سڈنی میں کھیلے جانے والی بورڈر گواسکر سیریز کے پانچویں اور آخری ٹیسٹ میچ میں آسٹریلیا نے انڈیا کو چھ وکٹوں سے شکست دے کر 10 سال بعد یہ ٹرافی اپنے نام کی۔ تاہم ٹرافی کی تقریب میں سابق انڈین کرکٹر سنیل گواسکر کو مدعو نہ کیے جانے پر کئی انڈین فینز کو مایوس ہوئی ہے۔
سڈنی میں کھیلے جانے والی بورڈر گواسکر سیریز کے پانچویں اور آخری ٹیسٹ میچ میں آسٹریلیا نے انڈیا کو چھ وکٹوں سے شکست دے کر 10 سال بعد یہ ٹرافی اپنے نام کی۔ تاہم ٹرافی کی تقریب میں سابق انڈین کرکٹر سنیل گواسکر کو مدعو نہ کیے جانے پر کئی انڈین فینز کو مایوس ہوئی ہے۔
اس فتح کے ساتھ آسٹریلین ٹیم ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ 2025 کے فائنل میں پہنچ گئی ہے۔ فائنل میں آسٹریلیا کی ٹیم جنوبی افریقہ کے مد مقابل ہو گی جو پاکستان کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں فتح کے بعد پہلے ہی فائنل میں جگہ بنا چکی ہے۔
اس کے ساتھ ہی اب آسٹریلیا وہ ٹیم بن کر ابھری ہے جس نے سنہ 2008 کے بعد سے تقریباً ہر ٹیم کے ساتھ کھیلے گئے دو طرفہ ٹیسٹ میچوں میں کامیابی حاصل کی ہے۔
آسٹریلین کپتان پیٹ کمنز سے اس کامیابی کا سہرا اپنی ٹیم کو دیا۔
سڈنی میں کھیلے جانے والے اس میچ کو آسٹریلیا نے تیسرے دن لنچ کے بعد ہی جیت کر سیریز ایک کے مقابلے تین میچوں سے جیت لی۔
اگر آسٹریلین بولر سکاٹ بولان کو میچ میں دس وکٹیں لینے کے لیے پلیئر آف دی میچ قرار دیا گیا تو سیریز میں مجموعی طور پر 32 وکٹیں لینے کے لیے انڈین پیسر جسپریت بمراہ کو سیریز کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔
اس سریز میں بمراہ نے اپنی 200 وکٹیں بھی مکمل کیں اور سب سے کم اوسط کے ساتھ 200 وکٹیں مکمل کرنے والے کھلاڑی بنے۔
میچ میں کیا ہوا؟
انڈین ٹیم کے کپتان روہت شرما نے اپنی مسلسل خراب فارم کی وجہ سے اس میچ سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور یہ ذمہ داری سیریز کے سب سے کامیاب بولر جسپریت بمراہ پر آئی۔
انھوں نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ کیا لیکن انڈین ٹیم پہلے ہی 185 رنز پر آوٹ ہو گئی۔ رشبھ پنت نے سب سے زیادہ 40 رنز بنائے جبکہ بولان نے چار اور سٹارک نے تین وکٹیں لیں۔
آسٹریلیا کے بیٹسمین بھی انڈین بولر کے سامنے نہ ٹھہر سکے اور پوری ٹیم 181 رنز پر آوٹ ہو گئی لیکن بمراہ دس اوورز کے بعد میچ سے باہر چلے گئے اور پھر انھوں نے بولنگ نہیں کی۔
چار رنز کی نفسیاتی سبقت کے ساتھ انڈیا نے بیٹنگ شروع کی لیکن وہ اس کو برقرار نہیں رکھ سکی اور بولان کے تباہ کن بولنگ کے سامنے پوری ٹیم 157 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔
آسٹریلیا کو جیت کے لیے محض 162 رنزکا ہدف ملا جو اس نے چار وکٹوں کے نقصان پر بہ آسانی حاصل کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی انڈیا کے ڈبلیو ٹی سی کے فائنل میں جانے کا خواب چکناچور ہو گيا۔
پرتھ میں کھیلا گیا سیریز کا پہلا میچ انڈیا نے 295 رنز سے جیتا۔ جبکہ ایڈیلیڈ میں کھیلا گیا دوسرا ٹیسٹ آسٹریلیا نے 10 وکٹوں سے جیت لیا۔ تیسرا میچ برزبین میں برابری پر ختم ہوا جبکہ میلبرن میں کھیلے جانے والے چوتھے میچ میں آسٹریلیا نے 184 رنز سے جیت کر ناقابل تسخیر سبقت حاصل کر لی۔
