ڈیپ سیک لانچ ہونے کے صرف ایک ہفتے بعد امریکہ میں سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کی جانے والی مفت ایپ بن گئی ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ پہلے سے مستحکم اور بظاہر بہت زیادہ مہنگے اپنے امریکی حریفوں جیسے اوپن اے آئی، چیٹ جی پی ٹی، اور گوگل کے جیمنائی کے مقابلے میں کہاں کھڑی ہے۔
چین نے مصنوعی ذہانت کی اپنیایپ ڈیپ سیک کو لانچ کیا کیا کہ دنیا بھر کی مالیاتی منڈیوں میں ہلچل پیدا ہو گئی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسے امریکی ٹیک انڈسٹری کے لیے ’خطرے کی گھنٹی‘ کہنے پر مجبور ہو گئے۔
ڈیپ سیک کا دعویٰ ہے کہ اس کی مصنوعی ذہانت کا ماڈل آر-1 ان کے حریفوں کے ماڈل کی لاگت کے مقابلے میں انتہائی کم لاگت میں تیار کیا گیا ہے۔ اس دعوے نے پوری صنعت کے مستقبل کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں اور اس کی وجہ سے دنیا کی کچھ بڑی کمپنیوں کی قدر میں کمی بھی واقع ہوئی ہے۔
ڈیپ سیک لانچ ہونے کے صرف ایک ہفتے بعد امریکہ میں سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کی جانے والی مفت ایپ بن گئی ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ پہلے سے مستحکم اور بظاہر بہت زیادہ مہنگے اپنے امریکی حریفوں جیسے اوپن اے آئی، چیٹ جی پی ٹی، اور گوگل کے جیمنائی کے مقابلے میں کہاں کھڑی ہے۔
لکھنے میں معاونت
جب آپ چیٹ جی پی ٹی سے پوچھتے ہیں کہ اس کے استعمال کی سب سے بڑی وجوہات کیا ہیں تو وہ ان وجوہات میں لوگوں کی لکھنے میں مدد کا دعوی کرتا ہے۔
یہ اپنے استعمال کرنے والوں کے لیے ایک مددگار فارمیٹ میں معلومات اکٹھا کرنے، ان کا خلاصہ پیش کرنے سے لے کر بہت سارے موضوع پر بلاگ پوسٹ لکھنے تک کا آلہ بن گيا ہے۔
اس طرح یہ بہت سے لوگوں کے لیے ان کے دفتری کاموں میں معاون ساتھی بن گيا ہے۔
سکاٹ لینڈ کی فٹبال ٹیم کے ایک قابل فخر پرستار کے طور پر میں نے چیٹ بوٹس سے ’تاریخ کے بہترین سکاٹش فٹبال کھلاڑیوں کے خلاصہ پر مبنی ایک بلاگ پوسٹ کا مسودہ تیار کرنے‘ کا کہا۔ ایسا ہی میں نےچیٹ جی پی ٹی اور ڈیپ سیک سے کہا کہ وہ سکاٹش فٹبال کے بہترین کھلاڑیوں کا خلاصہ پیش کریں۔
ڈیپ سیک نے سیکنڈوں میں جواب دیا اور چوٹی کے دس بہترین کھلاڑیوں کی فہرست تیار کر دی جس میں لیورپول اور سیلٹک کے کینی ڈالگلش کو پہلے نمبر پر رکھا گيا تھا۔ اس نے ان کھلاڑیوں کے بارے میں یہ معلومات بھی فراہم کی کہ وہ کون سی پوزیشن سے کھیلتے ہیں اور ان کے کلب کون کون سے ہیں جبکہ کہ ان کی نمایاں کارکردگیوں کا خلاصہ بھی پیش کیا۔
ڈیپ سیک نے دو غیر سکاٹش کھلاڑیوں کی بھی تفصیل بتائی۔ ان میں سے ایک ڈنمارک کے باشندے اور کھلاڑی رینجرز کے لیجنڈ برائن لاڈروپ تھے اور دوسرے سیلٹک ہیرو ہنریک لارسن۔
لارسن کے لیے ڈیپ سیک نے مزید کہا کہ ’سویڈن والے لارسن کو سیلٹک میں ان کے اثرات کی وجہ سے اکثر سکاٹش فٹبال لیجنڈز کے مباحثوں میں شامل کیا جاتا ہے۔‘
اس کے بعد کے بلاگ پوسٹ کے لیے اس نے کھلاڑیوں کے کریئر کا مختصر سا جائزہ پیش کرنے سے پہلے لاڈروپ کی قومیت کی تفصیل کو بیان کیا۔
اسی سوال کے جواب میں چیٹ جی پی ٹی نے جو جواب دیے ان میں بہت سے نام مشترک تھے۔ اس نے بھی ’کنگ کینی‘ کو سرفہرست رکھا تھا۔
