اسلام آباد: آئینی عدالت نے اسٹوڈنٹس یونین بحالی کے معاملہ پر وفاق و متعلقہ فریقین کو نوٹس جاری کر دیا۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے اسٹوڈنٹس یونین کیس کی سماعت کی۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ آئینی عدالت نے اسٹوڈنٹس یونین بحالی کے معاملے پر وفاق و متعلقہ فریقین کو نوٹس جاری کر دیا۔
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ قائد اعظم یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات کا شیڈول جاری ہوا۔ اور قائد اعظم یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات کو پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر دیکھا جائے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا اسٹوڈنٹس یونین پر پابندی ہے؟۔ اور یہ پابندی کب لگائی گئی؟۔
عدالت نے کہا کہ بار کے انتخابات میں سیاست آ گئی ہے۔ اور سیاسی پارٹیز نے تعلیمی اداروں میں اپنے سیاسی ونگز بنالیے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی میں سیاسی جماعتوں کے پولیٹیکل ونگز ہیں۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ کراچی یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس یونینز کہ وجہ سے تشدد آیا۔ اور تشدد کی وجہ سے کراچی یونیورسٹی میں 35 سال سے ریجنرز تعینات ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ججز کمیٹی کا ممبر ہوں لیکن مجھے بھی اجلاس کا پتہ نہیں چلا ، جسٹس منصور علی شاہ
عدالت نے کہا کہ اسٹوڈنٹس یونین کو مطلب اسٹوڈنٹس کی فلاح بہبود ہے۔ اور اسٹوڈنٹس یونین کا مطلب سیاست نہیں۔
وکیل عمر گیلانی نے مؤقف اختیار کیا کہ کراچی یونیورسٹی میں خاص حالات کی وجہ سے رینجرز تعینات کی گئی۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ایسے کیا خاص حالات تھے؟۔ پنجاب یونیورسٹی میں سابق وزیر اعظم کو اغواء کیا گیا۔ اور سابق وزیر اعظم کو بعد ازاں اسٹوڈنٹس سے چھڑایا گیا۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اسٹوڈنٹس یونین ایک نرسری ہے۔ اور انہی لوگوں نے بعد میں ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنا ہوتی ہے۔ اچھے اسٹوڈنٹس کے ساتھ بیٹھ کر مسئلہ حل کریں۔ بھتہ خور کو مسئلے کے حل کے لیے ساتھ نہ بٹھائیں۔
حسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ بچوں کو پڑھنے دیں انہیں سیاست میں کیوں ڈال رہے ہیں۔ ہماری ملک میں سیاست جارحانہ ہے۔