پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی جاری ہے۔ آج دوسرے روز بھی بگن، مندوری اور چھپڑی پڑاؤ میں پولیس اور فورسز کے دستے موجود ہیں۔ضلع کرم میں قبائل کے درمیان کشیدگی کے باعث گزشتہ تین ماہ سے راستے بند ہیں اور ایک بڑی آبادی کو مشکلات کا سامنا ہے۔دوسری جانب پارا چنار میں قبائلی عمائدین کا ایک جرگہ بھی ہوا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی سے راستے کھلنے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔قبائلی عمائدین نے مطالبہ کیا ہے کہ ’پارا چنار کے محصور عوام کے لیے بلاتاخیر خوراک و علاج کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔‘واضح رہے کہ چھ لاکھ کی آبادی پر مشتمل ضلع کرم میں گزشتہ نومبر میں فرقہ وارانہ جھڑپیں ہوئی تھیں۔ 21 نومبر کو ایک قافلے پر حملے میں کم سے کم 52 افراد ہلاک ہوئے تھے۔21 نومبر کو پیش آنے والے اس واقعے کے بعد سے ہونے والی پرتشدد جھڑپوں میں کم سے کم 136 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔اتوار سے خیبر پختونخوا کی حکومت نے لوئر کرم کے علاقے بگن، مندوری (اوچت، چارخیل) چھپری اور چھپڑی پڑاؤ یونین کونسلز میں ٹارگٹڈ کارروائیوں کا آغاز کر دیا تھا۔پیر کو خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے اپنے سٹاف آفیسر کے ذریعے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’ضلع کرم میں کوئی بڑا آپریشن تو نہیں کیا جا رہا، البتہ مخصوص علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف خفیہ معلومات پر ٹارگیٹڈ کارروائیاں شروع کی گئیں ہیں۔‘دوسری جانب کرم میں متاثرہ علاقوں سے شہریوں کو عارضی کیمپ میں منتقل کر دیا گیا ہے، جو ضلع کرم کے مضافاتی اضلاع ٹل اور ہنگو میں قائم کیے گئے ہیں۔
ضلع کرم میں متاثرہ علاقوں سے شہریوں کو عارضی کیمپ میں منتقل کر دیا گیا ہے (فائل فوٹو: اردو نیوز)
امن پسند افراد کے درمیان کچھ شرپسند گھس گئے ہیں
بیرسٹر سیف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’ریاست پُرامن عناصر کے ساتھ کھڑی ہے اور ظالم عناصر کو کیفرِکردار تک پہنچایا جائے گا۔ اس تناظر میں متاثرہ علاقوں میں موجود چند شرپسندوں کے خلاف کارروائی بہت ضروری ہے۔‘اُنہوں نے کہا ہے کہ ’حکومت کو یہ خدشہ ہے کہ امن پسند افراد کے درمیان کچھ شرپسند گھس گئے ہیں جبکہ ہم نے امن معاہدے پر قانون اور پشتون روایات کے مطابق عمل درآمد کروانا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ شرپسندوں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔‘ترجمان کے مطابق امن پسند افراد کو نقصان سے بچانے کے لیے اُنہیں شرپسندوں سے الگ کرکے کارروائی کی جائے گی۔ ’حکومت فریقین سے درخواست کرتی ہے کہ اپنے درمیان موجود شرپسندوں کی شناخت میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کریں۔‘ریجنل پولیس افسر عباس مجید نے عرب نیوز کو بتایا تھا کہ ’فوج آپریشن کی قیادت کرے گی جب کہ پولیس، ایلیٹ فورس اور دیگر سکیورٹی فورسز کے ذریعے سپورٹ فراہم کرے گی۔‘