اُڑان پاکستان اور ایک کھرب ڈالر کا ہدف: معاشی بحالی کا 10 سالہ منصوبہ ’گیم چینجر‘ یا ’غیر حقیقی‘؟

معاشی بحالی کے کئی چیلنجز سے دوچار پاکستان کی وفاقی حکومت نے ’اُڑان پاکستان‘ کے نام سے ایک پروگرام لانچ کیا ہے جس میں اقتصادی شرح نمو اور برآمدات کے ساتھ ساتھ سماجی شعبوں کے لیے بلند اہداف مقرر کیے گئے ہیں۔ مگر یہ اہداف کیا ہیں اور مبصرین یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ انھیں حاصل کرنا مشکل ہوگا؟
پاکستان، معیشت
Reuters

معاشی بحالی کے کئی چیلنجز سے دوچار پاکستان کی وفاقی حکومت نے ’اُڑان پاکستان‘ کے نام سے ایک منصوبہ لانچ کیا ہے جس میں اقتصادی شرح نمو اور برآمدات کے ساتھ ساتھ سماجی شعبوں کے لیے بلند اہداف مقرر کیے گئے ہیں۔

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے 30 دسمبر کو اس پروگرام کا باقاعدہ افتتاح ایک ایسے موقع پر کیا جب حکومت کی جانب سے ملکی معیشت میں استحکام اور مہنگائی کی رفتار میں کمی سے متعلق دعوے کیے گئے ہیں۔ جبکہ آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے سلسلے میں پاکستان ٹیکس، نجکاری اور توانائی سمیت دیگر شعبوں میں اصلاحات کی کوششیں کر رہا ہے۔

’اُڑان پاکستان‘ کے تحت آئندہ پانچ اور طویل مدت میں سنہ 2035 تک کے معاشی اہداف مقرر کیے گئے ہیں۔ مثلاً ملکی شرح نمو میں اگلے پانچ سال میں چھ فیصد اضافے کا ہدف مقرر کیا ہے اور آئندہ 10 برس یعنی 2035 تک مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا سائز ایک کھرب ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔

یاد رہے کہ اس وقت پاکستان کا جی ڈی پی 374 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔

ادھر مبصرین کی رائے میں ’اڑان پاکستان‘ کے تحت آئندہ پانچ برس کے لیے جو بڑے اہداف رکھے گئے ہیں وہ ملک کے موجودہ معاشی اشاریوں کے مقابلے میں ’خواہشمندانہ‘ ہیں۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کا حصول اس لیے مشکل ہے کیونکہ ایک تو پاکستان میں جاری سیاسی بحران کا فی الحال کوئی حل نظر نہیں آ رہا تو دوسرا یہ کہ ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے سرمایہ کاروں کو راغب کرنا بھی مشکل ہو سکتا ہے۔

’اُڑان پاکستان‘ پروگرام کیا ہے؟

’اڑان پاکستان‘ پروگرام کے بارے میں جب وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال سے رابطہ کیا گیا تو ان کی میڈیا ٹیم کی جانب سے بی بی سی اردو کے سوالات کے تحریری جواب دیے گئے ہیں۔

اس پروگرام کے بارے میں وزیر منصوبہ بندی کا کہنا ہے اُڑان پاکستان ایک جامع قومی اقتصادی تبدیلی کا منصوبہ ہے جو پاکستان کو ’ترقی کی نئی بلندیوں تک‘ پہنچانے کے لیے تیار کیا گیا۔

حکومت کے مطابق اس پروگرام کا مقصد ملک کو مستحکم، پائیدار اور عالمی معیشت میں مسابقتی بنانا ہے جو پانچ ایز کے فریم ورک پر مبنی ہے۔

اس بیان میں کہا گیا کہ ’پہلا مقصد ایکسپورٹ یعنی برآمدات پر مبنی معیشت کو تشکیل دینا، دوسرا ملک میں ڈیجیٹل انقلاب لانا، تیسرا ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات سے نمٹنا ہے۔ چوتھا سیکٹر جہاں توجہ دی جائے گی وہ انرجی اور انفراسٹرکچر کا ہے جبکہ پانچواں ایکویٹی پر مبنی معاشرے کی تعمیر ہے۔‘

پانچ شعبوں کے لیے بڑے اہداف اور ’گیم چینجر‘ ہونے کا دعویٰ

حکومت کی جانب سے اس پروگرام کے تحت جو اہداف مقرر کیے گئے ہیں ان میں سب سے پہلے برآمدات کو اگلے پانچ سال میں 60 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچانا ہے۔