پانچویں میچ نے نہ صرف سیریز آسٹریلیا کے حق میں کر دی بلکہ اسے ڈبلیو ٹی سی کے فائنل میں پہنچا دیا اور دس سال بعد بورڈرگاوسکر ٹرافی بھی آسٹریلیا کے ہاتھوں میں پہنچا دی۔
تاہم سابق آسٹریلین کپتان سٹیون سمتھ ایک رنز کی کمی کے سبب ٹیسٹ میچز میں 10 ہزار رنز مکمل کرنے سے رہ گئے۔
کہاں کمی رہ گئی؟
جب یہ سوال میڈیا نے انڈین کوچ گوتم گمبھیر سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ 'انڈیا کے پاس چانسز تھے لیکن ہم اس کا فائدہ نہیں اٹھا سکے۔' انھوں نے کہا کہ کسی ایک شعبے پر ذمہ داری ڈالنا ٹھیک نہیں کہ ہماری بیٹنگ فلاپ رہی یا بولنگ ناکام رہی۔ انھوں نے کہا کہ انڈین ٹیم کو ہر شعبے میں بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
جب کپتان جسپریت بمراہ سے ان کی فٹنس کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ 'یہ تھوڑا مایوس کن ہے لیکن کبھی کبھی آپ کو اپنے جسم کی سننا پڑتی ہے اور آپ اپنے جسم سے لڑ نہیں سکتے۔ کبھی کبھی آپ کو قبول کرنا پڑتا ہے۔'
انھوں نے بتایا کہ 'پہلی اننگز کے بعد تھوڑی مشکل تھی۔ دوسرے بالروں نے بھی پہلی اننگز میں تیزی دکھائی۔ آج صبح ہونے والی بات چیت بھی اسی اعتماد کے بارے میں تھی۔ بہت سارے اگر مگر تھے لیکن پوری سیریز خوب لڑی گئی۔'
اس کے سیریز کے مثبت پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا: 'بہت سارے تجربے ہوئے اور سبق ملے۔ بہت سے نوجوان کھلاڑی آئے ہیں، مستقبل میں ہماری مدد ہوگی۔ انھوں نے بہت زیادہ تجربہ حاصل کیا ہے اور وہ مضبوطی سے آگے بڑھیں گے۔'
فاتح ٹیم کے کپتان نے پیٹ کمنز نے اسے 'غیر حقیقی' قرار دیا۔ انھوں نے کہا: 'یہ وہ اعزاز ہے جو ہمارے پاس نہیں تھا اور لڑکوں کی اس پر نظر رہی ہے۔'
انھوں نے مزید کہا کہ 'اپنے پلانز کو لے کر ہمیں پتا تھا کہ کیا کرنا ہے۔ ہم رنز کو کم سے کم رکھنا چاہتے تھے۔ ہم جانتے تھے کہ یہ ایک مشکل وکٹ ہے اور بلے بازوں کی تکنیک اچھی تھی۔ بالآخر یہ کام کرگئی اور ہمیں بے حد فخر ہے۔'
جہاں جسپریت بمراہ کے عین وقت پر ان فٹ ہونے پر لوگ تبصرہ کر رہے ہیں وہیں کوچ گوتم گمبھیر کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بمراہ کی غیر موجودگی میں کوہلی کے ایک بار پھر سے کپتان بننے پر بھی تبصرہ ہو رہا ہے اور ان کی قیادت میں انڈیا کو چار رنز کی سبقت ملنے پر ان کی کپتانی کو سراہا جا رہا ہے۔
جبکہ روہت شرما کے آخری میچ سے ہٹنے کو تنقید سے بچنے کا بہانہ کہا جا رہا ہے۔
اس ساتھ محمد سراج بھی ٹرینڈ کر رہے ہیں اور ان کی فٹنس کی تعریف کی جا رہی ہے کہ وہ اکیلے بولر ہیں جس پر انڈیا ہر طرح کے حالات میں بھروسہ کرتی ہے۔
وراٹ کوہلی کے فارم پر بھی لوگ تنقید کر رہے ہیں کیونکہ پہلے میچ میں 100 رنز ناٹ آؤٹ بنانے کے بعد وہ مسلسل ناکام رہے۔ یہاں تک کہ لوگ انھیں ریٹائرمنٹ کا بھی مشورہ دے رہے ہیں۔
صحافی ایوان مورگن گراہم ایکس پر لکھتے ہیں: 'وراٹ کوہلی اب سینڈ پیپر دکھانے کے لیے اپنی جیبیں ٹٹول رہے ہیں، لیکن اگر آپ سکاٹ بولان کی جیب میں جھانکیں تو آپ کو کیا ملے گا؟ آپ نے اندازہ لگایا: وراٹ کوہلی۔'
ان کا اشارہ اس جانب ہے کہ کس طرح بولان نے کوہلی کو بار بار آوٹ کیا۔
https://twitter.com/mohiittverma/status/1875757665676357941
بہت سے صارفین نے خراب کپتانی اور خراب بیٹنگ بولنگ اور فیلڈنگ کے ساتھ ٹیم کے انتخاب کو سیریز میں ناکامی کی وجہ قرار دیا ہے۔
