ژوب میں محکمہ سماجی بہبود حکومت بلوچستان کے ڈپٹی ڈائریکٹر ملک احسان الحق مندوخیل نے بتایا کہ مسرت عزیز ژوب کی ایک معروف متحرک سماجی اور انسانی حقوق کی کارکن تھیں جنھیں یکم جنوری کو قتل کر دیا گیا۔
’دونوں کو ایک ساتھ کھانا کھاتا دیکھنے کے بعد ہم سمجھے کہ بہن اور بھائی کے درمیان معاملہ حل ہو گیا ہے لیکن بہن کی ایک بات سُننے کے بعد بھائی کمرے سے باہر نکل گیا اور چند لمحوں بعد جب واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں پستول تھا جس سے فائر کر کے اس نے بہن کو قتل کر دیا۔‘
یہ کہانی ہے بلوچستان کے علاقے ژوب سے تعلق رکھنے والی خاتون سماجی کارکن مسرت عزیز کے قتل کی جسے بتاتے ہوئے ان کی والدہ منورہ سلطانہ کا کہنا تھا کہ انھیں عمر کے ایک ایسے حصے میں غم سے دوچار کیا گیا جس میں ان کے اندر یہ بوجھ اُٹھانے کی سکت نہیں۔
فون پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے منورہ سلطانہ نے بتایا کہ ان کی بیٹی ایک سماجی کارکن تھیں جس پر ان کے ایک بیٹے کو اعتراض تھا اور وہ چاہتے تھے کہ بہن اس کام کو ترک کرے اور سوشل میڈیا پر نہ آئے۔
’لیکن میری بیٹی کا جواب یہ تھا کہ مستحق لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کرنا ان کا مشن ہے جس کو وہ چھوڑ نہیں سکتی۔‘
ژوب میں محکمہ سماجی بہبود حکومت بلوچستان کے ڈپٹی ڈائریکٹر ملک احسان الحق مندوخیل نے بتایا کہ مسرت عزیز ژوب کی ایک معروف متحرک سماجی اور انسانی حقوق کی کارکن تھیں۔
ان کی خدمات کے اعتراف میں محکمے نے ژوب شہر میں حال ہی میں اپنی ایک عمارت ان کے حوالے کی تھی تاکہ وہ خواتین کی بھلائی کے کام کو بہتر انداز سے سرانجام دے سکیں۔
مسرت عزیز کے قتل کا مقدمہ ان کے بھائی اور بھابھی کے خلاف درج کیا گیا ہے۔
اس واقعے کی ایف آئی آر میں کیا لکھا ہے؟
مسرت عزیز کے قتل کا مقدمہ ژوب پولیس کے سب انسپیکٹر روزی محمد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی تین دفعات 302, 109 اور 34 کے تحت مفرور ملزم اور ان کی بیوی کے خلاف درج کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق ایک گولی مقتولہ کے بازو کے اوپر کے حصے، ایک گولی منھ پر اور دو گولیاں پیٹ میں لگی تھیں۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ واقعے کی شب ملزم نے اپنی بہن کو سوشل میڈیا کے استعمال، سیاسی مصروفیات اور این جی او میں کام کرنے سے روکنے کے لیے ممتاز کے گھر بلایا جہاں مقتولہ کی والدہ، ایک بہن، بھابی اور دوسرا بھائی موجود تھا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ بات چیت اور کھانا کھانے کے بعد ملزم کی بیوی اپنے پرس کے ساتھ باہر نکلی اور اس کے بعد ملزم بھی فوراً کمرے سے باہر نکل گیا۔
ایف آئی آر کے مطابق دو تین منٹ کے بعد ملزم کی بیوی بغیر پرس کے کمرے میں واپس آئی اور کمرے کے ایک کونے میں بیٹھ گئی۔ ان کے بیٹھنے کے فوراً بعد ملزم بھی کمرے میں داخل ہوا اور اپنی بہن کے سامنے کھڑے ہو کر ایک دم پستول سے فائرنگ شروع کر دی جس سے مسرت بی بی شدید زخمی ہوئیں۔
زخمی ہونے کے بعد ان کو سول ہسپتال ژوب لے جایا جا رہا تھا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے راستے میں ہی فوت ہو گئیں۔