اس کی تفصیلی بلاگ پوسٹ مختصراً اور درست طور پر تمام کھلاڑیوں کے کرئیر کا احاطہ کر رہی تھی۔
اس نے نتیجہ اخذ کیا کہ ’اگرچہ دہائیوں میں یہ کھیل بدل گیا ہے، لیکن ان سکاٹش عظیم کھلاڑیوں کے اثرات لازوال ہیں۔‘ اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے۔
اس تفریحی ٹیسٹ میں ڈیپ سیک یقینی طور پر اپنے سب سے مشہور امریکی حریف چیٹ جی پی ٹی کے مقابلے میں زیادہ قابل قدر نظر آیا۔
کوڈنگ
مصنوعی ذہانت کے ایڈوانسڈ ماڈلز کے ظہور نے ان لوگوں میں بڑا فرق کیا ہے جو کوڈنگ کرتے ہیں۔
جب چیٹ جی پی ٹی کو گذشتہ ہفتے بندش کا سامنا کرنا پڑا تھا تو بہت سے کوڈنگ کرنے والے یا ڈویلپرز صارفین نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر مزاحیہ پوسٹس کیں کہ وہ اپنے وفادار آلے کے بغیر اپنا کام نہیں کر پا رہے ہیں۔
ڈیپ سیک کا یہاں موازنہ کیسے ہو سکتا ہے؟
جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں سام سنگ میڈیکل سینٹر میں اے آئی کے محقق جیویئر ایگویئر میڈیسن یعنی طب اور مصنوعی ذہانت میں تحقیق کرنے کے شعبے سے وابستہ ہیں۔
منگل کو انھوں نے سوشل پلیٹ فارم لنکڈ اِن پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’میں ڈیپ سیک سے کافی متاثر ہوں۔ کوڈنگ کے دوران ہم عام طور پر اے آئی چیٹ بوٹس کو اس حد تک لے جانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ پھٹ جائے تاکہ کوڈنگ میں مدد کرنے میں ان کی صلاحیتوں کو دیکھا جا سکے۔
’آج میرے سامنے واقعی ایک مشکل اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ یہاں تک کہ چیٹ جی پی ٹی او ون بھی اس کا مناسب حل نہیں دے سکا۔ میں نے پھر ڈیپ سیک پر ایک کوشش کی اور اس نے اسے فوراً ہی درستگی کے ساتھ حل کر دیا۔‘
انھوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ کوڈرز کے لیے ماڈلز کا امتزاج کامیابی کا باعث بن سکتا ہے۔ ایسی ہی بات گوگل میں کروم ڈیولپر ایکسپیریئنس کے سربراہ ایڈی عثمانی نے بھی کی۔
انھوں نے لنکڈ اِن پر اپنے 208 ہزار فالوورز کے لیے اپنی ایک پوسٹ میںڈیپ سیک کو مصنوعی ذہانت کی امریکی کمپنی اینتھروپک کے آلے کلاڈ سونیٹ کے ساتھ جوڑنے کی بات کہی۔
خیال رہے کہ سنہ 2023 میں امیزون نے اینتھروپک میں چار ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔
ایڈی عثمانی نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کے ساتھ کوڈنگ کریں؟ کوڈنگ کے لیے ڈیپ سیک آر-1 کے ساتھ کلاڈ سونیٹ بہترین ہائبرڈ ماڈل ہو سکتا ہے۔ اور ہاں، انجینیئرز ان کا ایک ساتھ استعمال کر رہے ہیں۔‘
عثمانی نے یہ بھی کہا کہ ڈیپ سیک درحقیقت کلاڈ سونیٹ اور اوپن اے آئی کے او-1 ماڈل دونوں کے مقابلے میں استعمال کرنے کے لیے ’نمایاں طور پر سستا‘ ہے۔
نئے نئے خیالات
ہم نے نئے خیالات پر غوروفکر یا برین سٹارمنگ کے بارے میں سوچا اور چیٹ جی پی ٹی اور ڈیپ سیک سے کہا کہ وہ مجھے ’بچوں کی کہانیاں تیار کرنے کے لیے چاند پر رہنے والے لڑکے کے بارے میں آئیڈیاز دیں۔‘
چیٹ جی پی ٹی نے سیکنڈوں کے اندر چھ صاف ستھرے خیالات پیش کیے۔ ان میں سے کہانی اس طرح تھی کہ میکس نامی ایک لڑکا ہے جو چاند پر ڈاکیے کے طور پر کام کرتا تھا اور اسے ایک مہم جوئی پر بھیجا گیا ہے۔ ایک اور اولیور کے بارے میں تھا جو ایک پراسرار آرکسٹرا کی آوازوں کی جانب کھنچا چلا جاتا ہے جو ایلینز (دوسرے کرے کی مخلوق) نے تیار کیا تھا۔
