بنگلہ دیش میں پاکستانی ڈراموں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ کیا ہے؟

بنگلہ دیش میں ٹی وی سیریز دیکھنے کے چلن میں ایک نیا رویہ نظر آ رہا ہے۔ ہندی اور بنگالی، ترکی اور کورین سیریز کے ساتھ ساتھ اب پاکستانی ٹی وی سیریزبھی بنگلہ دیشی ٹیلی ویژن کے ناظرین میں مقبول ہو رہی ہیں۔

بنگلہ دیش میں ایک نیا رجحان نظر آ رہا ہے۔ ہندی، بنگالی، ترکی اور کورین سیریز کے بعد اب پاکستانی ڈرامہ بھی بنگلہ دیشی ٹیلی ویژن ناظرین میں مقبول ہو رہا ہے۔

بنگلہ دیشی ناظرین کے لیے پاکستان میں بنائی جانے والی اردو سیریز کے سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک پر کئی بڑے گروپ بن چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور نوجوان شامل ہیں۔

اگرچہ بنگلہ دیش میں پاکستانی ٹی وی چینلز کم ہی نظر آتے ہیں لیکن پاکستانی ڈراموں نے یوٹیوب اور کچھ بین الاقوامی او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کے ذریعے ناظرین کی توجہ حاصل کر لی ہے۔

بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد 54 سال میں پاکستان کے ساتھ ثقافتی تبادلہ بہت کم ہوا ہے۔ اس کی وجوہات میں زبان کے مسائل بھی ایک وجہ ہیں۔

تاہم اب زبان ٹی وی سیریز سے لطف اندوز ہونے میں بڑی رکاوٹ نہیں بن رہی ہے۔ پاکستانی سیریز کے باقاعدہ ناظرین کا دعویٰ ہے کہ جو لوگ ہندی میں مختلف قسم کے مواد کو باقاعدگی سے دیکھنے کے عادی ہیں انھیں اردو سمجھنے میں مشکل نہیں ہوتی۔

اس کے علاوہ تمام سیریز کے انگریزی میں ’سب ٹائٹلز‘ بھی ہوتے ہیں، لہذا اگر آپ اردو یا ہندی نہیں بھی سمجھتے تو مفہوم جاننا ناممکن نہیں ہوتا۔

انڈیا کے سیریلز بنگلہ دیش میں 90 کی دہائی سے ہی مقبول ہیں، اس کے بعد ان میں ترکی اور کورین سیریز بھی شامل ہو گئی ہیں۔ تاہم اردو ڈراموں کی مقبولیت بہت حالیہ ہے۔ تو ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ انڈین، ترکی اور کورین ڈراموں کے ساتھ پاکستانی ڈرامے بنگلہ دیش میں کیسے مقبول ہوئے؟

’دونوں ممالک میں مذہب ایک ہی ہے‘

ایک خیال یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں لوگوں نے پاکستانی ٹی وی سیریز 2015 یا اس سے بھی پہلے دیکھنا شروع کر دیا تھا۔

پاکستانی سیریز کے بارے میں بنگلہ دیش میں سوشل میڈیا پر ایک گروپ کے ایڈمن مسمت البیا کا کہنا ہے کہ اگرچہ پہلے پاکستانی سیریئلز کے ناظرین کی تعداد کم تھی لیکن اب بنگلہ دیش میں بہت سے ناظرین پاکستانی سیریز سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ تاہم، صحیح تعداد کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے۔

فیس بک پر ’پاکستانی ڈرامہ پوسٹنگ بی ڈی‘ نامی گروپ کے تقریباً 25 لاکھ ممبرز ہیں۔ ان کے ایڈمن کا خیال ہے کہ کووڈ کی وبا کے دوران جب لوگ گھر بیٹھے تھے تب سے پاکستانی ڈراموں کے دیکھنے کا رجحان بڑھا۔ انھوں نے اسی دوران اس گروپ کی بنیاد رکھی تھی۔

البیا نے کہا: ’پاکستانی ٹی وی سیریز کے بارے میں ہونے والے بہت سے مباحثوں سے مجھے یقین ہو گیا کہ لوگوں نے انھیں اسی وقت دیکھنا شروع کیا تھا۔ پھر کئی پرانی سیریز دوبارہ زیر بحث آئیں۔ اور گروپ میں لوگوں نے اس کے بارے میں لکھنا بھی شروع کیا۔‘

