اپنی والدہ کو 18 سال بعد دوبارہ شادی پر آمادہ کرنے والے عبدالاحد: ’کسی کے نکاح پر پہلی بار گواہ بنا تھا، وہ بھی اپنی اماں کے‘

احد نے پانچ سال کی عمر سے اپنی ’اماں‘ کو سنگل پیرنٹ کے طور پر دیکھا۔ اب 24 سال کی عمر میں انھوں نے اماں کے لیے وہ ذمہ داری نبھائی جو عموماً پاکستانی معاشرے میں خواتین کے لیے باپ یا بڑے بھائی نبھاتے ہیں۔

عبدالاحد نے پانچ سال کی عمر سے اپنی ’اماں‘ (والدہ) کو سنگل پیرنٹ کے طور پر دیکھا۔ اب 24 سال کی عمر میں انھوں نے اپنی والدہ کے لیے وہ ذمہ داری نبھائی جو عموماً پاکستانی معاشرے میں خواتین کے لیے باپ یا بڑے بھائی نبھاتے ہیں۔

عبدالاحد نے اپنی والدہ کا دوبارہ نکاح کروا کر انھیں وہ زندگی جینے کے لیے رخصت کیا جو وہ 18 سال سے جی نہیں پائی تھیں۔

انھوں نے اپنی والدہ کو اس وقت ویڈیو کال کی جب وہ نکاح کے لیے پارلر میں تیار ہو رہی تھیں۔ ’اماں ویڈیو کال پر رو رہی تھیں کہ اتنے عرصے کے بعد تیار ہو کر بیٹھی ہوں۔‘

عبدالاحد کا کہنا تھا کہ ’جب اماں پارلر سے گھر آئیں تو بہت پیاری لگ رہی تھیں۔ میں تب ان سے ملا نہیں اور دوست کے پاس چلا گیا اور اس سے کہا کہ یار یہ تو وہ لگ ہی نہیں رہیں، بہت پیاری لگ رہی ہیں۔‘

نومبر 2024 کے دوران صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں عبدالاحد نے اپنی والدہ کے نکاح کے دن گھر پر ہی اپنی بہن کے ساتھ مل کر لاؤنج سجایا تھا۔ اور نکاح خواں سمیت مہمانوں کے لیے تمام تیاریاں مکمل کیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میں پہلی بار کسی کے نکاح میں گواہ بنا تھا، وہ بھی اپنی اماں کے نکاح میں۔‘

احد کی اماں، مدیحہ کاظمی نے پہلے خاوند سے علیحدگی کے بعد وہی ذندگی گزاری تھی جس کا تقاضہ یہ معاشرہ کسی بھی سنگل مدر سے کرتا ہے۔ یعنی بچوں کی خاطر اپنی ہر خواہش دبا کر اُن کے مستقبل کے لیے محنت کی جائے۔

احد، مدیحہ، نکاح، ماں، بیٹا
BBC

خود مدیحہ کو بھی لگتا تھا کہ ایک ماں ہونے کے ناطے ان کے پاس اپنے لیے سوچنے کی گنجائش نہیں ہے۔ انھیں ڈر تھا کہ دوبارہ شادی کے بعد ان کے بچوں کے لیے وہ قبولیت نہیں ہو گی۔

ان کا کہنا ہے کہ ان سے شادی کے لیے کئی رشتے آتے تھے لیکن وہ اس بارے میں نہیں سوچتی تھیں۔

پھر ان کے بچوں نے ان کی اس سوچ کو بدلا۔

مدیحہ کی بیٹی طوبیٰ ایک پرائیویٹ سکول میں کام کرتی تھیں جہاں ایک کولیگ نے ایک رشتے دار کی شادی کے سلسلے میں طوبیٰ کی والدہ کو بہترین انتخاب سمجھا۔

یہاں سے چلنے والی بات ہی بالآخر نکاح تک پہنچی۔

عبدالاحد بتاتے ہیں کہ ’بہن بھائیوں نے مل کر اماں کی ہمت بندھائی اور انھیں یقین دلایا کہ وہ اپنی زندگی پوری طرح جینے کا حق رکھتی ہیں۔‘