ان میں سے کوئی بھی کہانی جلد ہی ہیری پوٹر یا رول ڈھال کو چیلنج نہیں کرے گی، لیکن یہ شاید مزید بہتر خیالات کے پنپنے کا آغاز ہو سکتی ہے۔
دوسری طرف، ڈیپ سیک نے صرف ایک خیال کے ساتھ جواب دیا۔ اس نے ’لونا اور ایک لڑکے کا خیال پیش کیا جو ستاروں کا پیچھا کرتا ہے۔‘ اس کا جواب 387 الفاظ پر مشتمل تھا جس میں اس نے ’لونا‘ نامی چیز کی وضاحت نہیں کی تھی جبکہ اس نے چاند پر رہنے والے میلو نامی ایک متجسس بچے کی کہانی بیان کی تھی۔
مجھے یہ پتا چلا کہ جہاں چیٹ جی پی ٹی نے مجھے چھ مختلف طرح کے خیالات دیے وہیں ڈیپ سیک نے ایک پوری کہانی لکھ کر دے دی۔ اگرچہ یہ کہانی بہت اچھی نہیں تھی لیکن اس نے اے سے لے کر بی تک جانے والے ایک سادہ سے کردار پر مبنی ایک کہانی فورا ہی پیش کر دی۔ یہ اگرچہ ابھی آغاز ہی ہے لیکن یہ متاثرکن ہے۔
سیکھنا اور تحقیق
مجھے اپنے ہائی سکول کی بات یاد آ رہی ہے کہ میرے تاریخ کے استاد ہمیں یہ بتا رہے تھے کہ پہلی جنگ عظیم کس طرح بہت سی یورپی طاقتوں کے درمیان ایک پیچیدہ صورتحال میں سنہ 1914 میں شروع ہوئی جبکہ آرچ ڈیوک فرانز فرڈینینڈ کا قتل اس کی فوری وجہ ٹھہرا۔
ہم نے سوچا کہ چیٹ بوٹس تاریخ کے اتنے پیچیدہ اور اہم حصے کی وضاحت کرنے سے کیسے نمٹیں گے؟ تو پتا چلا کہ بہت اچھی طرح سے۔
چیٹ جی پی ٹی نے اس پر ایک تفصیلی جائزہ پیش کر دیا اور اہم عوامل کا خاکہ پیش کیا۔ ڈیپ سیک کا تجزیہ اتنا تفصیلی نہیں تھا، لیکن اس کا مختصر جائزہ تمام اہم نکات اور واقعات کا احاطہ کرتا تھا۔
گوگل کے جیمنی اسسٹنٹ نے چیٹ جی پی ٹی اور ڈیپ سیک کی ہی طرح ایک خلاصہ پیش کیا لیکن اس نے صارف کو برطانیہ میں امپیریل وار میوزیم جیسے معتبر ذرائع سے لنکس پر کلک کرنے کا موقع بھی فراہم کیا۔
میں نے دوسرے کاموں اور اشارے کے متعلق بھی دیکھا کہ ڈیپ سیک یقینی طور پر اپنے امریکی حریفوں کا مد مقابل نکلا۔
آگے نکلنے کی جی توڑ کوشش
میں نے چیٹ بوٹس کو جو کام دیے وہ آسان تھے لیکن وہ کچھ زیادہ اہم بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ابھی نام نہاد مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں فاتح کا فیصلہ ہونا باقی ہے کیونکہ دوڑ ابھی لمبی ہے۔
امریکی کمپنیوں نے جتنے وسیع وسائل اس شعبے میں ڈالا ہے ان سب سے قطع نظر ان کے چینی حریف نے یہ دکھایا ہے کہ ان کی کامیابیوں کی تقلید کی جا سکتی ہے۔
کیمبرج یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبہ میں ڈیپ مائنڈ مشین لرننگ کے پروفیسر پروفیسر نیل لارنس نے کہا کہ یہ ابھی شروعات ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں ان ماڈلز میں جس قسم کی جدت کی ہم توقع کر سکتے ہیں اس کے لحاظ سے یہ سمندر کی سطح پر برف کا نظر آنے والا ایک سرا ہے۔‘
انھوں نے تاریخ سے ایک مثال اٹھا کر اس پر روشنی ڈالی کہ جیمز واٹ کو بھاپ کے انجن کا مترادف سمجھا جاتا ہے حالانکہ اس نے اسے ایجاد کرنے کے بجائے بہتر کیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’نئے جیمز واٹس کے سامنے آنے کے لیے کافی جگہ ہے، اور یہ کہ ان کے موجود کھلاڑیوں میں سے آنے کا امکان کم ہے۔‘