ہیں کہ ’زرعی میدان میں اترنے کا فیصلہ کرتے وقت میرے لیے بنیادی عنصر نمبرز ہی تھے۔ سال 19-2018 میں میرے پاس دو راستے تھے: ایک یہ کہ بطور فنانشل ایکسپرٹ پاکستان چھوڑ کر بیرون ملک سیٹل ہو جاؤں یا دوسرا یہ کہ پاکستان میں رہ کر کچھ ایسا کام کروں جس میں معاشی تبدیلیاں میرا کاروبار متاثر نہ کریں۔ دیکھا جائے تو پاکستان میں اس طرح کے تین ہی سیکٹرز ہیں: ایگریکلچر، آئی ٹی سروسز، اور مائننگ۔ اور ظاہر ہے زراعت میرے لیے قریب ترین شعبہ تھا۔‘

عام طور پر شہروں میں رہنے والے نوجوان زراعت میں خاطر خواہ دلچسپی نہیں رکھتے تھے لیکن اب زمانہ بدل رہا ہے۔ زراعت میں نہ صرف افرادی قوت کی ضرروت کم ہونے لگی ہے بلکہ مارکیٹنگ کے طریقے عام اور سستے ہونے سے پراڈکٹ کی تشہیر اور اس کی فروخت بھی کسی حد تکآسان ہوئی ہے۔

اس کے باوجود ثناخوان نئے آنے والوں کو سمجھاتے ہیں کہ ایگری بزنس چلانے کے لیے تحمل مزاجی ضروری ہے۔

’یقیناً، زراعت ایک صبر آزما اور وقت لینے والا شعبہ ہے۔ یہ بات درست ہے کہ شہروں کے لوگوں کے لیے، جو تیز زندگی کے عادی ہوتے ہیں، اس میں داخل ہونا اور خود کو اس سست رفتار زندگی کے مطابق ڈھالنا آسان نہیں ہے۔ جہاں شہروں میں ہر لمحے تبدیلی اور ہلچل ہے، وہیں زراعت میں موسمی حالات، قدرتی چیلنجز اور طویل منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

’اسی لیے جب آپ اس شعبے میں آتے ہیں تو ایک مختلف مزاج اور نقطۂ نظر اپنانا ضروری ہوتا ہے۔ یہ شعبہ لوگوں کو زمین کے ساتھ جڑنے، فطرت کے اصولوں کو سمجھنے، اور فصلوں کی نشونما کے پورے عمل کا حصہ بننے کا موقع دیتا ہے۔ جو اس طرزِ زندگی کو قبول کر لیتے ہیں، ان کے لیے یہ سکون اور اطمینان کا ذریعہ بن سکتا ہے۔‘

موسمیاتی تبدیلیوں سے جڑے مسائل

ثنا
BBC

موسمیاتی تبدیلیاں زراعت سے منسلک پرانے اور ثناخوان جیسے نئے افراد کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہیں کیونکہ اس شعبے سے وابستہ افراد کے مطابق اپنی بھرپور کوششوں کے باوجود اُن کی فصلیں بدلتے ہوئے موسم کے اثرات سے مکمل طور پر محفوظ نہیں ہیں۔

ثنا خوان کے بقول شدید موسمی حالات سے نمٹنے کے لیے وہ جو اقدامات اٹھا رہے ہیں ان میں سے چند ایک اہم یہ ہیں۔

  • کھیتوں کی حدود میں درخت لگانا تاکہ تیز اور سرد، گرم ہواؤں کے اثرات کو کم کیا جا سکے
  • زمین کی بہتر دیکھ بھال کے طریقے اپنانا جیسے ملچنگ اور کم سے کم ہل چلانا، تاکہ مٹی پانی کو بہتر طریقے سے جذب کر سکے اور اس کی صحت میں بہتری آئے
  • ایسی زمین کا انتخاب کرنا جہاں میٹھے پانی کے ذخائر موجود ہوں تاکہ شمسی توانائی کے ذریعے آبپاشی کو بطور بیک اپ ممکن بنایا جا سکے

اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے مستقبل کے منصوبوں میں ڈرپ آبپاشی اور بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے نظام کا استعمال بھی شامل ہے، لیکن یہ ابھی تک نافذ نہیں کیے گئے ہیں۔

ڈیجیٹل مارکیٹنگ

ثنا جیسے نئے افراد کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ فصل کی صحیح قیمت حاصل کرنا ہے۔ پاکستان میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ منڈیوں میں آڑھتی اور کمشین ایجنٹ اپنی اجارہ داری قائم رکھتے ہیں اور ہاری کو فصل کی کل قیمت کا صرف 20 یا 25 فیصد ہی مل پاتا ہے۔

