اب امریکہ میں ٹک ٹاک کا خریدار کون ہو گا اس بارے میں امکان یہ ہے کہ اس بارے میں حتمی فیصلہ تو صدر ٹرمپ ہی کریں گے۔
جمی ڈونلڈسن عرف مسٹر بیسٹ نے اپنے لاکھوں ٹک ٹاک فالوئرز کو اس پلیٹ فارم کی خریداری سے متعلق لگائی جانے والی اپنی بولی کے بارے میں اطلاع دی۔ انھوں نے ایک نجی طیارے سے یہ پیغام دیا کہ ’ہو سکتا ہے کہ میں آپ لوگوں کا نیا سربراہ ہوں۔ میں بہت ہی زیادہ خوش ہوں۔‘
اس کے بعد انھوں نے اپنے نئے فالوئرز میں سے کوئی سے پانچ کو دس ہزار ڈالر دینے کا بھی وعدہ کیا ہے۔
پیر سے لے کر اب تک ان کی اس پوسٹ کو 73 ملین سے زیادہ بار دیکھا جا چکا ہے۔ مسٹر بیسٹ نے کہا کہ وہ اپنی بولی سے متعلق تفصیلات نہیں بتا سکتے مگر انھوں نے یہ یقین دلایا کہ ’یہ جان لیں کہ یہ بہت ہی ناقابل یقین بولی ہے۔‘
جیمی ڈونلڈسن ان متعدد کاروباری شخصیات کی فہرست میں شامل ہیں جنھوں نے امریکہ میںٹک ٹاک کے حوالے سے جاری سیاسی کشمکش میں اس کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔
گذشتہ برس سابق امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک قانون پر دستخط کیے تھے جس کے ذریعے چین کی بائیٹ ڈانس کمپنی کو 19 جنوری تک امریکہ میں یہ پلیٹ فارم فروخت کرنے کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی۔
اس قانون کے مطابق بصورت دیگر ٹک ٹک پر امریکہ میں پابندی عائد کر دی جانی تھی، تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارت سنبھالتے ہی کمپنی کو مزید 75 روز کا وقت دیا تھا۔
اس قانون کے مطابق بصورت دیگر ٹک ٹک پر امریکہ میں پابندی عائد کر دی جانی تھی۔ قانون سازی کے ذریعے ایپ کا چین کی حکومت سے تعلق اور اس سے جڑے یہ خدشات کہ یہ امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے کو دور کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوائنٹ وینچر جیسے امکان پر بھی بات کی۔ انھوں نے ٹروتھ سوشل پر اتوار کو اپنی ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’میں یہ چاہتا ہوں کہ امریکہ اس ایپ کی 50 فیصد ملکیت اپنے نام کرے۔
ان کے مطابق ’اس طریقے سے ہم ٹک ٹاک کو محفوظ بنا سکتے ہیں اور اسے اچھے ہاتھوں میں رکھ سکتے ہیں اور اسے برقرار رکھ سکتے ہیں۔‘
صدر ٹرمپ نے اس کے بعد ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے اس ایپ کو مزید 75 دنوں کے لیے کام کرنے کی اجازت دی ہے۔
اس ماہ کے آغاز پر بلومبرگ نے یہ خبر شائع کی تھی کہ چین نے ٹک ٹاک کو ایکس کے مالک، دنیا کے امیر ترین شخص اور صدر ٹرمپ کے اتحادی ایلون مسک کو فروخت کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔
ایلون مسک نے اس ہفتے ایکس پر لکھا کہ وہ طویل عرصے سے ٹک ٹاک پر پابندی کے خلاف ہیں۔ تاہم ان کے مطابق ’موجودہ صورتحال جس میں ایکس پر چین میں پابندی عائد ہے جبکہ امریکہ میں ٹک ٹاک کو کام کرنے کی اجازت ہے تو یہ متوازن نہیں ہے۔ اس میں کچھ تبدیلی کی ضرورت ہے۔‘
