چین میں ہر سال لاکھوں نوجوان یونیورسٹی گریجویٹس ہو کر نکلتے ہیں تاہم کچھ شعبے ایسے ہیں جہاں ان اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کا ملنا محال ہوتا جا رہا ہے اور اب ایسے کئی اعلی تعلیم یافتہ نوجوان ویٹر، مستری یہاں تک کے فلم کے ایکسٹرا بن کر کام کر رہے ہیں۔
آج ہم آپ کو لیے چلتے ہیں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سرفہرست اس ملک میں جہاں فزکس میں ماسٹر کی ڈگری رکھنے والا شخص مستری کا کام کر رہا ہے تو صفائی کے کام پر مامور ماحولیاتی منصوبہ بندی میں گریجویٹ ہے۔ ایک ڈیلیوری ڈرائیور فلسفے کی ڈگری رکھتا ہے تو پی ایچ ڈی گریجویٹ معاون پولیس افسر کے طور پر کام کرنے کے لیے درخواستیں دے رہا ہے۔
یہ تمام حقیقی مثالیں چین کی ہیں جہاں ہر سال لاکھوں نوجوان یونیورسٹی گریجویٹس ہو کر نکلتے ہیں تاہم کچھ شعبے ایسے ہیں جہاں ان اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کا ملنا محال ہوتا جا رہا ہے۔
چین کی جدوجہد کرتی معیشت میں ایسی مزید مثالیں تلاش کرنا ہرگز مشکل نہیں۔
سُن ژان، چین کے جنوبی شہر نانجنگ کے ایک ریستوران میں ویٹر کے طور پر اپنی شفٹ شروع کرنے کی تیاری میں مگن ہیں۔
25 سالہ سُن ژان نے حال ہی میں فنانس میں ماسٹرز کی ڈگری مکمل کی اور وہ پرامید تھے کہ وہ کسی اعلیٰ تنخواہ والی ملازمت کے ذریعے ’بہت سا پیسہ کمائیں گے‘ تاہم ان کا خواب حقیقت کا روپ اختیار نہ کر سکا۔
اس صورتحال پر وہ کافی افسردہ ہیں۔
’میرا خواب انویسٹمنٹ بینکنگ میں کام کرنا تھا۔ میں نے ایسی ملازمت تلاش کرنے میں دن رات ایک کیا لیکن کوئی اچھا نتیجہ نہیں نکلا۔‘
چین میں ملکی معیشت کو مشکلات کا سامنا ہے اور رئیل اسٹیٹ اور مینوفیکچرنگ جیسے بڑے شعبوں میں جمود طاری ہے۔
ایسے میں نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 20 فیصد کے قریب پہنچ رہی تھی جسے بہتر ظاہر کرنے کے لیے اعداد و شمار کی پیمائش کا طریقہ تبدیل کیا گیا۔
اگست 2024 میں یہ شرح 18.8 فیصد تھی اور نومبر کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق یہ کم ہو کر 16.1 فیصد تک آ گئی ہے۔
اس دوران بہت سے یونیورسٹی گریجویٹس جو اپنی تعلیم کے شعبے کے مطابق ملازمت تلاش کرنے میں ناکام رہے وہ اب ایسی نوکریاں کر رہے ہیں جو ان کی قابلیت سے کم تر ہیں۔
ایسے میں انھیں اپنے خاندان اور دوستوں کی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔
سن ژان کے والدین نے ان کے ویٹر بننے کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کیا۔
’میرے خاندان کی رائے میرے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ میں نے کئی سال تک پڑھائی کی تھی اور ایک اچھی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ان کے گھر والوں کو ان کی ملازمت کے انتخاب پر شرمندگی ہے۔
’وہ چاہتے ہیں کہ میں سرکاری ملازمت یا کسی اہم عہدے پر ملازمت کی کوشش کروں لیکن یہ میرا انتخاب ہے۔‘
تاہم سن ژان کے پاس مستقبل کے لیے بھی ایک منصوبہ ہے۔ ان کے مطابق وہ ویٹر کے طور پر کام کرتے ہوئے ریستوران کے کاروبار کو سمجھنا چاہتے ہیں تاکہ ایک دن اپنا ریستوران کھول سکیں۔