واضح رہے پاکستان کی برآمدات کا موجودہ حجم 30 ارب ڈالر سالانہ کے لگ بھگ ہے۔ اِسی طرح جی ڈی پی کی شرح نمو کو آئندہ پانچ برس میں چھ فیصد تک لے جانا ہے۔ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں شرح نمو ایک فیصد سے بھی کم رہی ہے۔

ای پاکستان کے شعبے میں آئندہ پانچ برس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی فری لانسنگ انڈسٹری کو پانچ ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جس کے لیے سالانہ دو لاکھ آئی ٹی گریجویٹس تیار کیے جائیں گے۔

اڑان پاکستان، معیشت
Getty Images

ماحولیاتی تبدیلی کے شعبے میں آئندہ پانچ برس میں گرین ہاؤس گیسز میں 50 فیصد تک کمی کا ہدف مقرر کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ قابل کاشت زمین میں 20 فیصد سے زائد اضافہ اور پانی کو ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں دس ملین ایکٹر فٹ تک کا اضافہ کرنا ہے۔ توانائی کے شعبے میں قابل تجدید توانائی کا حصہ دس فیصد تک بڑھانا ہے۔

سماجی مساوات کے شعبے میں ’اڑان پاکستان‘ کی دستاویز کے مطابق غربت کی شرح میں 13 فیصد تک کمی لانا ہے۔

ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 40 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے اور عالمی بینک کے اندازوں کے مطابق سنہ 2026 تک یہ شرح 40 فیصد سے اوپر رہنے کا امکان ہے۔

وزیر منصوبہ بندی کی جانب سے تحریری جواب میں بتایا گیا ہے کہ حکومت اس پروگرام میں سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرے گی جس میں قومی اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے آسان قوانین اور مراعات شامل ہیں۔

اس کے ساتھڈیجیٹل سہولت کاری کے سلسلے میں آئی ٹی سٹارٹ اپس اور فری لانسنگ انڈسٹری کے لیے معاونت فراہم کی جائے گی جبکہ تکنیکی تحقیق، اختراع اور صنعتی ترقی کے لیے فنڈز اور گرانٹس کی صورت میںحکومتی مدد فراہم کی جائے۔

عوامی شراکت داری کے لیےپبلک، پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبے بھی اس پروگرام کا حصہ ہیں۔

پاکستان، معیشت
BBC

حکومت کی جانب سے اڑان پاکستان کو ’گیم چینجر‘ قرار دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے بتایا کہ اس پروگرام کے تحت معاشی استحکام کا ہدف ہے کیونکہ برآمدات پر مبنی معیشت کا قیام پاکستانی روپے کو مستحکم کرے گا اور معاشی ترقی کو فروغ دے گا۔

اُن کے مطابق اسی طرح ای پاکستان کے تحت جدید ٹیکنالوجی کا فروغ پاکستان کو عالمی مارکیٹ میں نمایاں کرے گا اور ماحولیاتی تحفظ کے شعبے میں پائیدار ترقی کے لیے قدرتی وسائل کا بہتر استعمال ہو گا جبکہ سماجی مساوات کے شعبے میں خواتین اور نوجوانوں کو معاشی ترقی میں شامل کیا جائے گا۔

اڑان پاکستان کے اہداف ’غیر حقیقی‘؟

اڑان پاکستان میں طے کیے گئے اہداف پاکستان کی معیشت کے موجودہ اشاریوں کے مقابلے بہت زیادہ ہیں اور ان کے پانچ سال میں حصول کے بارے میں ماہرین معیشت زیادہ پرامید نہیں۔

ان کے نزدیک پاکستان کے موجودہ زمینی حقائق، جیسا کہ سیاسی عدم استحکام اور امن و امان کی ناقص صورتحال، میں ان اہداف کا حصول بہت مشکل لگتا ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے بی بی سی کو بتایا ’اِن اہداف کو کوئی بھی سنجیدہ نہیں لے گا۔‘ انھوں نے کہا پاکستان کی معیشت کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ شارٹ ٹرم (قلیل مدتی) اہداف ہیں جب کہ حکومت لانگ ٹرم (طویل مدتی) اہداف طے کر رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ حکومت سے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت مقرر کیے گئے شارٹ ٹرم اہداف حاصل نہیں ہو پا رہے، جیسا کہ ٹیکس کی وصولی وغیرہ تو ایسی صورتحال میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک کسی بڑے ہدف کی طرف بڑھے۔