وہ بنیادی طور پر فیس بک پر دو ایسے گروپس کے ایڈمن یعنی منتظم ہیں۔ ایک نجی گروپ ہے اور دوسرا پبلک۔ البیا کا کہنا تھا کہ ان کے گروپ کے علاوہ پاکستانی سیریز سے متعلق کم از کم نصف درجن فعال گروپس ہیں۔ تمام گروپس میں نئی سیریز، نئی اقساط اور ان کے سٹارز کے بارے میں باقاعدہ مباحثہ جاری رہتا ہے۔

ان گروپس میں سیریز پر بحث کرنے والے بنیادی طور پر ناظرین ہیں جن میں سے کچھ سے بات کرتے ہوئے معلوم ہوا کہ بہت سے لوگ ان سیریز کو دیکھنے میں کافی دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ دونوں ممالک میں مذہب ایک ہی ہے۔

اس کے علاوہ ناظرین کی ان کی طرف متوجہ ہونے کی کئی ديگر وجوہات بھی ہیں۔ کچھ دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ مذہبی جذبات اور کہانی سنانے کے انداز نے دلچسپی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

کہانی، ملبوسات اور موسیقی

پاکستانی ٹی وی سیریز بنیادی طور پر محبت، علیحدگی اور خاندانی تناؤ کی کہانیوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ بے حد مقبول سیریز ’ہمسفر‘ اس کی ایک بہترین مثال ہے۔

'ہمسفر' 2011 میں ریلیز ہوا تھا جس کی کہانی دکھاتی ہے کہ اشعر اور خرد خاندانی وجوہات کی وجہ سے شادی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس کہانی میں معروف فنکاروں فواد خان اور ماہرہ خان نے اداکاری کی ہے۔

پاکستانی معاشرے میں طبقاتی امتیاز اور خواتین کو بااختیار بنانے کے مسائل کو ’زندگی گلزار ہے‘ نامی سیریز میں خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔

’میرے پاس تم ہو‘ کے علاوہ ’سنو چندا‘، ’برزخ‘، ’کبھی میں کبھی تم‘ اور ’پری زاد‘ جیسی حسین محبت کی کہانیوں پر مشتمل مزاحیہ سیریز اس ملک میں مقبول ہیں۔

بہر حال ان میں سے زیادہ تر ٹی وی سیریز پاکستانی ٹی وی پر نشر ہونے کے بعد جب یوٹیوب پر اپ لوڈ کر دی جاتی ہیں اس کے بعد ہی بنگلہ دیش میں ناظرین انھیں دیکھ سکتے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ یہ سیریز زیادہ تر ملک کے ’ہم ٹی وی‘، ’اے آر وائی ڈیجیٹل‘، ’جیو‘ اور ’گرین انٹرٹینمنٹ‘ چینلز پر دیکھی جاتی ہیں۔ ان چینلز پر ہر سیریز کی ہر قسط کو لاکھوں بار دیکھا جاتا ہے۔

پاکستانی ڈرامے کی شوقین سنجیدہ اختر زارا نے کہا: ’مجھے ان کی کہانی بہت پسند ہے، ہر ڈرامے کا ایک الگ تصور ہے، ملبوسات بہت خوبصورت ہیں، ہر ایک کی اداکاری بہت حقیقت پسندانہ ہے، اور ہر ڈرامے میں ایک گیت ہوتا ہے جو سیریل میں ایک الگ لطف پیدا کرتا ہے۔‘

ایک اور باقاعدہ ناظر احسن احمد انس نے بتایا کہ وہ انڈین اور ترکی کی سیریز باقاعدگی سے دیکھتے تھے۔ اب وہ پاکستانی ڈراموں کے مداح بن چکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے گذشتہ سال کم از کم 10 سیریز دیکھی تھیں۔

گروپ کے ایڈمن البیا نے کہا کہ ان کی مقبولیت کی ایک اور وجہ ہے۔ ’ان سیریز کی بہت کم اقساط ہیں۔ کسی کی 15، کسی کی 20 یا 30 ہیں۔‘

نِکیتا نصرت باقاعدگی سے مختلف ممالک کی سیریز سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔ وہ خاص طور پر بہت سے کورین، ترکی اور چینی ڈرامے دیکھتی ہے۔ تاہم وہ آسانی سے پاکستانی سیریز کو دوسرے ممالک سے ممتاز سمجھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ان کی اداکاری اور سیٹ بہت قدرتی ہیں۔ آپ ان کی کہانیوں سے تعلق محسوس کر سکتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ انڈین ٹی وی سیریز اور پاکستانی سیریز میں ’بنیادی‘ فرق ہے۔ ان کے مطابق ’بنیادی فرق میک اپ، قدرتی کہانی سنانے کی تکنیک، جذبات کا ہے۔ اگر آپ پاکستانی گلوکاروں کے گانے دیکھیں تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ کتنے جذباتی انداز میں گاتے ہیں۔‘