سن ژان کو یقین ہے کہ اگر وہ ایک کامیاب کاروبار شروع کر لیتے ہیں تو ان کے خاندان کے افراد کو اپنی رائے تبدیل کرنا پڑے گی۔
سٹی یونیورسٹی ہانگ کانگ کی پروفیسر ژانگ جن اس صورتحال کو مشکلات سے بھرپور قرار دیتی ہیں۔
’چین میں ملازمت کی صورتحال واقعی بہت چیلنجنگ ہے، اس لیے بہت سے نوجوانوں کو اپنی ترجیحات اور امیدوں کو دوبارہ ترتیب دینا پڑ رہا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ کئی نوجوان اعلیٰ ڈگریاں حاصل کر رہے ہیں تاکہ بہتر مواقع مل سکیں لیکن پھر حقیقت میں ملازمت کے ماحول کی سختیاں ان کے سامنے آتی ہیں۔
29 سالہ وو ڈان نے ہانگ کانگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے فنانس کی ڈگری حاصل کی لیکن جب نوکری کی باری آئی تو اپنی ڈگری کے برعکس انھوں نے پہلے شنگھائی میں ایک فیوچرز ٹریڈنگ کمپنی میں کام کیا اور اب وہ شنگھائی میں سپورٹس انجری مساج کلینک میں تربیت حاصل کر رہی ہیں۔
ووڈان اس صورتحال پر نالاں ہیں۔ انھوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن وہ اس جگہ کام کریں گی۔
’یہاں روزگار کے مواقع واقعی بہت محدود ہو گئے ہیں۔ میرے ماسٹرز ڈگری کے زیادہ تر کلاس فیلوز کے لیے یہ پہلی بار ہے کہ وہ نوکری تلاش کر رہے ہیں۔ ان میں سے بہت کم لوگوں کو کوئی ملازمت ملی۔‘
ہانگ کانگ میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب وہ چین واپس آئیں، تو انھوں نے پرائیویٹ ایکویٹی فرم میں کام کرنے کی خواہش ظاہر کی اور کچھ جگہ سے ان کو آفر بھی ملی لیکن اس کی شرائط سے وہ مطمئن نہیں تھیں۔
انھوں نے کوئی پیشکش قبول نہ کی اور اس کی بجائے سپورٹس میڈیسن کی تربیت شروع کر دی جسے ان کے خاندان نے پسند نہیں کیا۔
’وہ سمجھتے ہیں کہ میرے پاس پہلے بہت اچھی ملازمت تھی اور میرا تعلیمی ریکارڈ بھی بہت اچھا ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ میں نے ایک ایسی ملازمت کا انتخاب کیوں کیا جس میں جسمانی محنت کرنی پڑتی ہے اور تنخواہ بھی کم ہے۔‘
وو ڈان تسلیم کرتی ہیں کہ شنگھائی میں وہ اپنے موجودہ معاوضے پر زندہ نہیں رہ سکتیں تھیں اگر ان کے پارٹنر کا گھر نہ ہوتا۔
شروع شروع میں انھیں اپنے موجودہ کیریئر کے فیصلے کی حمایت میں کوئی نہیں مل، لیکن حال ہی میں انھوں نے اپنی والدہ کی کمر کے درد کا علاج کیا، جس سے ان کی تکلیف میں نمایاں کمی آئی اور اب ان کی والدہ ان کے فیصلے پر رضامند ہیں۔
فنانس کے شعبے کی ڈگری یافتہ وو ڈان اب کہتی ہیں کہ سرمایہ کاری کی دنیا میں کام کرنا ان کے لیے شاید مناسب نہیں تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ انھیں سپورٹس انجری میں دلچسپی ہے۔ وہ اپنے کام کو پسند کرتی ہیں اور ایک دن اپنا کلینک کھولنا اب ان کی اولین خواہش ہے۔
پروفیسر ژانگ کا کہنا ہے کہ ’چین میں اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اب مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ بہتر مستقبل اور اچھی پوزیشن کے حصول کے حوالے سے روایتی تصورات کو بدلیں۔‘
ان کے مطابق چین میں بڑی ٹیک کمپنیوں سمیت متعدد دیگر کمپنیوں نے بڑی تعداد میں ملازمین کو برطرف کر دیا اورنوجوانوں کو اس چیز کو ایک وارننگ سائن کے طور پر دیکھنا چاہیے۔‘