بچوں نے کسی بڑے کی طرح ’لڑکے‘ سے ملاقات کی۔ انھوں نے پہلے اپنی اور والدہ کی تسلی کی اور پھر چند ماہ میں نکاح کے بعد ماں کو رخصت کیا۔

احد نے نکاح کی ویڈیو ایک خوبصورت پیغام کے ساتھ سوشل میڈیا پر شیئر کی تو اسے کئی لاکھ افراد نے دیکھا اور اسے خوبصورت روایت قرار دیا۔

احد، مدیحہ، نکاح، ماں، بیٹا
BBC

لیکن کیا ان کے لیے سب کچھ آسان تھا؟

احد کا کہنا ہے کہ ایسے کئی مقام آئے جہاں انھیں ’اماں‘ کے پرایا ہو جانے کا احساس ہوا۔

'میری عادت ہے کہ خواتین میں سے کوئی بھی ہو میں اسے احتراماً ’سی آف‘ کرنے خود جاتا ہوں۔ خاص طور پر اماں کو۔ تو نکاح کے بعد رخصتی میں، میں اسی عادت کے تحت آگے بڑھا، لیکن ان کے شوہر نے خود ان کا لہنگا سنبھالتے ہوئے ان کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولا۔ تبکچھ محسوس ہوا۔‘

اسی طرح گھر کی روٹین میں احد کو والدہ کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ وہ بلا جھجھک بتاتے ہیں کہ ’گیزر چلانے سے لے کر کپڑے استری کرنے تک، سب وہ کرتی تھیں۔ پھر احساس ہوا کہ بہت سے چھوٹے چھوٹے کام ہیں جو وہ کرتی تھیں۔ لیکن اب خود کرنے ہیں۔‘

لیکن ان کا پیغام سب کے لیے یہی ہے کہ ان کاموں اور ذمہ داریوں کی وجہ سے کسی کی شادی کا نہ سوچنا خود غرضی ہے۔

’کسی بھی خاتون، چاہے وہ ماں ہو، بہن یا کوئی خاتون دوست، اسے حوصلہ دلانا چاہیے کہ وہ اپنی ذندگی میں دوسرا چانس لیں۔‘

والدہ کی شادی کی ویڈیو وائرل ہونے سے متعلق ان کا کہنا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر کچھ پوسٹ کرتے ہوئے بہت جھجھک رہے تھے۔

یہاں تک کہ ان سے ویڈیو اپ لوڈ کرنے بعد شیئر کا بٹن نہیں دبایا جا رہا تھا۔

تو ان کے ایک دوست نے ان کی غیر موجودگی میں شیئر کا بٹن دبایا۔ اس کے بعد آنے والا رسپانس ان کے لیے کافی غیر متوقع تھا۔

لیکن انھیں خوشی ہے کہ لوگوں نے اس سے اچھا پیغام لیا۔ انھیں لگتا ہے کہ اس ویڈیو سے لوگوں کو یہ پیغام ملا ہے کہ مردوں اور خواتین کے لیے بڑی عمر میں بھی شادی قابل قبول ہوسکتی ہے۔

احد، مدیحہ، نکاح، ماں، بیٹا
Getty Images

پاکستان میں بڑی عمر میں شادی معیوب کیوں؟

دنیا بھر میں دو بالغ افراد کی شادی ’خبر‘ کا درجہ نہیں رکھتی۔ جبکہ ان کا کوئی سلیبرٹی سٹیٹس بھی نہ ہو اور نہ ہی اس شادی سے کوئی اور انہونی جڑی ہو۔

لیکن پاکستان جیسے معاشرے میں بالغ بچوں کی موجودگی میں ایک خاتون کی بڑی عمر میں شادی نہ صرف غیر معمولی بات سمجھی جاتی ہے بلکہ اسے معیوب جانا جاتا ہے۔

بہت سے سنگل پیرنٹ شادی کی خواہش کا اظہار نہیں کر پاتے اور نہ ہی اپنی نئی زندگی کے لیے نیا ساتھی تلاش کر پاتے ہیں۔

پاکستان میں حال ہی میں اداکارہ بشریٰ انصاری اور ثمینہ احمد نے عمر کے ایسے حصے میں شادی کی جہاں فرض کر لیا جاتا ہے کہ اب شادی کی عمر گزر چکی۔

