دماغ کو مفلوج کرنے والا آئس کا نشہ: ’مجھے اپنی بیوی پر ہی شک ہو گیا کہ مخالفین نے اُسے مجھے مارنے کے لیے بھیجا ہے‘

صوبائی دارالحکومت پشاور میں کارخانو مارکیٹ اور شہر کے اندرون علاقوں میں کئی مقامات ایسے ہیں جہاں نشے کے عادی افراد بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں اور اُن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ سرکاری حکام کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے دیگر صوبوں کی نسبت صوبہ خیبر پختونخوا میں نشے کے عادی افراد کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
کرسٹل میتھ
Getty Images

’پہلی مرتبہ آئس کا نشہ کرنے سے قبل میری سوچ یہی تھی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان وقتی طور کسی غم کو بُھلانے کے لیے نشہ کرے اور پھر اسے چھوڑ نہ سکے۔ اسی سوچ کے باعث مجھے اپنے آپ پر بہت اعتماد تھا کہ میں یہ سب وقتی طور پر کر رہا ہوں۔۔۔ مگر جب کچھ عرصے بعد میں یہ نشہ چھوڑ نہ پایا تو آہستہ آہستہ میرا اپنے اوپر ہی اعتماد ختم ہو گیا۔‘

بی بی سی کو ڈاکٹر جمیل (فرضی نام) پشاور کے ایک ترکِ نشہ سینٹر میں ملے تھے جہاں وہ دوسری مرتبہ زیرِ علاج ہیں۔ اُن کے مطابق پہلی مرتبہ اس سینٹر کی مدد سے نشہ چھوڑنے کے بعد وہ معمول کی زندگی میں واپس لوٹے تھے مگر جلد ہی انھوں نے خود کو دوبارہ آئس کے نشے میں مبتلا پایا۔

جمیل دانتوں کے ڈاکٹر (ڈینٹسٹ) ہیں۔ اپنی افسوسناک کہانی کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’میرے جاننے والے کچھ دوست آئس کا نشہ کرتے تھے، میں نے میڈیکل کالج کی اپنی محبت کو بھلانے کے لیے ایک ٹرائی کی اور اس کے بعد تو جیسے میں کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گیا تھا۔‘

’مجھے اپنے آپ پر اتنا اعتماد تھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی آئس وغیرہ لے اور پھر اسے نہ چھوڑ سکے۔۔۔ مگر جلد ہی معلوم ہو گیا کہ جب آپ یہ نشہ شروع کرتے ہیں تو اس کے بعد آپ کو اور کچھ نہیں چاہیے ہوتا، بس یہی آئس آپ کی ساتھی ہوتی ہے، محبت کو چھوڑیے باقی تمام تر احساسات بھی ختم ہو جاتے ہیں۔‘

جمیل کہتے ہیں کہ وہ ذہنی طور پر تھوڑے پریشان تھے اور ساتھ ہی امتحانات آ گئے اور اُن پر توجہ مبذول کرنے کے لیے انھوں نے یہ سب شروع کیا۔

پشاور کے ایک متمول گھرانے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر جمیل کا اب دوسری مرتبہ علاج کروایا جا رہا ہے، لیکن انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ علاج کے ساتھ ساتھ اپنے آپ پر قابو پانا بہت ضروری ہے، وگرنہ نشہ چھٹنے کے بعداس نشے کی طلب پھر بڑھ سکتی ہے اور یہی کچھ ان کے ساتھ پہلی مرتبہ علاج کے بعد ہوا تھا۔

جمیل کہتے ہیں کہ ’اس دوران میں نے باقی نشے بھی کیے لیکن آئس کے نشے کے انسانی نفسیات اور جسم پر انتہائی خطرناک اثرات ہوتے ہیں۔‘

نشہ
BBC
ڈاکٹر جمیل بی بی سی کو اپنی کہانی سُناتے ہوئے

پشاور میں اِن دنوں نشے کے عادی افراد کے علاج اور اُن کی بحالی کے لیے سرکاری سطح پر ایک مہم جاری ہے اور اُس وقت صوبائی دارالحکومت کے مختلف منشیات بحالی مراکز اور ہسپتالوں میں لگ بھگ 1300 کے قریب نشے کے عادی افراد کا علاج جاری ہے۔