پروفیسر ژانگ مزید کہتی ہیں کہ گریجویٹس کے لیے پرکشش سمجھے جانے والے معیشت کے کئی اہم شعبے اب ناقص شرائط پیش کر رہے ہیں اور ان میں معقول ملازمت کے مواقع بالکل ختم ہوتے جا رہے ہیں۔
اس دوران جب تک بے روزگار گریجویٹس اپنے مستقبل کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرتے وہ فلم اور ٹیلی ویژن انڈسٹری کی طرف بھی رجوع کر رہے ہیں۔
بڑے بجٹ کی فلموں کو کہانیوں میں اضافی کرداروں کی ضرورت ہوتی ہے اور شنگھائی کے جنوب مغرب میں واقع چین کے مشہور فلمی پروڈکشن ٹاؤن ہینگڈین میں کئی نوجوان گریجویٹس اداکاری کے مواقع تلاش کر رہے ہیں۔
وو ژنگھائی الیکٹرانک انفارمیشن انجینئرنگ کے طالب علم رہے ہیں تاہم ابھی وہ ایک ڈرامے میں باڈی گارڈ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
’میں عام طور پر مرکزی کردار کے ساتھ محض ایک ’شو پیس‘ کے طور پر کھڑا ہوتا ہوں۔ مجھے مرکزی اداکاروں کے ساتھ دیکھا جاتا ہے لیکن میرے پاس کوئی مکالمہ نہیں ہوتا۔‘
26 سالہ وو ژنگھائی نے ہنستے ہوئے کہا کہ ’اچھی شکل و صورت نے مجھے فلموں میں ایکسٹرا کے طور پر ملازمت دلانے میں مدد دی۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ لوگ عام طور پر ہینگڈین چند مہینوں کے لیے آتے ہیں اور کام کرتے ہیں۔
وو ژنگھائی خود بھی اس کام کو اپنی ملازمت کے عارضی حل کے طور پر دیکھتے ہیں تاوقتیکہ کہ انھیں کوئی مستقل ملازمت نہ مل جائے۔
’میں زیادہ پیسے نہیں کماتا لیکن میں مطمئن ہوں اور خود کو آزاد محسوس کرتا ہوں۔‘
فلم ڈائریکشن اور سکرین رائٹنگ میں تعلیم حاصل کرنے والے لی بھی روزگار کے حوالے سے پریشان ایسے ہی گریجویٹ کی صف میں شامل ہیں۔
لی نے اپنا پورا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انھوں نے بھی چند مہینوں کے لیے بطور اضافی اداکار کام کرنے کا معاہدہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جیسے ہی آپ گریجویٹ ہوتے ہیں، آپ بے روزگار ہو جاتے ہیں، یہی صورتحال چین میں ہے۔‘
’میں یہاں کام تلاش کرنے آیا ہوں، جب تک میں جوان ہوں۔ جب عمر بڑھ جائے گی تب تک کوئی مستقل نوکری ڈھونڈ لوں گا۔‘
لیکن بہت سے لوگوں کو خوف ہے کہ وہ کبھی بھی ایک اچھی ملازمت حاصل نہیں کر پائیں گے اور انھیں ایسی نوکری پر سمجھوتہ کرنا پڑے گا جو ان کی توقعات کے بالکل برعکس ہو۔‘
چینی معیشت کی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے نوجوان اکثر نہیں جانتے کہ ان کے لیے مستقبل میں کیا امکانات ہیں۔
وو ڈان کہتی ہیں کہ ان کے ملازمت کرنے والے دوست بھی خود کو ابہام میں محسوس کرتے ہیں۔
’وہ کافی الجھن میں ہیں اور انھیں لگتا ہے کہ مستقبل غیر واضح ہے۔ جن کے پاس ملازمتیں ہیں وہ بھی ان سے مطمئن نہیں۔ انھیں نہیں معلوم کہ وہ ان عہدوں پر کتنے عرصے تک قائم رہ سکتے ہیں اور اگر انھوں نے اپنی موجودہ ملازمت کھو دی تو پھر وہ کیا کریں گے۔‘
وو ڈان کہتی ہیں کہ اب انھوں نے خود کو وقت کے دھارے پر چھوڑ دیا ہے جس میں وہ اور آہستہ آہستہ یہ جان جائیں گی کہ انھیں زندگی میں اصل میں کیا کرنا ہے۔‘