چار ہزار میٹر سے زیادہ کی بلندی پر یخ بستہ ہواؤں کے بیچ مزمل نے شاہراہ ریشم سے اپنے تعلق کی داستان سنائی تھی۔ اس کی داستان کا آغاز جنگ سے ہوا جس کے دوران اس نے ایک خزانے کی دریافت کے بارے میں بتایا۔
مزمل حسین کو یاد ہے جب ان کے سکول میں کھیل کے میدان میں پہلی بار بم پھٹے تھے۔ یہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کارگل جنگ کا آغاز تھا۔
مزمل انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے لداخ میں کارگل شہر کے ہی رہائشی تھے جو اس واقعے کے بعد اپنے اہلخانہ کے ساتھ ایک اور علاقے میں منتقل ہونے پر مجبور ہو گئے۔
انڈیا نے جنگ کے اختتام پر فتح کا اعلان کیا تو مقامی لوگوں کی واپسی ممکن ہوئی۔ ایسے میں مزمل کے بیمار دادا نے ایک پرانی پراپرٹی کا جائزہ لینے کو کہا، جو مزمل کے پڑدادا کے دور کی بنی ہوئی تھی، کہ کہیں جنگ کے دوران گولہ باری سے اسے نقصان تو نہیں پہنچا۔
یہ جگہ دہائیوں سے بند تھی اور جب کارگل کے مرکزی بازار کے قریب اس مقام پر پہنچ کر مزمل کے چچا نے زنگ آلود کنڈی کھول کر اندر جھانکا تو انھیں کچھ عجیب سے نظارے کا سامنا تھا۔ اندر لکڑی کے ایسے صندوق پڑے تھے جن پر دنیا بھر کے شہروں کے نام درج تھے۔
انھوں نے جگہ بنا کر ان صندوقوں کو ایک ایک کر کے کھولنا شروع کیا تو چین کا ریشم، افغانستان کے چاندی کے برتن، ایرانی قالین، تبت کا فیروزہ، منگولیہ میں تیار ہوئی گھوڑوں کی زینیوں سمیت لندن، نیو یارک اور میونخ میں تیار کردہ لگژری صابن تک برآمد ہوئے۔
وہ ایک خزانہ دریافت کر چکے تھے جو جلد ہی شاہراہ ریشم کے نوادرات کے طور پر پہچانے گئے۔ لیکن مزمل حسین کو اس وقت یہ علم نہ تھا کہ ان کی زندگی بھی بدلنے والی ہے۔
یہ واقعہ 25 سال پرانا ہے۔ لیکن آج یہ نوادرات صدیوں قبل شاہراہ ریشم پر پرخطر سفر کرنے والے تاجروں کے سفر کی یاد دلاتے ہیں جو کشمیر کو لداخ سے جوڑنے والے زوجیلا کے پہاڑی راستے سے بھی گزرتا تھا۔ یہ آج بھی دنیا کی خطرناک ترین سڑکوں میں سے ایک ہے۔
رونگٹے کھڑے کر دینے والے اس سفر کے دوران میری ہتھیلیاں پسینے سے شرابور تھیں۔ میں نے پریشانی میں باہر جھانکا تو وادی قریب ایک ہزار میٹر نیچے تھی۔
میں نے کھڑکی سے ناک جوڑا بھی لیکن اس سڑک کا کنارہ نظر نہیں آیا، بس ہوا تھی اور نیچے کھائی۔ آگے بیٹھے ہوئے مزمل کے لیے یہ معمول کا سفر تھا جو اس کا خاندان صدیوں سے کرتا چلا آیا ہے۔
میری مزمل حسین سے پہلے ملاقات 2023 میں اس وقت ہوئی تھی جب میں مشرقی لداخ میں برفانی تیندووں کی تلاش میں گھوم رہا تھا۔