سرکاری حکام کے مطابق اِن زیر علاج افراد میں ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو آئس کے نشے میں مبتلا ہیں۔ ان کے مطابق ’سستا ہونے اور آسانی سے دستیاب‘ ہونے کی وجہ سے یہ نشہ اب پہلے کی نسبت زیادہ زندگیاں تباہ کر رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے منشیات کی سنہ 2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت نشے کے شکار افراد کی مجموعی طور لگ بھگ 67 لاکھ کے قریب ہے جن میں 78 فیصد مرد جبکہ 22 فیصد خواتین ہیں۔ بعض دیگر اداروں کی رپورٹس میں یہ تعداد 76 لاکھ تک بتائی گئی ہے۔

صوبائی دارالحکومت پشاور میں کارخانو مارکیٹ اور شہر کے اندرون علاقوں میں کئی مقامات ایسے ہیں جہاں نشے کے عادی افراد بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں اور اُن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ سرکاری حکام کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے دیگر صوبوں کی نسبت صوبہ خیبر پختونخوا میں نشے کے عادی افراد کی تعداد کہیں زیادہ ہے، تاہم اس ضمن میں کوئی سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔

کمشنر پشاور ریاض محسود نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں نشے کی لت میں مبتلا افراد کی تعداد اس لیے بھی زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ بڑی تعداد میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے نشے کے عادی افراد بھی یہاں آتے ہیں اور اس کی وجہ خیبرپختونخوا میں نشے کی آسانی اور سستے میں دستیابی ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ خیبرپختونخوا کے افغانستان کے ساتھ طویل سرحد کی وجہ سے نشہ پاکستان پہنچ جاتا ہے۔

اسی بحالی سینٹر میں زیر علاج شیر زمان (فرضی نام) نے دعویٰ کیا کہ وہ پہلے ہیروئن کا نشہ کرتے تھے جو اب بہت مہنگی ہو چکی ہے جبکہ ایک گرام تک آئس پشاور میں صرف 400 روپے میں مل جاتی ہے چنانچہ انھوں نے آئس کا استعمال شروع کر دیا۔

ریاض محسود کے مطابق اُن کی نظر میں خیبر پختونخوا میں اگرچہ دہشت گردی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے لیکن اس سے بھی زیادہ خطرناک اور بڑا مسئلہ منشیات کا استعمال ہے جو معاشرے کو تباہ کر رہا ہے۔

پشاور میں سڑکوں اور مارکیٹوں میں نشے کے عادی افراد جا بجا بھیک مانگتے نظر آتے ہیں اور اس آمدنی سے وہ اپنے نشے کی ضروریات پوری کرتے ہیں اور اس کے بعد جہاں جگہ ملے، وہیں سو جاتے ہیں۔

نشہ
Getty Images

نشہ اور عجیب و غریب ذہنی کیفیت

گذشتہ ماہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں ایک نوجوان نے علی الصبح اپنے ہی گھر میں فائرنگ کر کے اپنے والد سمیت تین افراد کو ہلاک کر دیا ہے۔ اس واقعے کی ایف آئی آر ملزم کے بھائی کی مدعیت میں درج کروائی گئی جس میں بتایا گیا کہ ملزم بھائی آئس کے نشے کا عادی تھا جس کے باعث اس کی ذہنی حالت ناکارہ ہو چکی تھی۔

پشاور کے ایک بحالی مرکز میں ایک ڈاکٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ رواں برس اُن کے پاس ایک ایسا مریض بھی زیر علاج رہا جس نے آئس کے نشے کے ہی زیر اثر اپنے خاندان کے چھ افراد کا قتل کیا۔

نشہ اور دماغی امراض کے ڈاکٹر میاں افتخار حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کے پاس ایک ایسا مریض بھی حال میں لایا گیا جس نے آئس کے نشے کے زیر اثر اپنے سارے دانت توڑ دیے کیونکہ اُن کو ایسا محسوس ہوا تھا کہ جیسے کسی نے اُن کے دانتوں میں سم نصب کر دی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ نشے کا عادی ایک ایسا نوجوان بھی لایا گیا جس کی ذہنی حالت اتنی خراب ہو چکی تھی کہ اسے لگتا تھا کہ اُس پر جنوں کا سایہ اور وہ اُس کے ساتھ ریپ بھی کرتے ہیں۔ آئس کے ہی نشے میں مبتلا ایک مریض کو اپنی اہلیہ پر یہ شک ہو گیا تھا کہ انھیں اُن کے ’ان دیکھے مخالفین‘ نے انھیں مارنے کے لیے اُن کے پاس بھیجا تھا۔

