سیف علی خان کی 15 ہزار کروڑ کی جائیداد کا پاکستان سے کیا تعلق ہے

انڈیا میں بالی وڈ اداکار سیف علی خان ان دنوں خبروں میں ہیں۔ ان پر ہونے والا چاقو حملہ اور ہسپتال سے ان کی واپسی کی تصاویر تو پرانی بات ہو گئی۔ اب وہ سرخیوں میں اپنی جائیداد اور پاکستان سے تعلق کی وجہ سے ہیں۔
سیف علی خان
Getty Images

انڈیا میں بالی وڈ اداکار سیف علی خان ان دنوں خبروں میں ہیں۔ ان پر ہونے والا چاقو حملہ اور ہسپتال سے ان کی واپسی کی تصاویر تو پرانی بات ہو گئی۔ اب وہ سرخیوں میں اپنی جائیداد اور پاکستان سے تعلق کی وجہ سے ہیں۔

انڈیا میں سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیا حکومت سیف علی خان کی 15 ہزار کروڑ کی جائیداد ضبط کرنے جا رہی ہے؟ چاقو حملے کے بعد باحفاظت گھر واپس آنے کے بعد ان سے یہ سوال مسلسل پوچھا جا رہا ہے۔

سیف علی خان کی 15 ہزار کروڑ کی جائیداد اصل میں کیا ہے؟ اسے ’دشمن کی جائیداد‘ کیوں قرار دیا گیا ہے؟ ہم ان سوالات کے بارے میں تفصیل سے جاننے کی کوشش کریں گے۔

یہ جھگڑا کیا ہے؟

بھوپال میں متنازع زمین پٹودی خاندان کی موروثی جائیداد ہے۔

ہندوستان کے آزاد ہونے سے پہلے بھوپال ایک شاہی ریاست تھی۔ اس وقت بھوپال کے نواب کی سب سے بڑی بیٹی عابدہ سلطان 1948 میں پاکستان چلی گئیں۔

سنہ 2015 میں حکومت ہند کے ’کسٹوڈین آف اینیمی پراپرٹی فار انڈیا‘ نے اس زمین کو ’دشمن کی جائیداد‘ قرار دیا ہے۔ اس کے بعد یہ سارا تنازعپھر سے شروع ہوا ہے۔

جنگ
www.bharatrakshak.com
پاکستان اور انڈیا کے درمیان 1965 کی جنگ کے بعد ’اینیمی پراپرٹی ایکٹ‘ پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا

اینیمی پراپرٹی ایکٹ کیا ہے؟

پاکستان اور انڈیا کے درمیان 1965 کی جنگ کے بعد ’اینیمی پراپرٹی ایکٹ‘ پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا۔

اس قانون کے مطابق یہ طے کیا گیا کہ جو لوگ انڈیا چھوڑ کر پاکستان چلے گئے ان کی چھوڑی ہوئی جائیداد کا کیا کرنا ہے۔

اس ایکٹ کے تحت حکومت نے پاکستان یا چین کی شہریت اختیار کرنے والوں کی ملکیت والی جائیدادوں اور کاروباروں کا کنٹرول سنبھال لیا۔

دشمن جائیداد ایکٹ 1968 کے تحت جن جائیدادوں کو دشمن کا اثاثہ قرار دیا جاتا ہے وہ مستقل طور پر نگہبان کے پاس رہتی ہیں اور وراثت یا منتقلی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔

یہ قانون مرکزی حکومت کو مختلف ریاستوں میں ’دشمن کی جائیدادوں‘ کا انتظام کرنے اور کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے قانونی فریم ورک فراہم کرتا ہے۔

دشمن جائیداد (ترمیمی اور توثیق) ایکٹ 2017 نے قانون کو مزید مضبوط کیا اور اس کے دائرہ کار کو وسعت دی۔

ان ترامیم میں ’اینیمی سبجیکٹ‘ اور ’اینیمی فرم‘ کی تعریف کو وسیع کرتے ہوئے قانونی وارثوں اور جانشینوں کو شامل کیا گیا ہے، چاہے ان کی شہریت کچھ بھی ہو چاہے۔ وہ انڈین ہوں یا کسی ’غیر دشمن‘ ملک سے۔

اس میں طے کیا گیا تھا کہ دشمن کی جائیداد ان صورتوں میں بھی متولی کے پاس رہے گی جہاں موت، معدومیت یا کاروبار کی بندش کی وجہ سے دشمن کے اثاثے یا فرم کا وجود ختم ہو گیا ہو۔

ترامیم نے وراثت کے دعوؤں کو مؤثر طریقے سے کالعدم قرار دے دیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ ایسی جائیدادیں غیر معینہ مدت تک حکومت کے کنٹرول میں رہیں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قانون انفرادی املاک کے حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے جبکہ اس کے حامی قومی سلامتی کے لیے اس کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔

اب اس ایکٹ کے تحت سیف علی خان سے جو جائیداد چھن جانے کا خطرہ ہے اس میں فلیگ سٹاف ہاؤس (جہاں سیف نے اپنا بچپن گزارا)، لگژری ہوٹل نور الصباح پیلس، دارالسلام، حبیبی بنگلہ، احمد آباد پیلس اور کوہِ فضا پراپرٹی شامل ہیں۔

عابدہ سلطان کے بچپن کی تصویر
Facebook/PakistanRoyalFamilies
عابدہ سلطان کے بچپن کی تصویر

سیف علی خان کی پاکستان آنے والی رشتہ دار کون ہیں؟

عابدہ سلطان بھوپال کے نواب حمید اللہ خان کی سب سے بڑی بیٹی تھیں۔ ان کی شادی کوروائی کے نواب سرور علی خان سے ہوئی۔

اس وقت عابدہ کی عمر صرف 17 سال تھی لیکن ان کی شادی شدہ زندگی میں بہت سی رکاوٹیں تھیں۔

عابدہ کے بیٹے شہریار خان پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ بنے تھے۔

نواب حمید اللہ خان اپنی بیٹی کو اپنا جانشین بنانے کی تیاری کر رہے تھے۔ لیکن باپ بیٹی کے اس رشتے میں تلخی پیدا ہو گئی۔ کیونکہ 1945 میں حمید اللہ نے دوسری شادی کر لی اور عابد کی والدہ کو یکسر نظر انداز کر دیا۔

جب ہندوستان آزاد ہوا تو عابدہ لندن میں تھیں۔ اس کے بعد وہ محمد علی جناح سے رابطے میں آئیں اور پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔

سنہ 1948 میں انھوں نے جناح کو فون کیا اور اس فیصلے کے بارے میں بتایا۔ اپنی بیٹی کا فیصلہ جاننے کے بعد نواب حمید اللہ انھیں راضی کرنے لندن گئے۔

پھر انھوں نے تجویز دی کہ ’میں پاکستان جاؤں گا اور تم بھوپال کے اس ادارے کو سنبھالو گی۔‘

لیکن ہندوستان میں شاہی ریاستیں ضم ہوگئیں اور نواب برائے نام ہی رہ گئے۔ جناح بھی وفات پا گئے۔

تب عابدہ سلطان بھی پاکستان چلی گئیں۔ اس کے بعد وہ پاکستان کی سیاست میں بھی سرگرم ہوگئیں۔

افتخار علی خان پٹودی
Hulton Archieve
افتخار علی خان پٹودی

عابدہ کا سیف علی خان کی دولت سے کیا تعلق ہے؟

عابدہ ابھی بھوپال میں ہی تھیں جب نواب حمید اللہ علی خان کی 4 فروری 1960 کو وفات ہوئی۔ ان کے سامنے یہ تجویز پیش کی گئی کہ وہ اپنی پاکستانی شہریت ترک کر کے انڈیا واپس چلی آئیں۔

انھیں بھوپال کا نواب قرار دیا جائے گا۔

صدر پاکستان نے بھی اس پر رضامندی ظاہر کی لیکن عابدہ سلطان نے اس تجویز کو ٹھکرا کر سب کچھ اپنی چھوٹی بہن (سیف علی خان کی دادی) ساجدہ سلطان کے لیے چھوڑ دیا۔

ساجدہ کی شادی پٹودی کے نواب افتخار علی خان سے ہوئی تھی۔ افتخار علی خان پٹودی انڈیا کے سابق کپتان منصور علی خان پٹودی کے والد اور سیف علی خان کے دادا ہیں۔

سیف اور ان کی والدہ شرمیلا ٹیگور
Getty Images

بھوپال کی دولت پر سیف علی خان کا حق کیسے؟

یہ تمام جائیدادیں ساجدہ کے شوہر اور سیف علی خان کے دادا کی ہیں۔

فروری 2015 میں حکومت ہند کے کسٹوڈین آف اینیمی پراپرٹی میکانزم نے ان جائیدادوں کو دشمن کی جائیداد قرار دیا۔

شرمیلا ٹیگور اور سیف علی خان یعنی منصور علی خان پٹودی کی اہلیہ اور بیٹے نے اس کے خلاف عدالت کا رخ کیا۔

مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے دسمبر 2024 میں حکم دیا تھا کہ اینیمی پراپرٹی ایکٹ کے تحت اپیل دائر کی جائے۔

جب عابدہ سلطان انڈیا چھوڑ کر پاکستان چلی گئی تھیں اس نظام نے بھوپال کے نوابوں کی اس جائیداد کو دشمن کی جائیداد قرار دینے کا حکم جاری کر دیا تھا۔

لیکن سیف کے وکلا کا موقف ہے کہ یہ جائیدادیں ساجدہ سلطان کی ہیں اور ان کے وارث پہلے منصور علی خان پٹودی اور پھر سیف علی خان ہیں۔ ان کے مطابق چونکہ یہ پراپرٹی انڈیا میں واقع ہے اس لیے اسے دشمن کی ملکیت قرار نہیں دیا جا سکتا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.