سچن تندولکر نے جس دس سالہ لڑکی کو راتوں رات سٹار بنا دیا وہ انھیں جانتی تک نہیں

تنڈولکر نے ایک دس سالہ لڑکی کے بولنگ ایکشن کی تعریف کی اور کہا کہ اس میں سابق انڈین فاسٹ بولر ظہیر خان کی ’جھلک‘ نظر آتی ہے۔

ابھی کچھ ہی دنوں کی بات ہے کہ انڈیا کی شمالی ریاست راجستھان کی دس سالہ بچی سُشیلا مینا اپنے گاؤں میں دنیا کی نظروں سے دور عام سی زندگی بسر کر رہی تھیں۔

لیکن سب کچھ اس وقت بدل گیا جب کرکٹ کے لیجنڈ سچن تنڈولکر نے سوشل میڈیا پر اس لڑکی کی کرکٹ کھیلنے کی ایک ویڈیو شیئر کی اور وہ راتوں رات میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئیں۔

تندولکر نے اس دس سالہ لڑکی کے بولنگ ایکشن کی تعریف کی اور کہا کہ اس میں سابق انڈین فاسٹ بولر ظہیر خان کی ’جھلک‘ نظر آتی ہے۔

خیال رہے کہ سابق انڈین باولر ظہیر خان اپنی لائن اور لینتھ کے ساتھ سوئنگ اور اور اپنے منفرد بولنگ ایکشن کے لیے جانے جاتے تھے۔

یہ ویڈیو وائرل ہو گئی اور اسے لاکھوں لوگوں نے دیکھا اور ہزاروں نے شیئر کیا۔

تنڈولکر
Getty Images
تندولکر نے اس دس سالہ لڑکی کے بولنگ ایکشن کی تعریف کی اور کہا کہ اس میں سابق انڈین فاسٹ بولر ظہیر خان کی 'جھلک' نظر آتی ہے

تندولکر کو جانتی تک نہیں لیکن شکرگزار ہیں

لیکن یہ بات دلچسپ ہے کہ وہ لڑکی انڈیا میں کرکٹ کے ’بھگوان‘ کہلائے جانے والے اس کھلاڑی کو ہی نہیں پہچانتی جن کی وجہ سے انھیں راتوں رات شہرت ملی۔

آخر سُشیلا انھیں پہچانتی بھی کیسے۔ نہ اس کے گھر میں ٹی وی ہے اور نہ کبھی اس نے کرکٹ کا کوئی بڑا میچ دیکھا ہے۔

سُشیلا کہتی ہیں کہ ’میں نہیں جانتی کہ وہ (سچن) کون ہیں۔‘ لیکن وہ دوسرے ہی لمحے ان کی شکر گزار نظر آتی ہیں۔

سُشیلا ایک غریب قبائلی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں لیکن اب انھیں ملک بھر میں کرکٹ کے شائقین پہچانتے ہیں۔ اور جو بھی ان سے ملتا ہے وہ انھیں سراہتا ہے۔

سیاست دانوں سے لے کر سماجی کارکنوں تک، یہاں تک کہ دور کے رشتہ داروں تک، اب ہر کوئی ان کے ساتھ تصویر لینا چاہتا ہے۔

سُشیلا کے پاس اس نئی شناخت کو بیان کرنے کے لیے صحیح الفاظ نہیں ہیں۔ وہ بس مسکراتی ہے اور تصویریں کھینچواتی ہیں، وہ ابھی اپنی نئی نئی شہرت سے حیران ہیں۔

ظہیر خان اور سچن تنڈولکر
Getty Images
ظہیر خان اور سچن

ہاتھ میں گیند کے ساتھ رویے میں تبدیلی

لیکن جیسے ہی وہ اپنا سکول یونیفارم پہنتی ہے اور ربڑ کی گیند ہاتھ میں لے کر میدان میں اترتی ہے وہ شرمیلی لڑکی کسی نڈر، مضبوط اور مرکوز توجہ رکھنے والی لڑکی میں بدل جاتی ہے۔

وہ کہتی ہے کہ ’ایک بار جب گیند میرے ہاتھ میں آجائے تو میں صرف بلے باز کو آؤٹ کرنے کے بارے میں سوچتی ہوں۔‘

اس کی ہم جماعت آشا جو بیٹنگ کرتی ہے اور اکثر اس کے مقابل ہوتی ہے، اس کا کہنا ہے کہ سُشیلا کی بولنگ ’مشکل‘ ہے۔

وہ بتاتی ہے کہ ’اس کی گیند غیر متوقع طور پر ٹرن کرتی ہے اور پھر اچانک وکٹ سے ٹکرا جاتی ہے۔‘

سُشیلا کی ماں شانتی بائی کو اس بات پر فخر ہے کہ ان کی بیٹی نے اس قدر شہرت حاصل کی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اب بہت سے لوگ اس سے ملنے کے لیے بے تاب ہیں لیکن ہر کسی نے اس کے کرٹ کھیلنے کی حمایت نہیں کی۔‘

کچھ لوگوں نے والدین سے سوال کیا کہ وہ اپنی بیٹی کو گھر کے کام کاج سکھانے کے بجائے کرکٹ کھیلنے کی اجازت کیوں دے رہے ہیں۔