ثناخوان حسین کہتے ہیں کہ پڑھے لکھے افراد کے لیے اس مسئلے کا حل ڈیجیٹیل مارکیٹنگ ہے۔

’عام تاثر کے برخلاف، کسان اب زرعی منڈیوں میں اپنی پیداوار کی قیمت وصول کرنے کے حوالے سے کہیں بہتر پوزیشن میں ہیں۔ اس کی وجہ سوشل میڈیا اور واٹس ایپ گروپس کے ذریعے معلومات کی بہتر دستیابی ہے۔ مجموعی طور پر پاکستان میں انٹرنیٹ کی دور دراز علاقوں تک دستیابی کے بعد کسانوں کو بہت فائدہ ہوا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے سے فصلوں کے متعلق معلومات سے لے کر منڈی کی قیمتوں تک کی تفصیلات شیئر کر سکتے ہیں اور اس بارے میں آگاہ رہتے ہیں۔‘

زراعت سے وابستہ ماہرین کے مطابق دنیا میں بڑھتی غذائی قلت اور بڑھتی آبادی کے باعث آج زراعت اور غذائی اجناس کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے، دنیا بھر میں خوراک کی طلب مسلسل بڑھ رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ غذائی اجناس اب ایک منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔

ثنا کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں موسمی تبدیلیوں اور آبادی کے دباؤ کے باعث دنیا بھر میں غذائی اجناس کی اہمیت آنے والے برسوں میں مزید بڑھے گی۔ پاکستان میں کارپوریٹ فارمنگ اپنانے والے افراد کو چاہیے کہپیداوار اور بہتر ہو سکے تو پیکجنگ کو عالمی معیار کے مطابق ڈھالیں تاکہ ہم اس بڑھتی ہوئی طلب کا فائدہ اٹھا سکیں۔‘

ثنا
BBC

’پڑھے لکھے افراد اس روایتی شعبے میں جدت لاتے ہیں‘

اخلاص احمد ایک تجربہ کار زرعی ماہر ہیں جو مختلف کمپینیوں اور افراد کو کارپوریٹ فارمنگ کی کنسلٹنسی فراہم کرتے ہیں۔اُن کا ماننا ہے کہ تعلیم یافتہ افراد جب بھی زراعت میں قدم رکھتے ہیں تو وہ اس انڈسٹری میں نئے تجربات کے ساتھ جدت لاتے ہیں۔

’میں گذشتہ کئی سالوں سے یہ دیکھ رہا ہوں کہ پڑھے لکھے لوگ خصوصاً نوجوان زراعت کو بطور پیشہ اپنا کر نہ صرف خوراک کی کمی جیسے مسائل کا حل تلاش کر رہے ہیں 'بلکہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کسانوں کو جدید معلومات اور طریقے سیکھا کر ان کی زندگی میں بہتری بھی لا رہے ہیں۔‘

اخلاص کے مطابق زراعت کے شعبے میں آنے والے پڑھے لکھے افراد کا رویہ عمومی طور پر مثبت ہوتا ہے اور اُن میں ناصرف سیکھنے کا جزبہ ہوتا ہے بلکہ درست اور جدید معلومات تک رسائی بھی۔

تاہم اخلاص یہ مشورہ دیتے ہیں کہ ’یہ بہت ضروری ہے کہ پڑھے لکھے نوجوان اس شعبے میں سرمایہ لگانے سے پہلے ملک کو درپیش ماحولیاتی چیلنجز اور چھوٹے کسانوں کے مسائل کو گہرائی سے سمجھیں اور پھر فیصلہ کریں۔‘

اخلاص احمد کا یہ بھی کہنا ہے کہ زراعت کے شعبے میں داخل ہونے سے پہلے تکنیکی اور عملی (پریکٹیکل) علم حاصل کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر ایسے بہت سے ادارے ہیںجو جدید اور پائیدار زراعت کے عالمی طریقے سکھانے میں مدد دیتے ہیں۔

اخلاص احمد کارپوریٹ ایگریکلچر میں آنے والے نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ زراعت کے لیے قدرتی اور نامیاتی طریقے اپنائیں جیسے کمپوسٹ، کور کراپس اور فصلوں کی گردش کے طریقہ کار۔

’پوری کوشش کریں کہ فصلوں کو کیمیائی مادوں سے بچائیں اور زمین کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے ماہرین کے مشورے سے نامیاتی مواد کا استعمال کریں۔ اس سے ناصرف فصل پر اٹھنے والی لاگت کم ہوتی ہے بلکہ پیداوار بھی بڑھتی ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.