منگل کو ایک نیوز کانفرنس میں صدر ٹرمپ سے ایک صحافی نے پوچھا کہ کیا وہ ایلون مسک کو ٹک ٹاک خریدنے کی اجازت دیں گے۔ اس پر صدر ٹرمپ نے جواب دیا کہ ’اگر وہ اسے خریدنا چاہتے ہیں تو پھر مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔‘
صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ ’میں چاہتا ہوں کہ لیری بھی اسے خرید سکتے ہیں۔‘ وہ اوریکل کے چیئرمین لیری ایلیسن کا ذکر کر رہے تھے جو طویل عرصے سے صدر ٹرمپ کے حامی رہے ہیں اور ایک تقریب میں ان کے ساتھ سٹیج پر بھی موجود تھے۔
اوریکل ٹک ٹاک کا مین سرور پرووائیڈر ہے جو اس کے متعدد ڈیٹا سینٹرز کی دیکھ بھال کرتا ہے جہاں اس پلیٹ فارم کی اربوں ویڈیوز کو ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ گذشتہ برس اوریکل نے یہ کہا کہ ٹک ٹاک پر پابندی اس کے کاروبار کو متاثر کر سکتی ہے۔ اوریکل 2020 میں اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو خریداری کی دوڑ میں بھی آگے تھے جب صدر ٹرمپ اس پر پابندی عائد کرنا چاہتے تھے۔
ارب پتی سرمایہ کار فرینک میکورٹ نے بھی ٹک ٹاک کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور وہ اس حوالے سے کئی ماہ سے اس امکان کے تناظر میں میڈیا انٹرویوز بھی کر رہے ہیں۔
فرینک نے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ٹک ٹاک ان کے ادارے پروجیکٹ لبرٹی انسٹیٹیوٹ کے زیرنگرانی ٹیکنالوجی پر چلے۔ وہ سوشل میڈیا کمپنیوں کے ڈیٹا جمع کرنے کے طریقوں کے ناقد رہے ہیں۔
پروجیکٹ لبرٹی اپنے ملکیتی الگورتھم کے بغیر ہی ٹک ٹاک کے لیے بولی لگا رہا ہے۔ فرینک نے اس ہفتے سی این بی سی کو بتایا کہ پروجیکٹ لبرٹی الگورتھم یا چینی ٹیکنالوجی میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ یہ اور بات ہے کہ انھوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اس سب کے بغیر اس پلیٹ فارم کی زیادہ اہمیت نہیں رہ جاتی ہے۔
اب امریکہ میں ٹک ٹاک کا خریدار کون ہو گا اس بارے میں امکان یہ ہے کہ اس بارے میں حتمی فیصلہ تو صدر ٹرمپ ہی کریں گے۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر انوپم چندر کا کہنا ہے کہ ’ٹک ٹاک پر اسی کا تسلط ہو گا جو ممکنہ طور پر صدر ٹرمپ کا سیاسی حلیف ہو گا۔ ‘
انوپم چندر کے مطابق ففٹی ففٹی جوائنٹ اونرشپ کا ماڈل قانون کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔ اب یہ بات صدر ٹرمپ کو قانون میں تبدیلی پر اکسا سکتی ہے جس کے بعد وہ اس حوالے سے کانگریس پر دباؤ بڑھائیں گے۔
اس وقت ٹک ٹاک کا مستقبل غیریقینی کا شکار ہے۔
پروفیسر انوپم چندر کا کہنا ہے کہ ’جو بائیڈن انتظامیہ نے یہ ایک غلطی کی ہے جس کے تحت قانون میں ٹک ٹاک کی ملکیت کا لامحدود اختیار امریکی صدر کو دے دیا ہے۔‘
پروفیسر انوپم کا کہنا ہے کہ ’ایک بڑے سوشل میڈیا پر خبریں بہم پہنچانے والے پلیٹ فارم کے مستقبل کو سیاسی کشمکش کا حصہ بنانا ایک بہت تباہ کن خیال تھا۔‘