لڑکیوں کے بارے میں اس طرح کے خیالات انڈیا کے دیہی علاقوں میں عام ہیں، جہاں ان سے اکثر گھر میں رہنے کی توقع کی جاتی ہے اور روایتی صنفی کرداروں سے ہٹ کر کھیلوں یا دوسری سرگرمیوں میں حصہ لینے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔

’اسے کرکٹ کھیلنے سے کبھی نہیں روکوں گی‘

شانتی بائی کہتی ہیں: ’میں ان سے کچھ نہیں کہتی اور نہ ہی میں سنتی ہوں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’میں اسے کرکٹ کھیلنے سے کبھی نہیں روکوں گی۔‘

سُشیلا کے سکول میں ہر کوئی کرکٹ کھیلتا ہے اور اس کا سہرا ان کے استاد ایشور لال مینا کو جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’2017 میں جب میں سکول میں آیا تو میں نے طلباء کو کرکٹ کھیلنے کی ترغیب دینا شروع کی۔ انھیں سکول میں لانے اور مصروف رکھنے کے لیے کسی نہ کسی تفریحی سرگرمی کی ضرورت ہے، نہیں تو وہ گھر پر ہی رہیں گے۔‘

ماسٹر مینا کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر انھوں نے اور دیگر اساتذہ نے ٹیمیں بنانے کا فیصلہ کیا جس میں طلباء ان کے ساتھ کھیلیں گے۔ جلد ہی ہر کوئی اس میں شامل ہونا چاہتا تھا۔

اگرچہ انھوں نے ان کے کوچ کا کردار ادا کیا ہے لیکن استاد مینا کے پاس خود کرکٹ کی کوئی باقاعدہ تربیت نہیں ہے۔ وہ طالب علموں کو نئی تکنیکیں سکھانے کے لیے یوٹیوب ویڈیوز دیکھتے ہیں۔

جب ان کے پاس کافی طلباء آ گئے تو ماسٹر مینا نے ان کی کرکٹ کی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک اکاؤنٹ بنایا۔ آہستہ آہستہ لوگوں نے ان کی ویڈیوز پر ردعمل دینا شروع کر دیا - کچھ نے فارم اور تکنیک کے بارے میں تجاویز بھی دیں۔

سُشیلا سکول کی پہلی طالبہ نہیں ہیں جو انٹرنیٹ پر سنسنی بنی ہیں۔

اس سے قبل رینوکا نے تہلکہ مچایا تھا

پچھلے سال رینوکا پارگی نامی ایک اور طالبہ اپنی بلے بازی کی مہارت کے لیے وائرل ہوئی تھیں۔ وہ فی الحال راجستھان ریاست کے دارالحکومت جے پور میں ایک پرائیویٹ کرکٹ اکیڈمی میں داخل ہیں اور وہ اکیڈمی ان کے تمام اخراجات اٹھا رہی ہے۔

لیکن یہاں کے سکول اور طلباء کو سوشل میڈیا کی توجہ سے زیادہ امداد کی ضرورت ہے۔ سُشیلا کے گاؤں اور اس کے سکول کی حالت بدستور خراب ہے۔

ماسٹر مینا کہتے ہیں کہ ’لوگ آتے ہیں، بڑے بڑے وعدے کرتے ہیں، لیکن کچھ نہیں بدلتا۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ سکول صرف پرائمری سطح تک تعلیم فراہم کرتا ہے۔

’ایک بار جب طلباء پانچویں جماعت پاس کر لیتے ہیں تو ان کی کرکٹ رک جاتی ہے۔ ان کے پاس مواقع نہیں ہوتے۔‘

مقامی سرکاری عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ دیکھیں گے کہ گاؤں اور وہاں کے طلباء کو بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔ محکمہ جنگلات نے کچھ عہدیداروں کو سروے کرنے اور جانچنے کے لیے بھیجا ہے کہ آیا سکول کو کرکٹ کے میدان کو بڑھانے کے لیے کچھ زمین دی جاسکتی ہے۔ لیکن اب تک کچھ نہیں ہوا۔

دریں اثنا، سُشیلا کا گھر تحائف سے بھر گیا ہے۔ ہر جگہ بیٹ ہی بیٹ ہیں، حالانکہ ان کی وجہ شہرت بولنگ ہے اور وہ بولر ہیں۔

سُشیلا کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ ابھی تک کسی نے اسے کرکٹ کی مناسب گیند نہیں دی ہے۔ کرکٹ کی گیند زیادہ سخت ہوتی ہے لیکن وہ ابھی تک ربڑ کی گیند سے ہی بولنگ کر رہی ہے۔ اسے اگر اعلی سطح کی کرکٹ کھیلنی ہے تو اسے کرکٹ کی گیند کی ضرورت ہوگی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ اتنے سارے بیٹس کا کیا کریں گی تو سُشیلا نے شرماتے ہوئے کہا کہ وہ ان کو ’استعمال کرنے کی کوشش کریں گی۔‘

دریں اثنا، گاؤں میں بڑا سوال یہ ہے کہ کیا سُشیلا کی وائرل ہونے والی شہرت اسے ملنے والے تحائف کی طرح ختم ہو جائے گی، اتنی ساری توجہ اور جوش و خروش سے کیا اس کی زندگی میں کوئی فرق پڑے گا؟


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.