ایف آئی آر کے مطابق ملزم لوگوں کی گھبراہٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اور پستول کے زور پر دھمکاتے ہوئے اپنی بیوی کو لے کرموقع سے فرار ہو گیا۔
پولیس نے اب تک کیا کارروائی کی ہے؟
ژوب پولیس کے سربراہ صبور آغا نے فون پر رابطہ کرنے پر بتایا کہ ایف آئی آر کے اندراج کے لیے مقتولہ کے کسی رشتہ دار کا انتظار نہیں کیا گیا بلکہ فوری طور پر پولیس کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے مقدمات میں جب دونوں طرف ایک ہی خاندان کا نقصان ہو تو پھر خواتین کے معاملے میں خاندان کے لوگ یا تو ایف آئی آر درج نہیں کرواتے یا پھر حقائق تبدیل کر کے دیر کرتے ہیں جس کا اثر کیس پر پڑتا ہے۔
ژوب پولیس کے سربراہ نے بتایا کہ قتل کا مرکزی ملزم خود تو واردات کے بعد فرار ہوا، تاہم ابتدائی تحقیق کے حوالے سے بعض شواہد سامنے آنے کے بعد ان کی بیوی کو مقدمے میں نامزد کر کے گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مرکزی ملزم کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں اور ان کی گرفتاری اور انصاف کی فراہمی کے لیے قانون کے جتنے بھی تقاضے ہیں ان کو پورا کیا جائے گا۔
’بھائی کا دباؤ تھا کہ بہن یہ کام چھوڑ دے‘
مسرت عزیز کی والدہ نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ مسرت کا اپنے ملزم بھائی کے ساتھ یہی تنازع تھا کہ وہ سماجی کام کرنا اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹ انٹرویو دینا چھوڑ دے اور شادی کر کے گھر میں رہے۔
اس کے برعکس ’میری بیٹی کہتی تھی کہ انسانوں بالخصوص غریبوں اور بیواؤں کی خدمت میرا مشن ہے۔ میں اس کام کو چھوڑ نہیں سکتی اور اس پر ان کے درمیان تناؤ رہتا تھا۔‘
منورہ سلطانہ کا مزید کہنا تھا کہ شوہر کے وفات کے بعد مسرت عزیز کے پاس والدین کے گھر میں رہنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں تھا اور دوسری طرف ان کا بیٹا اس بات کے لیے دباؤ ڈال رہا تھا کہ بہن کو گھر سے نکال دیا جائے۔
’میرا بیٹا اور ان کے بچے ہم سے الگ رہ رہے تھے۔ میں ان کو کہتی تھی کہ بیٹا آپ مرد ہیں باہر رہ سکتے ہیں لیکن آپ کی بہن عورت ہے وہ کہاں اکیلی رہ سکتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ معاملہ حل نہیں ہو رہا تھا جس پر میری بیٹی نے کہا کہ وہ خود بھائی سے بات کریں گی جس پر سب ان کی بہن کے گھر پر جمع ہو گئے۔
بھائی کے گولی چلانے سے پہلے مسرت عزیز نے کیا کہا؟
منورہ سلطانہ کہتی ہیں کہ معاملے کو حل کرنے کے لیے انھوں نے اپنی بہن کے گھر پر مسرت، ملزم اور ان کی بیوی کے علاوہ دیگر لوگوں نے رات کا کھانا ساتھ کھایا۔
انھوں نے بتایا کہ ’اکھٹے کھانا کھانے کے بعد ہم مطمئن ہوئے کہ اب معاملات بہتر ہوں گے لیکن کھانا کھانے کے بعد ملزم نے مسرت کو ایک بار پھر کہا کہ سماجی کام اور سوشل میڈیا پر انٹرویو دینا بند کرو جس پر بیٹی نے کہا کہ یہ ممکن نہیں اور اس کے بعد میرا بیٹا اس کمرے سے باہر نکل گیا۔‘
’جب بیٹا باہر نکل گیا تو ہم یہی سمجھے کہ وہ کسی ضرورت کے لیے باہر گیا ہے لیکن ایسا نہیں تھا۔ وہ جب واپس آیا تو ان کے ہاتھ میں پستول تھا اور اس نے کمرے میں دوبارہ داخل ہوتے ہی سامنے بیٹھی اپنی بہن پر فائر کھول دیا۔‘