ایک اور شوقین تبسم طوبی کا دعویٰ ہے کہ زیادہ تر سیریلز خاندانی تعلقات میں کی پیچیدگیاں دکھاتے ہیں۔ ’کوئی نام نہاد جھگڑا نہیں ہوتا، کوئی برائی نہیں ہوتی، بس سیریلز میں ایسا ہی کچھ ہوتا ہے۔ مجھے پاکستانی سیریلز بہت پسند ہیں۔ وہ لوگوں کے جذبات کی اچھی طرح عکاسی کر سکتے ہیں۔ میک اپ، گیٹ اپ، کپڑے اور بول چال سب ہی مہذب ہوتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ سیریل ’زندگی گلزار ہے‘ دیکھنے کے بعد انھیں ایسا ہی محسوس ہوا۔

پاکستانی سیریئل دیکھنے والے بنگلہ دیشی کون ہیں؟

مختلف گروپس اور ناظرین سے بات کرتے ہوئے معلوم ہوا کہ نوعمر ناظرین پاکستانی ٹی وی سیریز سب سے زیادہ دیکھتے ہیں۔ تاہم، ہر عمر کے ناظرین ان سیریز سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

البیا نے کہا: ’پورا خاندان ایک ساتھ ان کی کہانی اور ملبوسات کی شائستگی کی وجہ سے کسی سیریز سے لطف اندوز ہوسکتا ہے۔ تاہم، عمر کے لحاظ سے اسے کم عمر ناظرین زیادہ دیکھتے ہیں۔‘

تاہم، پاکستانی ڈرامہ سیریز کے ارد گرد بنائے گئے بنگلہ دیشی گروپس کا دعویٰ ہے کہ ان سیریز کے زیادہ تر ناظرین ڈھاکہ اور چٹاگانگ سے ہیں، جن میں سے اکثر ہندی اور اردو زبانوں سے واقف ہیں۔

بنگلہ دیش میں پاکستانی ٹی وی سیریز کی مقبولیت کے حوالے سے نجی ٹیلی ویژن چینل بنگلہ وژن کے پروگرامنگ کے سربراہ طارق اکند کا کہنا تھا کہ ’اب فری سٹریمنگ کا وقت ہے، اس لیے ناظرین آسانی سے سب کچھ دیکھ سکتے ہیں۔ اسی لیے یہ مقبول بھی ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس طرح کے مواد کو دیکھنے کے لیے آپ کو انٹرنیٹ تک رسائی اور آلات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان سہولیات کو یقینی بنانے کے بعد ہی آپ ان سیریز کو دیکھ سکتے ہیں۔ تاہم، اگر یہ مقبول ہیں تو اس سے انکار کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ ناظرین کو کیا اچھا لگتا ہے یا کیا برا لگتا ہے یہ میں نہیں کہہ سکتا میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ سیریز ناظرین کو تفریح فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔‘

معروف اداکار اور تھیٹر کے ہدایت کار صلاح الدین نے کہا کہ ’ہمارے سیریلز کبھی مقبول ہوتے تھے لیکن اب ان میں کمی آئی ہے تاہم ہمارے ملک کے لوگ غیر ملکی سیریل دیکھتے ہیں تو یہ بدقسمتی کی بات ہے۔‘

’لیکن چونکہ اسے یوٹیوب پر دیکھا جاتا ہے اس لیے کسی کو کسی کو کنٹرول کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہمارے سیریئل دیکھیں۔‘

’ان کے سٹارز بھی اتنے ہی مقبول ہیں‘

سیریز کی وجہ سے پاکستانی سٹارز بھی بنگلہ دیش میں مقبول ہو رہے ہیں۔ اداکاروں میں در فشاں سلیم، یمنی زیدی، ہانیہ عامر شامل ہیں، اداکاروں میں بلال عباس خان شامل ہیں جو کافی مقبول ہوئے ہیں۔

وہ بنگلہ دیشی ناظرین کے ساتھ اپنا تعلق بڑھانے کے لیے مختلف سوالوں کا جواب بھی دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، دنانیر مبین نے کچھ دن پہلے بنگلہ دیش میں انقلاب کی حمایت کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر ایک کہانی شیئر کی۔ دوسرے پاکستانی سٹارز نے بھی مختلف دنوں میں بنگلہ دیش کے بارے میں پوسٹ کیا۔ ان وجوہات کی بنا پر انھیں بنگلہ دیشی سامعین کی طرف سے اچھا رسپانس ملا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.