کھو کھو فیڈریشن آف انڈیا کے صدر کا دعویٰ ہے کہ ورلڈ کپ میں حصہ لینے والے تمام ممالک میں کسی نہ کسی شکل میں کھو کھو کھیلا جاتا ہے
سوموار کے روز انڈیا کے دار الحکومت میں ایک ایسے کھیل کے ورلڈ کپ کا آغاز ہوا ہے جو زمانے سے گلی کوچوں میں کھیلاجاتا رہا ہے: ’کھو کھو۔‘
13 جنوری سے 19 جنوری تک جاری رہنے والے اس ورلڈ کپ میں 23 ممالک کے کھلاڑی حصہ لے رہے ہیں۔ مردوں کے ایونٹ میں 20 ٹیمیں جبکہ خواتین کے مقابلوں میں 19 ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔
پاکستان کی ٹیم نے بھی اس ایونٹ میں شرکت کرنی تھی تاہم انڈیا کی جانب سے ویزے جاری نہ ہونے کے باعث پاکستانی ٹیم مقابلے میں حصہ نہیں لے سکی۔
سوموار کے روز کھیلے جانے والے مردوں کے مقابلوں کے افتتاحی میچ میں انڈیا نے نیپال کو 37 کے مقابلے میں 42 پوائنٹس سے شکست دے دی۔
سدھانشو متل کھو کھو فیڈریشن آف انڈیا (کے کے ایف آئی) کے صدر ہیں جنھوں نے اس ورلڈ کپ کے انعقاد میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں ٹیموں کے اس مقابلے میں شرکت کو یقینی بنانے کے لیے ان کی فیڈریشن نے ان ممالک میں کوچز بھیجے۔
متل کا دعویٰ ہے کہ ورلڈ کپ میں حصہ لینے والے تمام ممالک میں کسی نہ کسی شکل میں کھو کھو کھیلا جاتا ہے۔ ان کے مطابق یہ کھیل وہاں کے مقامی افراد کھیلتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ’ہم ان ممالک کی مقامی آبادی میں اس کھیل کو لے کر دلچسپی پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس کھیل میں پھرتی، رفتار، قوت برداشت اور حکمتِ عملی کی ضرورت ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ کھیل پسند کیا جاتا ہے۔ اس کھیل میں وہ تمام عناصر شامل ہیں جو کسی بھی جدید کھیل کو دلچسپ بناتے ہیں۔‘
’ہمارا خواب ایشین گیمز اور اولمپکس تک پہنچنا ہے‘
سنہ 2021 میں اس کھیل کو اس وقت مزید مقبولیت ملی جب ’الٹیمیٹ کھو کھو‘ کے نام سے ایک فرنچائز ایونٹ کا انعقاد کیا گیا۔
منتظمین کو امید ہے کہ کھو کھو ورلڈ کپ کے انعقاد سے اس کھیل کو مزید فروغ ملے گا۔
اولمپیک جیولین تھروور نیرج چوپڑا اور بالی وڈ کے اداکار سلمان خان جیسی شخصیات بھی اس کھیل سے جڑی ہیں جو اس کی مقبولیت میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ سلمان خان کھو کھو ورلڈ کپ کے برانڈ ایمبسسڈر ہیں۔
متل کی خواہش ہے کہ اس کھیل کو 2030 تک ایشین گیمز جبکہ 2032 تک اولمپکس میں شامل کر لیا جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ آج یہ کھیل 55 ملکوں میں کھیلا جاتا ہے۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اگلے برس کے اختتام تک یہ کھیل 90 ممالک تک پھیل جائے گا۔
’ہمارا خواب ایشین گیمز اور اولمپکس تک پہنچنا ہے۔‘
کھلاڑی اور کوچز کیا کہتے ہیں؟
نسرین شیخ انڈیا کی خواتین کی کھو کھو ٹیم کی سابق کپتان ہیں۔ گذشتہ برس انھیں انڈیا کے دوسرے سب سے بڑے کھیلوں کے اعزاز ’ارجن ایوارڈ‘ سے نوازا گیا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ورلڈ کپ کے انعقاد سے اس کھیل کو نئی شناخت ملے گی۔
