ڈیپ سیک: امریکہ اور یورپ میں کھلبلی مچانے والی انتہائی سستی چینی ایپ جسے ’سائبر حملوں‘ کا سامنا ہے

چین کی تیار کردہ مصنوعی ذہانت کی ایپ ڈیپ سیک کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے امریکہ اور یورپ میں سرمایہ کاروں کی نیندیں اڑا دی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے امریکہ میں ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنی اینویڈیا کی مالیت کا چھٹا حصہ غائب ہو چکا ہے۔
Deepseek
Getty Images

چین کی تیار کردہ مصنوعی ذہانت کی ایپ ڈیپ سیک کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے امریکہ اور یورپ میں سرمایہ کاروں کی نیندیں اڑا دی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے امریکہ میں ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنی اینویڈیا کی مالیت کا چھٹا حصہ غائب ہو چکا ہے۔

واضح رہے کہ ڈیپ سیک، جو اے آئی چیٹ باٹ ہے، کسی اور حریف ایپ کے مقابلے میں بہت سستی ہے اور گزشتہ ہفتے لانچ ہونے کے بعد سے امریکہ میں سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کی جانے والی ایپس میں شمار ہونے لگی ہے۔

سوموار کے دن ڈیپ سیک کی اچانک مقبولیت کے بعد اینویڈیا سمیت مصنوعی ذہانت کی عالمی صنعت کے بڑے ناموں، بشمول مائیکروسافٹ اور گوگل، کی سٹاک مالیت میں گراوٹ دیکھنے کو ملی۔

دوسری جانب ڈیپ سیک نے کہا ہے کہ وہ عارضی طور پر رجسٹریشن محدود کر رہے ہیں جس کی وجہ اس کے سافٹ ویئر پر ہونے والے بڑی پیمانے کے حملے ہیں۔ یاد رہے کہ اس چیٹ باٹ کے سامنے آنے کے بعد امریکہ کی مصنوعی ذہانت کے شعبے پر بالادستی اور اس شعبے میں ہونے والی سرمایہ کاری پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔

صرف ایک ہفتہ قبل ہی اوپن اے آئی سمیت دیگر کمپنیوں کے گروہ نے امریکہ میں مصنوعی ذہانت کے شعبے میں 500 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا جس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے ’تاریخی سرمایہ کاری‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ٹیکنالوجی کا مستقبل امریکہ میں ہی رہے گا۔‘

ڈیپ سیک کی تیاری میں اوپن سورس ڈیپ سیک وی تھری ماڈل کا ہاتھ بتایا جاتا ہے اور اس کو بنانے والوں کا دعوی ہے کہ یہ صرف چھ ملین کی لاگت سے تیار ہوئی جو حریف کمپنیوں کے مقابلے میں اربوں ڈالر سستی ہے۔ تاہم اس دعوے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

چینی ایپ کے محققین کا کہنا ہے کہ وہ دستیاب ٹیکنالوجی کو استعمال کر رہے ہیں اور یہ ایک ایسا سافٹ ویئر ہے جسے کوئی بھی مفت میں استعمال اور تبدیل کر سکتا ہے۔

لیکن یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب امریکہ جدید چپ ٹیکنالوجی کی چین تک رسائی اور فروخت کو محدود کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسے میں چین میں مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والے ایک دوسرے سے مل کر نئے تجربات کر رہے ہیں اور یوں ایسے ماڈل سامنے آ رہے ییں جن میں کمپیوٹنگ کی توانائی کا استعمال پہلے سے کم ہے۔

ساتھ ہی ساتھ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ان ایپس کی قیمت بہت کم ہے جو اس شعبے میں تہلکہ مچا رہی ہے۔

رواں ماہ کے آغاز میں ڈیپ سیک آر ون کے لانچ کے بعد چینی کمپنی نے دعوی کیا تھا کہ حساب، کوڈنگ اور دیگر معاملات میں یہ اوپن اے آئی کے جدید ترین ماڈل سے مقابلہ کر سکتی ہے۔

سیلیکون ویلی کے تجربہ کار سرمایہ کار اور ٹرمپ کے مشیر مارک اینڈرسن نے ڈیپ سیک آر ون کو مصنوعی ذہانت کا ’سپوٹنک‘ لمحہ قرار دیا، جو 1957 میں سوویت یونین کی جانب سے خلائی سیٹلائیٹ کے لانچ کی جانب حوالہ تھا۔