اس پر وہی سب باتیں ہوئیں جو ایسے مواقع پر کی جاتی ہیں۔ لیکن اب سوشل میڈیا پر ایسے فیصلوں کا دفاع اور حوصلہ افزائی بھی موجود ہے۔

شاعر اور ادیب وصی شاہ نے اسی معاملے پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ آٹھ سال کے تھے جب ان کی والدہ بیوہ ہوئیں اور انھوں نے ان کی تنہائی دیکھی ہے۔

انھیں احساس ہے کہ ’ہر ایسی خاتون کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے بلکہ ان سے باقاعدہ درخواست کرنی چاہیے کہ وہ شادی کر لیں۔ ہمیں اس ٹیبو کو معمول پر لانا ہوگا۔‘

سنگل پیرنٹ ہونا نفسیاتی اعتبار سے کسی چیلنج سے کم نہیں کیونکہ بچوں کے معمولات، گھر کے اخراجات اور پھر بہتر پرورش کی ذمہ داری دوگنی ہوجاتی ہے۔

احد، مدیحہ، نکاح، ماں، بیٹا
BBC

مسلسل تنہائی ایک تنہا پیرنٹ کو نفسیاتی مسائل میں مبتلا کر سکتی ہے۔

ماہرِ نفسیات ڈاکٹر جنید رسول کا کہنا ہے کہ میاں بیوی میں سے کسی ایک کی موت یا ان میں علیحدگی خود ایک صدمہ ہے اور اس کے بعد اس صدمے سے جڑا دباؤ یا پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس باقی رہتا ہے۔

اس کے بعد بچوں کی پرورش میں اکثر ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داری نبھانی پڑ جائے تو یہ ’ہر طرح سے شدید نفسیاتی دباؤ کی صورت میں سامنے آتی ہے۔‘

پاکستان میں طلاق یا خلع کے بعد دوبارہ شادی میں کیا قانونی پیچیدگیاں آتی ہیں؟

معاشرتی دباؤ کے علاوہ قانونی پیچیدگیاں بھی سنگل پیرنٹس کے لیے دوبارہ شادی کو مشکل بنا دیتی ہیں۔

فاطمہ بٹ وکیل ہونے کے ناطے روزانہ کی بنیاد پر طلاق اور خلع کے کیسز پر کام کرتی ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ 18 سال سے کم عمر بچوں کے ہوتے ہوئےوالد کسٹڈی، گارڈین شپ اور بچوں سے ملاقات کے حقوق کا دعویٰ کر سکتا ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ والد کے لیے عدالت ملاقات کے دن اور اوقات طے کرے تو ماں پر لازم ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ اسی شہر میں موجود رہے، ایسے میں شادی کے بعد شہر یا ملک چھوڑنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ دوبارہ آنے والے رشتوں میں بھی بچوں کے وزیٹیشن رائٹس باپ کے پاس ہونے کی صورت میں انکار کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ شادی کی صورت میں ان کا کسٹڈی کا کیس بھی کمزور ہو جاتا ہے۔

فاطمہ بٹ نے ایسے کیسز کا ذکر بھی کیا جہاں خاتون کے پاس بیٹی کی کسٹڈی تھی لیکن دوبارہ شادی پر اس سے کسٹڈی واپس لینے کا کیس کیا گیا کیونکہ دوسرا شوہر بیٹی کے لیے ’نامحرم‘ ہے۔

یہ تمام پیچیدگیاں، خاتون کو دوبارہ شادی کے فیصلے سے روکے رکھتی ہیں۔

معاشرے کے سوال و جواب، عدالت کے کٹہرے اور ذمہ داریوں کے بوجھ سے پرے البتہ ایک مقام ہے جہاں مدیحہ کاظمی جیسی ماؤں کے لیے اپنی زندگی خود اپنے لیے جینے کی ایک صورت موجود ہے۔

یہ مقام عبدالاحد جیسے بچوں کا وہ دل ہے جو اپنی اماں کو ایک انسان کے طور پر دیکھتا ہے اور ان کے لیے سوچتا ہے۔

یہ ان کا ’بڑا‘ بن کر انھیں اپنا نیا ساتھی چُننے اور نئی زندگی کی طرف رخصت ہونے پر آمادہ کرتا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.