پولیس کا کہنا ہے کہ قتل کا ارتکاب کرنے کے بعد ملزم اپنے والد کو شہر کے ایک ریلوے سٹیشن چھوڑنے گیا اور اس کے بعد خود پولیس سٹیشن گیا، جہاں اس نے اس واردات کے بارے میں پولیس کو تفصیل سے بتایا۔
انڈیا کے شہر آگرہ کے اسلام نگر محلے کے ایک 24 سالہ نوجوان اپنے والدین اور چار بہنوں کے ساتھ سال میں دو تین بار اجمیر جایا کرتے تھے۔ اس بار بھی پورا خاندان 18 دسمبر کو اجمیر کے لیے روانہ ہوا لیکن واپسی پر اس خاندان نے اجمیر سے گھر کی بجائے نیا سال منانے کے لیے لکھنؤ جانے کا فیصلہ کیا۔
یہ سب لوگ لکھنؤ کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے۔ یکم جنوری کو اس نوجوان نے سوشل میڈیا پر سات منٹ کا ایک ویڈیو پیغام پوسٹ کر کے سنسنی پھیلا دی کہ انھوں نے اپنے والد کی مدد سے اپنی چار بہنوں اور ماں کو قتل کر دیا۔
پولیس جب ہوٹل پہنچی تو انھیں وہاں نوجوان کی چاروں بہنوں اور والدہ کی لاشیں ملیں۔ پولیس کے مطابق ان میں سے چار کو گلا اور کلائی کاٹ کر مارا گیا اور ایک کی موت گلا گھونٹنے سے ہوئی تھی۔
ڈپٹی پولیس کمشنر روینا تیاگی نے بتایا کہ مقتولین کی جانب سے قتل کے وقت کسی مزاحمت کا کوئی نشان نہیں ملا، جس سے لگتا ہے کہ انھیں قتل کرنے سے پہلے بے ہوشی کی کوئی دوا یا نشہ آور اشیا دی گئی تھی۔
انھیں 31 دسمبر کی رات نیا سال شروع ہونے سے کچھ گھنٹے بعد قتل کیا گیا کیونکہ ہوٹل کے عملے نے ان خواتین کو رات ایک بجے کے آس پاس کمرے کے باہر دیکھا تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ قتل کا ارتکاب کرنے کے بعد ملزم اپنے والد کو شہر کے ایک ریلوے سٹیشن چھوڑنے گیا اور اس کے بعد خود پولیس سٹیشن گیا، جہاں اس نے اس واردات کے بارے میں پولیس کو تفصیل سے بتایا۔
پولیس نے ہوٹل کے کمرے سے قتل میں استعمال کیے گئے بلیڈ اور دوپٹے کو بھی برآمد کر لیا ہے۔
’محلے دار بہنوں کو جسم فروشی کے لیے نہ بیچ دیں، اس لیے میں نے انھیں مار دیا‘
قتل کے بعد ’ایکس‘ پر پوسٹ کی گئی سات منٹ کی طویل ویڈیو میں ملزم نے اپنے بیان کا آغاز اسلام وعلیکم سے کیا اور اپنی بہنوں اور ماں کو قتل کرنے کا اعتراف کیا۔
ملزم نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے اپنی بہنوں کو اس لیے مارا کیونکہ پڑوسی ان کے خاندان کو ہراساں کر رہے تھے اور انھیں ڈر تھا کہ اگر انھیں کچھ ہو گیا تو ان کی ماں اور بہنوں کا کیا ہو گا اور اس لیے انھوں نے انھیں قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔
انھوں نے ویڈیو بیان میں کہا کہ ’میں اپنی کالونی کے لوگوں سے تنگ آ چکا ہوں۔ انھوں نے ہمیں بہت ستایا۔ وہ ہمارے گھر پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ جب ہم نے اس کے خلاف آواز اٹھائی تو ہماری کسی نے نہیں سنی۔ انھوں نے پولیس کو بھی رشوت دے رکھی ہے۔‘
اسی بیان میں انھوں نے کئی پڑوسیوں کا نام لے کر کہا کہ وہ لینڈ مافیا چلاتے ہیں اور ان کی پراپرٹی ہڑپ کر لینا چاہتے ہیں۔
ملزم نے یہ الزام بھی لگایا کہ وہ اور ان کا خاندان اپنا مذہب تبدیل کر کے ہندو مذہب اختیار کرنا چاہتے تھے اور اپنا گھر ایک ہندو مندر بنانے کے لیے وقف کرنا چاہتا تھے۔ انھوں نے کہا کہ جب سے لوگوں کو یہ معلوم ہوا تب سے آس پاس کے لوگ انھیں ہراساں کرنے لگے۔
انھوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ پڑوسی لڑکیوں کی خریدو فروخت کے دھندے میں بھی ملوث ہیں۔
قتل کے بعد ہوٹل کے کمرے میں ہی ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں ملزم نے کہا کہ ’ہمیں ڈر ہے کہ وہ ہم دونوں باپ بیٹے کو کسی جھوٹے الزام میں گرفتار کروا کر میری بہنوں کو جسم فروشی کے لیے بیچ دیں گے، اس لیے میں نے انھیں مار دیا۔‘
اس کے بعد انھوں نے ویڈیو میں بستر پر پڑی اپنی ماں اور بہنوں کی لاشیں بھی دکھائیں۔
پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا ہے اور ان کے والد کی تلاش جاری ہے جبکہ لاشوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ ابھی نہیں آئی۔
محلے والے کیا کہتے ہیں؟
آگرہ میں اسلام نگر کے رہائشی علاقے میں 24 سالہ اس نوجوان کے مکان پر 18 دسمبر سے تالہ لگا ہوا ہے۔
ملزم اور ان کے والد کپڑے فروخت کرنے کا کام کرتے تھے۔ لوہے کے دروازے کے پیچھے گھر کے اندر ایک چارپائی پر رکھے ہوئے کپڑے کے تھان اب بھی دکھائی دے رہے ہیں لیکن گھر سنسان پڑا ہے۔ ملزم پولیس کی تحویل میں ہے اور ان کے والد کو تلاش کیا جا رہا ہےآ
پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ ملزم بہت جارح قسم کا انسان تھا اور وہ اور ان کے والد پڑوسیوں سے گھلتے ملتے نہیں تھے۔
ایک پڑوسی خاتون کے مطابق دونوں باپ بیٹا گھر میں گالم گلوچ اور مار پیٹ بھی کرتے تھے۔
ایک بزرگ پڑوسی نے بتایا کہ ’ملزم بہت غصے میں رہتا تھا۔ وہ صبحکام پر جاتا اور شام میں واپس آ کر گھر کے اندر ہی رہتا تھا۔ کہیں اٹھنا بیٹھنا نہیں تھا۔ یہاں یہ خاندان دس بارہ سال سے رہ رہا تھا۔ دو تین مہینے میں یہ اجمیر جاتا تھا۔‘
بعض محلے داروں کا کہنا ہے کہ ملزم اپنی بیوی کو بیلٹ سے مارتا تھا۔ مبینہ طور پر ان کی اہلیہ روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آ کر شادی کے دو مہینے بعد ہی انھیں چھوڑ کر چلی گئی تھیں۔
بعض پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ ملزم ہر کسی سے لڑائی کرتا اور ان کے رویے کے سبب لوگ ان سے کتراتے تھے۔
تحقیقات میں اب تک کیا پتا چلا؟
جن پڑوسیوں پر الزامات عائد کے گئے ہیں، پولیس نے ان میں سے کچھ سے پوچھ گچھ کر لی ہے۔
قتل کے پہلوؤں کی جانچ لکھنؤ میں ہو رہی ہے لیکن اس کے اسباب کی تفتیش کے لیے آگرہ پولیس نے علیحدہ سے تحقیقات کا عمل شروع کیا ہے۔
مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ ابھی تک کوئی ایسا سراغ نہیں ملا، جس سے ملزم کے بیانات کی توثیق ہو سکے۔
علاقے کے ایک رہائشی نے کہا کہ اپنی سگی بہنوں اور ماں کا بہیمانہ قتل کرنے کے بعد اب پوری بستی کو بدنام کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا ’اگر وہ اپنے گھر کو مندر بنانا چاہتے تھے تو کس نے روکا تھا۔ اگر وہ اپنا مذہب تبدیل کرنا چاہتے تھے تو یہ ان کی مرضی ہے۔ قتل کرنے کے بعد اب معاملے کو مذہبی رنگ دیا جا رہا ہے۔
پولیس کی تحویل میں ملزم اپنے بیان پر قائم ہے تاہم اعتراف جرم کے باوجود قتل کا سبب ابھی واضح نہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ معاملہ اس وقت واضح ہو گا جب ملزم کے والد پولیس کی گرفت میں آئیں گے اور پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سامنے آئے گی۔