نسرین بھی اس ایونٹ میں حصہ لینے والی انڈین ٹیم کا حصہ ہیں تاہم اس ایونٹ میں انڈین ٹیم کی کپتان پریانکا انگلے ہیں۔
نسرین کا کہنا ہے ’ہم سب کو معلوم ہے کہ یہ کھیل ہماری جڑوں سے جڑا ہوا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ورلڈ کپ میں حصہ لینے کے لیے بنائی گئی ٹیم میں کئی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں کو شامل کیا گیا ہے۔
ان کے مطابق یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اس کھیل کی تیاری سائنسی خطوط پر کی گئی ہے۔ ’ہماری جسمانی اور ذہنی صحت کا خیال رکھا گیا۔ ہمیں تمام صحولتیں مہیا کی گئیں۔‘
نسرین کھو کھو کی سٹار پلیئرز میں سے ایک ہیں جن کی قیادت میں انڈیا ساؤتھ ایشین گیمز اور ایشین چیمپیئن شپ میں سونے تمغے جیتنے میں کامیاب رہا ہے۔
اب کھو کھو فیڈریشن ان پر ایک فلم بنانے پر غور کر رہی ہے۔
کھلاڑیوں کو دی جانے والی ٹریننگ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انڈیا کی خواتین کی ٹیم کی کوچ منی جون بتاتی ہیں کہ ایک ماہ تک جاری رہنے والے کیمپ کے دوران صبح کے اوقات میں کھلاڑیوں کی صلاحیتوں پر توجہ دی جاتی اور شام میں انھیں میچ پریکٹس کروائی جاتی۔
’اس کے علاوہ کھاڑیوں کو صحت بخش غزا دی جاتی جس میں وٹامن اور خشک میوہ جاتشامل ہوتے۔ کھلاڑیوں کامکممل فٹنس ٹیست بھی لیا گیا۔‘
منی خود بھی قومی سطح کی کھلاڑی رہی ہیں۔ وہ انڈیا کی ساؤتھ ایشین گیمز اور ایشین چیمپیئن شپ کی فاتح ٹیموں کی بھی ہیڈ کوچ تھیں۔
انڈیا کے مردوں کی ٹیم کی قیادت پونے سے تعلق رکھنے والے پرتیک کرن وائیکر کر رہے ہیں۔
وہ ایک آل راؤنڈرہیں جو اس کھیل میں ’وزیر‘ کی پوزیشن پر کھیلیں گے۔ یہ ایک نئی پوزیشن ہے جو کھو کھو میں شامل کی گئی ہے۔ اس پوزیشن پر کھیلنے والا کسی بھی سمت میں جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس سال انھیں یہ کھیل کھیلتے 25 سال ہو جائیں گے۔
’مجھے بے حد خوشی ہے کہ اب کھو کھو کا بھی ورلڈ کپ ہو رہا ہے۔ میری کوشش ہو گی کہ میں اچھی کارکردگی دکھاؤں۔‘
’انڈیا ٹورنامنٹ کی فیورٹ ہے‘
انڈیا کی مردوں کی ٹیم کے کوچ اشوینی کمار کا ماننا ہے کہ انڈیا اس ایونٹ کی فیورٹ ٹیم ہے۔
’کھو کھو ہمارا مقامی کھیل ہے جبکہ دوسرے ممالک نے ابھی اسے کھیلنا جس کی وجہ سے ہم ان سے تھوڑا آگے ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ ورلڈ کپ میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔‘
تاہم ان کی نظر میں انگلینڈ اور نیپال کی ٹیمیں چیلنج ثابت ہو سکتی ہیں۔ ’یہ دونوں ٹیمیں کافی مضبوط ہیں خاص طور پر نیپالی ٹیم۔‘
سدھانشو متل کے مطابق امریکہ، ارجنٹینا، برازیل، پیرو، جنوبی افریقہ، گھانا، کینیا، یوگنڈا، جرمنی، ہالینڈ، پولینڈ، انگلینڈ، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، جنوبی کوریا، ملائیشیا، انڈونیشیا، ایران، بھوٹان، نیپال، بنگلہ دیش اور سری لنکا کی ٹیمیں ورلڈ کپ میں حصہ لے رہی ہیں۔