ڈاکٹر پاشا نے بتایا کہ چھ فیصد گروتھ ریٹ حاصل کرنا بہت مشکل ہے اور جی ڈی پی کا سائز ایک کھرب ڈالر تک لے جانا ’بہت مشکل لگتا ہے‘ کیونکہ پاکستانی معیشت اس مالی سال میں بڑی مشکل سے ایک فیصد تک شرح نمو حاصل کر سکی ہے۔

ان کے مطابق ساٹھ ارب ڈالر کی برآمدات کا ہدف حاصل کرنا اس لیے مشکل ہو گا کہ یہ ہدف ’انڈسٹری نے حاصل کرنا ہے جو اس میں سرمایہ کاری سے ہو گا جبکہ پاکستان میں انڈسٹری میں سرمایہ کاری کی حالت یہ ہے کہ یہ اس وقت 25 سالوں کی کم ترین سطح پر موجود ہے۔‘

ڈاکٹر پاشا نے کہا سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پاکستان میں سرمایہ کاری پہلے ہی کم ہو چکی ہے اور دہشت گردی کے جو واقعات تواتر سے ہو رہے ہیں اس سے سب ہی واقف ہیں۔

انھوں نے کہا حکومت کا آئندہ پانچ یا دس سالوں کا منصوبہ اس وقت اس لیے ’غیر مناسب سا لگتا ہے جب کہ شارٹ ٹرم اہداف کا حصول ناممکن نظر آتا ہو۔‘

پولیٹیکل اکانومی کے ماہر عباس موسوی نے اس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی استحکام اور امن و امان کی صورتحال معاشی گروتھ میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ بڑے منصوبوں کی کامیابی کے لیے حکومت کے لیے عوام میں اپنی ساکھ ہونا ضروری ہوتا ہے۔

وہ مثال دیتے ہیں کہ ’حکومت کی جانب سے اڑان پاکستان میں ڈیجیٹل انقلاب کی بات کی گئی ہے جبکہ یہاں حالت یہ ہے کہ فری لانسنگ کمیوٹی انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔‘

عباس موسوی کی رائے میں اڑان پاکستان میں سب کی شمولیت کو صرف اس لیے دعویٰ ہی سمجھا جائے گا کیونکہ ملک میں سیاسی نمائندگی ’کمپرومائزڈ ہے۔‘

آئی ایم ایف
Getty Images

ادھر معاشی امور کے سینیئر صحافی شہباز رانا نے ڈیجیٹل شعبے میں ترقی کے اہداف کے حوالے سے کہا کہ اربوں ڈالر کی مد میں مبینہ فائر وال نصب کیے جانے سے آئی ٹی کے شعبے میں ترقی متاثر ہوئی ہے۔

دوسری جانب وفاقی وزیر منصوبہ بندی کا کہنا ہے کہ معاشی بحالی کا یہ پروگرام ’زمینی حقائق اور عالمی تجربات کی روشنی میں‘ تیار کیا گیا ہے۔

ان کے مطابق اگر حکومت اور نجی شعبہ شفافیت، استقامت اور عوامی شمولیت کے ساتھ کام کرے تو یہ اہداف قابل حصول ہیں اور انھوں نے ملائیشیا، ترکی اور جنوبی کوریا جیسے ملکوں کی مثال دی ہے۔

اگرچہ احسن اقبال تسلیم کرتے ہیں کہ یہ اہداف ’چیلنجنگ‘ ضرور ہیں لیکن ان کے مطابق یہ غیرحقیقی نہیں۔

’حکومت کی جانب سے موثر پالیسی سازی، ترقیاتی شراکت داری اور وسائل کی بہتر تقسیم کے ذریعے ان اہداف کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘

کیا اس پروگرام کے بعد پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا پڑے گا؟

اڑان پاکستان پروگرام کی لانچنگ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ اس پروگرام کے دو، تین سال کے بعد پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

وزیر خزانہ کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ ’ہماری حکومتیں ماضی میں 25 بار یہ کہہ چکی ہیں کہ یہ پروگرام آخری ہے تاہم یہ حقیقت ہے کہ پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ 25 بار آئی ایم ایف پروگرام حاصل کرنے والا ملک بن چکا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ حکومت کو آئی ایم ایف کی جانب سے مقرر کردہ شارٹ ٹرم اہداف کے حصول پر کام کرنا چاہیے جو اس وقت حاصل نہیں ہو رہے۔

’اڑان پاکستان کے نام پر بڑے اہداف رکھنے پر سب صرف ہنسیں گے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.