منور سلطانہ کہتی ہیں کہ جب ان کی بیٹی کو پہلی گولی لگی تو انھوں نے اپنے بیٹے کو روکنے کی کوشش کی لیکن اتنی دیر میں مزید گولیاں مسرت عزیز کے جسم کے دیگر حصوں میں پیوست ہوچکی تھیں۔
انھوں نے کہا کہ اس کے بعد ملزم وہاں سے نکل کر فرار ہو گیا۔ اس واقعے کے بعد مقامی پولیس نے فوری طور پر اپنی مدعیت میں اس واقعے کا مقدمہ درج کرلیا ہے۔
مسرت عزیز کون تھیں؟
مسرت عزیز کا تعلق ایک کشمیری بٹ خاندان سے تھا۔
ان کے خاندان کے لوگ طویل عرصے سے بلوچستان، وزیرستان اور افغانستان سے متصل ضلع ژوب کے ہیڈکوارٹر ژوب شہرمیں آباد ہیں۔
انھوں نے ژوب ہی سے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی تھی۔ اگرچہ پشتو ان کی مادری زبان نہیں تھی مگر ژوب میں جنم لینے والی مسرت عزیز روانی کے ساتھ پشتو بولتی تھیں۔
ان کی عمر اندازاً 40 سال تھی۔ ان کے شوہر کی وفات چند برس قبل ہوئی تھی جس کے باعث وہ اپنے والدین کے گھر میں رہائش پیر تھیں۔
ان کی والدہ منورہ سلطانہ نے بتایا کہ مسرت نے شروع ہی سے لوگوں کی خدمت کو اپنا شعار بنایا اس لیے انھوں نے کلی شیخان میں التوحید سینٹر کے نام سے ایک ہنر مرکز بنایا تھا۔
محکمہ سماجی بہبود کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے بتایا کہ ایک خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ مسرت عزیز ایک بیوہ بھی تھیں جس کے باعث انھیں خواتین کے مسائل اور مشکلات کا احساس تھا۔
اسی لیے محکمے نے ان کی خدمات کے پیش نظر اپنی عمارت ان کے حوالے کیا تھا۔
’سال کے پہلے دن نئی جگہ پر باقاعدہ کام شروع کرنے کی ان کی خوشی بس چند گھنٹوں تک ہی محدود رہی۔‘
محکمہ سماجی بہبود کے ڈپٹی ڈائریکٹر ملک احسان الحق مندوخیل کا کہنا ہے کہ پہلے مسرت عزیز نے خواتین کو ہنر سکھانے کا جو مرکز قائم کیا تھا وہ کلی شیخان میں تھا جو کہ شہر سے کچھ فاصلے پر تھا۔
انھوں نے مزید کہا کہ وہ خواتین کو اس مرکز میں سلائی اور کڑاھی وغیرہ کا کام سکھانے کے علاوہ قرآن بھی پڑھاتی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ایک پیج بھی بنایا تھا جس پر وہ کام کی تشہیر کر کے بہت ساری خواتین کو کام سیکھنے کی طرف راغب کرتی تھیں۔
سرکاری افسر کے مطابق چونکہ مسرت عزیز کا ہنر مرکز شہر سے باہر تھا اس لیے انھوں نے ہم سے مدد کے لیے رابطہ کیا تھا۔
’چونکہ ہم ان کی سماجی بہبود اور انسانی حقوق کے لیے سرگرمیوں سے پہلے سے اچھی طرح سے واقف تھے جس کے باعث میں نے محکمے کے مجاز حکام کو ژوب شہر کے اندر محکمے کی ایک غیر فعال عمارت مسرت عزیز کے حوالے کرنے کی تجویز پیش کی تو اسے منظور کرنے میں دیر نہیں لگائی گئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ شہر کے اندر عمارت ملنے پر وہ انتہائی خوش تھیں اور انھوں نے جب مرکز کی شہر کے اندر منتقلی کا اشتہار سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر دیا تو بڑی تعداد میں خواتین نے ان سے رابطہ کیا۔
ملک احسان الحق مندوخیل نے مزید بتایا کہ رواں سال کے پہلے دن یعنی یکم جنوری کو مسرت عزیز نے اس مرکز میں خواتین اور بچیوں کو ہنرسکھانے کے کام کا جب باقاعدہ آغاز کیا تو وہ اس پربہت خوش تھیں، لیکن ان کی یہ خوشی صرف چند گھنٹوں تک محدود رہی کیونکہ یکم جنوری کی شب ہی ان کے بھائی نے فائرنگ کرکے ان کی زندگی کا خاتمہ کر دیا۔