ڈاکٹر افتخار حسین کا کہنا تھا کہآئس کے نشے سے انسان کئی گنا زیادہ متحرک اور چست ہو جاتا ہے اور اس کے حواس اتنے متحرک ہوتے ہیں کہ جو چیز اور بات وجود نہیں بھی رکھتی، وہ انھیں نظر آنے لگتی ہے اور وہ اس پر بضد ہوتے ہیں اور بعض اوقات قتل تک کرنے سے نہیں کتراتے۔

پشاور کے ایک بحالی مرکز میں جمال (فرضی نام ) اپنے دیگر مریض ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ جمال کی عمر لگ بھگ 45 سال ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کا گھر کارخانو مارکیٹ کے ساتھ واقع ہے اور انھیں نشے کی ابتدائی لت بچپن ہی میں پڑ گئی تھی کیونکہ ان کے والد انھیں چرس خریدنے بھیجتے تھے۔

’بچپن میں میرے والد پیسے دیتے تھے کہ جاؤ میرے لیے چرس لے آؤ۔ میں چرس لینے جاتا تھا اور پھر بچپن میں ہی خود بھی چرس پینے لگ گیا۔ بعد میں میں دیگر نشوں کا رسیا ہو گیا۔‘

’بحالی مرکز آنے سے قبل میں کچھ عرصہ سے آئس استعمال کر رہا تھا۔ اُس کا میرے ذہن پر بہت سخت اثر ہوتا تھا۔۔۔ گھر سے باہر نکلتا اور اگر دو بندوں کو بات کرتے دیکھتا تو ایسا ہی محسوس ہوتا تھا جیسے وہ میرے ہی خلاف سازش کر رہے ہیں اور مجھے مارنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ اگر گھر میں آتا اور بیوی اگر میرے بھائی یا کسی رشتہ دار سے بات کر رہی ہوتی تو ایسا لگتا کہ اس کا اس کے ساتھ کوئی تعلق ہے۔ بس ذہن غلط غلط باتیں سوچتا رہتا تھا۔‘

نشہ
BBC
پشاور میں نشے سے بحالی کے بہت سے مراکز کام کر رہے ہیں

آئس کا نشہ دماغ کو کیسے مفلوج کرتا ہے؟

نشہ بحالی سینٹرز میں بی بی سی نے اس حوالے سے متعدد طبی ماہرین سے بات کی جنھوں نے بتایا کہ چرس، ہیروئن وغیرہ جیسے دیگر نشے انسان پر غنودگی جیسی کیفیت طاری کر دیتے ہیں مگر آئس ایسا نشہ ہے جو نشہ کرنے والے کو توانائی دیتا ہے اور جسم اور دماغ کو اتنا متحرک کر دیتا ہے کہ نشہ کے زیر اثر شخص وہ دیکھنے اور سوچنے لگتا ہے جو حقیقت میں موجود نہ ہو۔

ڈاکٹر میاں افتخار حسین نے بتایا کہ آئس کے نشے میں مبتلا افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس میں نوجوان لڑکے لڑکیاں اور بڑی عمر کے تمام لوگ شامل ہیں۔

انھوں نے کہا کہ نشے کا ذہن پر اثر ایسا ہوتا ہے کہ جیسے سائیکوسس یا شیزوفرینیا۔

ڈاکٹر افتخار حسین نے بتایا کہ آئس استعمال کرنے والوں میں ڈیلیوژن پیدا ہوتے ہیں یعنی تخیلاتی حالت، اُسے ہر ایک پر شک ہونے لگتا ہے حتی کہ اپنی بیوی، گھر والوں اور بچوں پر بھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ دوستوں اور قریبی لوگوں کے بارے عجیب و غریب خیالات ذہن میں جگہ بنانے لگتے ہیں اور انہی بے سروپا خیالات کے زیر اثر بعض اوقات نشہ میں مبتلا شخص اپنے پیاروں کو نقصان اور یہاں تک کہ قتل تک کر دینے سے گریز نہیں کرتا۔

