کوئٹہ: کوئلے کی کان میں پھنسے مزید سات کان کنوں کی لاشیں برآمد، ایک کی تلاش جاری

image
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے قریب کوئلے کی ایک کان میں گیس دھماکے کے بعد پھنسے مزید سات کان کنوں کی لاشیں 60 گھنٹے بعد نکال لی گئی ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ اب تک 11 کان کنوں کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں جبکہ آخری کان کن کی تلاش کا کام تاحال جاری ہے۔

چیف انسپکٹر مائنز عبدالغنی نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’ملبہ گرنے سے کان کے اندر داخلہ ہونے کا راستہ بند ہوگیا تھا جسے ہٹانے میں وقت لگا۔ مائنز ریسکیو ٹیم مسلسل کام کررہی ہے اور اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لایا گیا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’پہلے دن ایک اور دوسرے دن تین کان کنوں کی لاشیں نکالی گئیں باقی سات کان کنوں کو تقریباً چار ہزار پانچ سو فٹ کی گہرائی سے نکالا گیا۔‘

چیف انسپکٹر مائنز نے مزید بتایا کہ حادثے کی تحقیقات بھی شروع کر دی گئی ہیں۔ ’غفلت کا مظاہرہ کرنے پر کان کے مالک اور جوڈیسر کے خلاف پولیس تھانہ ہنہ میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔‘

کوئٹہ سے تقریباً 40 کلومیٹر دور سنجیدی میں نجی کمپنی یونائیٹڈ مائز کی کوئلہ کان میں یہ حادثہ جمعرات کی شام 6 بجے میتھین گیس بھر جانے کے باعث پیش آیا تھا- 

چیف انسپکٹر مائنز بلوچستان عبدالغنی نے اُردو نیوز کو بتایا کہ حادثہ سنجیدی میں پیش آیا جہاں یونائیٹڈ کمپنی کی ایک کوئلہ کان میں میتھین گیس بھر جانے سے دھماکہ ہوا۔

’گیس کے دھماکے کی وجہ سے کان مختلف مقامات پر منہدم ہو گئی اور 12 کان کن دو ہزار سے ساڑھے چار ہزار فٹ کی گہرائی میں اندر پھنس گئے۔‘

حکام کا کہنا ہے کہ کان کنوں کو نکالنے کے لیے مائنز انسپکٹریٹ اور پی ڈی ایم اے کی ٹیموں نے ریسکیو آپریشن کیا تاہم، مزدور تنظیموں کا کہنا ہے کہ ریسکیو آپریشن کا زیادہ تر کام کان کن خود کر رہے ہیں اور حکومت کی جانب سے امدادی سرگرمیوں میں تاخیر ہوئی۔

سنجیدی میں نجی کمپنی یونائیٹڈ مائز کی کوئلہ کان میں حادثہ جمعرات کی شام میتھین گیس بھر جانے کے باعث پیش آیا تھا (فوٹو:پیر محمد کاکڑ)

حادثے کا شکار ہونے والے کان کنوں میں 10 کا تعلق خیبر پشتونخوا کے ضلع شانگلہ، ایک کا ضلع سوات جبکہ ایک کا بلوچستان سے ہے۔ ان کان کنوں میں سے پانچ کا تعلق ضلع شانگلہ کے ایک ہی گاؤں بانڈہ میاں کلے پیرآباد سے تھا۔

مزدور رہنماء بخت نواب نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’بیشتر کان کنوں کی عمریں 25 سال سے کم ہیں اور وہ آبائی علاقوں میں روزگار نہ ملنے کی وجہ سے کان میں کام کرنے پر مجبور تھے۔‘

امدادی سرگرمیوں میں حصّہ لینے والے کان کن عبدالرحمان نے بتایا کہ ’دھماکہ اتنا شدید تھا کہ کان کا ایک بڑا حصہ بیٹھ گیا جبکہ کان سے باہر موجود کمرہ بھی منہدم ہوگیا۔‘

خیال رہے کہ کوئٹہ، مستونگ، کچھی، ہرنائی، دکی سمیت بلوچستان کے کئی اضلاع میں کوئلہ کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔ ان کوئلہ کانوں میں 70 ہزار سے زائد کان کن کام کرتے ہیں جن میں سے اکثریت کا تعلق خیبر پختونخوا اور افغانستان سے ہوتا ہے۔

کوئلہ کانوں میں حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے حادثات معمول ہیں۔ مائنز انسپکٹریٹ کے مطابق گزشتہ سال 46 حادثات میں 82 کان کن حادثات کا شکار ہو کر ہلاک ہوئے۔

تاہم پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل لالہ سلطان کے مطابق حادثات کا شکار ہونے والے ’کان کنوں کی اصل تعداد زیادہ ہے۔ حکومتی ادارے، کان مالکان اور ٹھیکیدار حادثات اور نقصانات کو چھپاتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں صرف بلوچستان میں حادثات میں 129 کان کنوں کی موت ہوئی۔‘

مقامی کان کنوں نے بتایا کہ ’حادثہ جس کان میں پیش آیا وہ یونائیٹڈ مائنز کمپنی کی ملکیت ہے جو حفاظتی انتظامات کا خیال نہ رکھنے کے لیے بدنام ہے۔‘

ان کے مطابق ’اس کمپنی کی کان میں گزشتہ سال جون میں بھی ایک حادثے میں 11 کان کنوں کی موت ہوئی، جبکہ دو دیگر حادثات میں تین کان کنوں کی بینائی متاثر ہوئی۔‘

کان کنوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ’ان حادثات کی تحقیقات درست طریقے سے نہیں کرائی گئیں اور اب تک پچھلے حادثات پر کوئی کارروائی نہیں کی ہوئی۔‘

 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.