اس وقت امریکہ اپنے حریف کی تکنیکی جدت سے حیران رہ گیا تھا جب کہ حالیہ پیش رفت میں اس ایپ کی مقبولیت نے یورپ اور امریکہ کی سٹاک مارکیٹ میں ہلچل مچا رکھی ہے۔

امریکہ میں اے آئی چپ بنانے والی اینویڈیا کے حصص سولہ عشاریہ نو فیصد جبکہ براڈ کام کے حصص میں 17 عشاریہ چار فیصد کمی ہوئی۔ گوگل کی مالک کمپنی الفابیٹ کے حصص میں چار فیصد جبکہ مائیکروسافٹ کے حصص میں دو عشاریہ 14 فیصد کمی واقع ہوئی۔

ادھر یورپ میں ڈچ چپ بنانے والی کمپنی اے ایس ایم ایل کی مالیت میں سات فیصد کمی ہوئی اور سمنز انرجی، جو مصنوعی ذہانت کا ہارڈ ویئر بناتی ہے، کی مالیت میں نمایاں کمی ہوئی۔

Deepseek
Getty Images

فیونا سنکوٹا سٹی انڈیکس میں مارکیٹ تجزیہ کار ہیں جن کا کہنا ہے کہ سستی چینی ایپ نے مارکیٹ کو حیران کر دیا ہے۔

’اس لیے حریفوں کے منافع پر خدشات جنم لیتے ہیں، خصوصا جتنی رقم وہ مذید مہنگی مصنوعی ذہانت کے انفراسٹرکچر پر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘

سنگاپور میں ٹیکنالوجی امور کے ماہر ویری سرن لنگ نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ایپ اے آئی کی پوری رسد کی سرمایہ کاری کو متاثر کر سکتی ہے۔

تاہم وال سٹریٹ کے بینک سٹی نے خبردار کیا ہے کہ اگرچہ چینی ایپ امریکی کمپنیوں کی مستحکم پوزیشن کو چیلنج کر سکتی ہے تاہم چینی کمپنیوں کو درپیش مسائل ان کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔

بینک کے تجزیہ کاروں کی ایک رپورٹ کے مطابق ’ایک محدود ماحول میں امریکہ کی جدید چپس تک رسائی ایک بہت بڑا فائدہ ہے۔‘

ڈیپ سیک کی بنیاد کس نے رکھی؟

ڈیپ سیک کمپنی کی بنیاد سنہ 2023 میں جنوب مشرقی چین کے شہر ہانگزو میں لیانگ وینفینگ نے رکھی تھی۔

40 سالہ لیانگ ایک انفارمیشن اینڈ الیکٹرانک انجینیئرنگ گریجویٹ ہیں نے ڈیپ سیک کو سہارا دینے والے ایک فنڈ کی بنیاد بھی رکھی تھی۔

مبینہ طور پر انھوں نے چین میں ایک ایونیڈیا اے 100 چپس کا ایک سٹور بنایا تھا۔ اب چین کو یہ چپس برآمد کرنے پر پابندی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ ان کے پاس اس وقت 50 ہزار یہ چپس موجود تھی جنھیں انھوں نے کم لاگت والی سستی چپس کے ساتھ جوڑ کر ڈیپ سیک کو لانچ کیا ہے۔ سستی چپس اب بھی چین کو درآمد کرنے کی اجازت ہے۔

لیانگ کو حال ہی میں ایک اے آئی صنعت کے ماہرین اور چینی وزیر اعظم کے مابین ایک ملاقات میں دیکھا گیا ہے۔

جولائی 2024 کو چائنا اکیڈمی کودیے گئے ایک انٹرویو میں لیانگ نے کہا تھا کہ وہ اپنے اے آئی ماڈل کے پچھلے ورژن پر ردعمل سے حیران ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہمیں توقع نہیں تھی کہ قیمتوں کا تعین اتنا حساس مسئلہ ہو گا۔

'ہم صرف اپنی رفتارسے کام کر رہے تھے، اخراجات کا حساب لگا رہے تھے، اور اس کے مطابق قیمتیں مقرر کر رہے تھے۔'


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.