ڈاکٹروں کے مطابق آئس کا عادی شخص حقیقت سے دور ہوتا جاتا ہے اور اُس کی سوچ بتدریج انتہائی منفی ہو جاتی ہے اور اس کے بعد اس کے رویے میں تبدیلی پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

منشیات کے علاج کے لیے قائم ایک بحالی مرکز میں موجود دماغی امراض کے ڈاکٹر قادرشہباز محی الدین نے بتایا کہ آئس استعمال کرنے والے مختلف فیزز سے گزرتے ہیں۔ ’بعض اوقات انھیں وہ آوازیں سُنائی دینے لگتی ہیں جو حقیقت میں وجود نہیں رکھتیں۔ وہ حالت شک میں رہتے ہیں، جیسا کہ گھر میں دیے جانے والے کھانے کو دیکھ انھیں لگتا ہے کہ جیسے کسی نے اس میں زہر ملا دیا ہو، بعض مریض اس کیفیت میں اپنی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے کیونکہ انھیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے مسائل کا حل اب صرف موت ہے۔‘

ماہرین کے مطابق بعض اوقات ڈیپریشن میں مبتلا لوگ نشے کا استعمال شروع کر دیتے ہیں اور پھر وہ مزید ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں۔

تصویر
BBC

نفسیاتی اثرات اور بحالی

صوبائی دارالحکومت میں قائم بحالی مراکز میں ہر قسم کے مریض آتے ہیں جہاں ان کے علاج کے لیے دماغی امراضکے ڈآکٹروں کے علاوہ ماہرین نفسیات بھی موجود ہوتے ہیں۔

ماہر نفسیات فائقہ نور نے بی بی سی کو بتایا کہ انسانی دماغ کے اندر ایک پاتھ وے ہے جس سے ڈوپامین پیدا ہوتا ہے اور یہ ڈوپامینپلیژر یا خوشی دینے والے ہارمونز ہیں،اور نشے میں جب یہ ہارمونز ریلیز ہوتے ہیں تو نشہ کرنے والا شخص وقتی خوشی محسوس کرتا ہے۔

’اکثر نشے کے عادی افراد سے بات کی جائے تو وہ بتاتے ہیں کہ کیسے زندگی میں درپیش صورتحال سے مشکل سے عارضی ریلیف حاصل کرنے کے لیے انھوں نے نشے کا آغاز گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے بجلی کا تاریں ذہن کے اندر موجود ہیں اور ان میں خیالات کا بہاؤ ہوتا ہے، آئس کے استعمال سے ان تاروں میں ڈوپامین کا اخراج ہوتا تو اس میں تبدیلی آ جاتی ہے اور پھر اکثر یہ تاریں آپس میں ٹکرا جاتی ہیں یا اُن میں کرنٹ زیادہ آ جاتا ہے۔ ڈوپامین کے زائد اخراج سے حواس اس حد تک تیز ہو جاتے ہیں کہ وہ دکھائی دینے لگتا ہے جو حقیقت میں موجود نہ ہو، وہ سنائی دینے لگتا ہے جو خیالی ہو۔‘

حکومت روک تھام کے لیے کیا کر رہی ہے؟

پشاور میں حکام کے مطابق وہ گاہے بگاہے انسداد نشہ مہمات کا اجرا کرتے ہیں اور گلیوں سڑکوں اور چوراہوں سے نشے کے عادی افراد کو زبردستی بحالی مراکز منتقل کرتے ہیں اور اس کام کے لیے باقاعدہ فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔

کمشنر پشاور ڈویژن ریاض محسود کا کہنا ہے کہ منشیات کی خیبرپختونخوا میں سمگلنگ اور اس کا استعمال، ان کے خیال میں، دہشت گردی سے زیادہ خطرناک ہے اور موجودہ حکومت اس کی روک تھام کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ وزیرِ اعلیٰ خیبرپختونخوا سیکریٹریٹ میں انسداد نشہ کا ایک کنٹرول روم قائم کیا گیا ہے جس میں منشیات کی روک تھام کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے اعلی سرکاری حکام کو مطلع رکھا جاتا ہے اور آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دیا جاتا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.