اس وقت چار ہزار میٹر سے زیادہ کی بلندی پر یخ بستہ ہواؤں کے بیچ مزمل نے شاہراہ ریشم سے اپنے تعلق کی داستان سنائی تھی۔ اس کی داستان کا آغاز جنگ سے ہوا جس کے دوران اس نے ایک دبے ہوئے خزانے کی دریافت کے بارے میں بتایا۔
میں مذید جاننا چاہتا تھا اور اسی لیے دو سال بعد میں ایک بار پھر زوجیلا پاس کا سفر کر رہا تھا اور مجھے امید تھی کہ میں رات ہونے سے قبل کارگل کے تاریخی تجارتی مرکز پہنچ سکوں گا۔ شاید صدیوں سے اس راستے پر سفر کرنے والے تاجر بھی ایسے ہی کارگل پہنچنے کی امید کیا کرتے ہوں گے۔
لداخ انڈیا، پاکستان اور چین کے درمیان متنازع سرحد پر موجود ہے جہاں آسمان کو چھوتی چوٹیاں، برفانی وادیاں اور چٹیل میدان نظر آتے ہیں۔
سندھ کے کنارے خوبانی اور سفید سیب کے درخت، اور اوپر پہاڑوں میں بھورے ریچھ اور برفانی تیندوے اپنے اگلے شکار کی تلاش میں گھومتے ہیں۔
یہ ایک ایسا مقام ہے جو تجارت اور فتوحات دونوں کے لیے ہی تاریخی اعتبار سے اہم رہا اور جدید لداخ میں بدھ مت کے ماننے والوں اور مسلمانوں سمیت متعدد قبائلی آباد ہیں۔
شاہراہ ریشم دنیا کے سب سے بڑے زمینی تجارتی راستے کا نام ہے جو چھ ہزار چار سو کلومیٹر طویل اور یورپ کو مشرقی ایشیا سے جوڑتا ہے۔
اگرچہ اس کا نام چینی ریشم کی وجہ سے مشہور ہوا جو پہلی صدی عیسوی میں رومی اشرافیہ درآمد کیا کرتی تھی، اس راستے پر خیالات، مذہب، سامان سیت کرنسیوں نے بھی سفر کیا۔
تاہم 1453 میں جب سلطنت عثمانیہ نے چین کا بائیکاٹ کر دیا تو یہ رابطہ ٹوٹ گیا تھا اور پھر شاہراہ ریشم ٹکڑوں میں ہی زندہ رہی۔ ان میں سے ہی ایک ٹکڑا لداخ میں بیسیویں صدی تک زندہ ہے۔
زوجیلا پاس کے خطرناک اور صبرآزما سفر کے چند دن بعد میں اور مزمل وسطی کارگل کے ایک بازار میں ایک چھوٹے سے کیفے پر بیٹھے مسالہ چائے اور دال سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
پہاڑوں پر اذان گونج رہی تھی اور قریب ہی ایک بیکری میں لکڑی پر جلنے والی آگ کا دھواں اٹھ رہا تھا۔ مزمل نے مجھے تفصیل سے بتایا کہ اس کے خاندان نے پردادا کے خزانے کو محفوظ کرنے کا فیصلہ کیوں کیا۔
پہلے تو مزمل کا خاندان غیر یقینی کا شکار رہا کہ ان قدیم چیزوں کے ساتھ کیا کرے۔ 2002 میں فلوریڈا اٹلانٹک یونیورسٹی کے محققین ڈاکٹر جیکلین فیکز اور ناصر خان نے اس خزانے کی دریافت کی افواہیں سن کر مزمل کے خاندان سے ملنے کا فیصلہ کیا۔
وہ پہلی ہی نظر میں اس کی اہمیت جان گئے اور انھوں نے مشورہ دیا کہ ان نوادرات کو محفوظ کر لیا جائے۔