موہت ورما نامی ایک صارف لکھتے ہیں کہ بیٹنگ بالنگ سے لے کر ناقص ٹیم سلیکشن اور قابل اعتراض کپتانی۔۔۔۔ایمانداری سے پوچھیں تو ٹیم انڈیا اس ٹیسٹ میں جیتنے یا پچھلی دو سیریز کے بعد ڈبلیو ٹی سی کے فائنل میں پہنچنے کی لائق ہی نہیں تھی۔
https://twitter.com/bhogleharsha/status/1875756902917034293
معروف کرکٹ کمنٹیٹر ہرشا بھوگلے نے ایکس پر لکھا 'ہر بڑی سیریز کے بعد ایک چیز جو کبھی نہیں بدلتی وہ ہے خالی پن کا احساس۔ یہ آپ کی زندگی، آپ کے خیالات اور آپ کی چند ہفتوں کی گفتگو کا اتنا بڑا حصہ ہے کہ جب یہ ختم ہو جاتی ہے تو آپ کو اچانک خالی پن محسوس ہوتا ہے۔'
اس کے ساتھ انھوں نے بمراہ کی بولنگ کو دیکھنے کے تجربے کو اپنی میڈیا کی زندگی کا بہترین تجربہ قرار دیا۔
https://twitter.com/RichKettle07/status/1875748309270421756
معروف امپائر رچرڈ کیٹنبرو نے گوتم گمبھیر کے دور میں انڈین ٹیم کی کارکردگی پر لکھا کہ 'انڈین ٹیم سری لنکا سے ون ڈے سیریز دو صفر سے ہاری، ہوم گراؤنڈ پر نیوزی لینڈ سے تین صفر سے ٹیسٹ سیریزہاری۔ ہوم گراؤنڈ پر 46 پر آل آوٹ ہوئی۔ 12 سال کی ٹیسٹ سیریز جیتنے کا سلسلہ ختم ہوا۔ ایڈیلیڈ میں پنک بال ٹیسٹ میں شکست سے دو چار ہوئی، ایم سی جی ٹیسٹ ہار گئی اور ایس سی جی ٹیسٹ ہار گئی۔'
https://twitter.com/Wanmohnev/status/1875745854767952184
ایک صارف نے پیٹ کمنز کا ایک انٹرویو شیئر کرتے ہوئے لکھا: 'پیٹ کمنز کو سنیں کہ ان کے خیالات کتنے واضح ہیں اور وہ کس طرح تمام کھلاڑیوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ کوئی پی آر نہیں، کوئی ہائپ نہیں، شاندار لیڈر، وژن والا لیڈر اور اس طرح کے لوگ جیتنا جانتے ہیں۔ میرے نزدیک وہ مین آف سیریز ہیں۔'
سنیل گواسکر کو ٹرافی کی تقریب میں کیوں مدعو نہیں کیا گیا؟
بارڈر گواسکر سیریز جیتنے والے کپتان پیٹ کمنز کو یہ ٹرافی سابق آسٹریلوی کھلاڑی ایلن بارڈر نے پیش کی۔ مگر اس موقع پر سنیل گواسکر وہاں موجود نہیں تھے جن کے نام پر اس سیریز کو منعقد کیا جاتا ہے۔
اگرچہ گواسکر اس دوران سڈنی کے سٹیڈیم میں ہی کچھ فاصلے پر موجود تھے تاہم ویب سائٹ کرک بز کو دیے ایک پیغام میں گواسکر نے کہا کہ انھیں اس تقریب کے لیے مدعو نہیں کیا گیا تھا۔
ایک بیان میں کرکٹ آسٹریلیا کا کہنا ہے کہ بہتر ہوتا اگر بارڈر اور گواسکر دونوں کو سٹیج پر بلایا جاتا۔
اطلاعات کے مطابق کرکٹ آسٹریلیا کا منصوبہ شروع سے یہی تھا کہ اگر انڈیا یہ سیریز جیت جاتا تو گواسکر ٹرافی پیش کرتے جبکہ آسٹریلیا کی جیت کی صورت میں ٹرافی بارڈر کو پیش کرنا تھی۔
تاہم بعض انڈین فینز گواسکر کو ٹرافی کی تقریب میں مدعو نہ کیے جانے پر نالاں ہیں۔ حیسے راجدیپ دیسائی لکھتے ہیں کہ ’کیا کوئی کرکٹ آسٹریلیا کو یاد کرائے گا کہ دو ٹیمیں کھیل رہی تھیں اور یہ ٹرافی دو لیجنڈز کے نام پر ہے؟‘
آسٹریلوی میڈیا کو دیے ایک بیان میں گواسکر نے کہا کہ ’مجھے خوشی ہوتی اگر میں اپنے دوست ایلن بارڈر کے ساتھ ٹرافی (کمنز کو) پیش کرتا۔‘
دریں اثنا کرکٹ آسٹریلیا نے تسلیم کیا ہے کہ بہتر ہوتا اگر دونوں لیجنڈز اس موقع پر موجود ہوتے۔
خیال رہے کہ 2023 میں انڈیا نے اس سیریز میں کامیابی حاصل کی تھی اور اس وقت ٹرافی گواسکر نے انڈین کپتان روہت شرما کو پیش کی تھی۔