اس کے بعد مزمل کے دو چچا ملے اور انھوں نے ’منشی عزیز بھٹ میوزیم‘ کی بنیاد رکھی جہاں یہ اشیا کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔ ان میں 18ویں صدی میں لداخ میں تیار ہونے والی مصنوعات سمیت 19ویں صدی کے چینی تانبے کے حقے بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر جیکلین کے نزدیک یہ میوزیم اہم اور اچھوتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’منشی عزیز بھٹ میوزیم کو برٹش میوزیم یا سمتھسونیئن میوزیم بننے کی ضرروت نہیں کیوں کہ یہاں جو چیز مل رہی ہے وہ مقامی اور بین الاقوامی لوگوں کے لیے بیش قیمت ہے۔ یہاں اس شناخت کی کہانی موجود ہے جو ورثا کے لیے اہم ہے اور یہ چیز کسی بڑے میوزیم میں نہیں ملے گی۔‘
مزمل تحقیق کا کام کرتے ہیں اور اپنے خاندان کی تاریخ کھوج رہے ہیں۔ ان کو امید ہے کہ اس سے انھیں مذید سیاحوں کو متوجہ کرنے میں مدد ملے گی۔ مزمل کے چچا اعجاز منشی کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں ہر کسی کو اپنے خاندان کی تاریخ محفوظ کرنی چاہیے کیوں کہ جدید دور میں ہم اپنی جڑوں سے دور ہو جاتے ہیں۔‘
1886 میں لیہ میں پیدا ہونے والے منشی عزیز بھٹ، مزمل کے پردادا، نے سکردو کے ایک سکول میں تعلیم حاصل کی اور پھر کارگل چلے آئے۔
سکردو اب پاکستان کے زیر انتظام علاقے میں ہے۔ اس وقت کارگل قدیم شاہراہ ریشم کی ایک شاخ کا اہم مرکز تھا جو چین کو کشمیر کے راستے وسطی ایشیا سے جوڑتا تھا۔
مزمل کہتے ہیں کہ کارگل ہمیشہ سے ہی دنیا کے مختلف حصوں سے جڑا رہا ہے۔ اس نام کا مطلب ہی رکنے کی جگہ ہے، (سلطنتوں کے درمیان)۔
ان کے پردادا منشی عزیز ایک کامیاب اکاوئنٹنٹ تھے جنھوں نے ایک چھوٹی سی دکان کو 1920 تک سات دکانوں میں بدل لیا اور مسافرخانے سمیت گھوڑوں، اونٹوں اور یاک کا اصطبل بھی قائم کیا جنھیں لہاسا سے تین ماہ کا طویل سفر کرنے والے تاجر استعمال کیا کرتے تھے۔
اس دور کے عروج پر وسطی ایشیا، انڈیا، چین، یورپ اور امریکہ تک پہنچنے والا سامان اور تاجر یہاں سے گزرتے اور منشی عزیز بھٹ کے مسافر خانے میں رہائش پذیر ہوا کرتے۔
مزمل کہتے ہیں کہ ’مجھے یہ دلچسپ لگا کہ یہ علاقہ اس زمانے میں حقیقی معنوں میں کتنا بین الاقوامی تھا۔‘
لیکن منشی عزیز بھٹ کا کاروبار 1948 میں پاکستان اور انڈیا کی تقسیم کی نظر ہو گیا جب سرحد بٹ گئی اور کارگل کے راستے کٹ گئے۔
منشی عزیز شاہراہ ریشم کے شاید آخری تاجروں میں سے ایک تھے جو ایک ہی سال بعد وفات پا گئے۔ مزمل کہتے ہیں کہ ’جب میرے پردادا نے اس عمارت کو بند کیا تو اس کے بعد نصف صدی تک دروازوں پر تالہ لگا رہا۔‘
اگلے دن مزمل کے ساتھ مشکوہ وادی کی ایک پہاڑی چوٹی پر ہم نے ریت سے بھری ایک ایسی بوری بھی دیکھی جو کارگل جنگ کی باقیات میں سے ایک ہے۔ یہ علاقہ سرحد سے چند کلومیٹر دوری پر واقع ہے اور اسے انڈیا میں خطرناک سمجھا جاتا ہے۔
مزمل حسین کہتے ہیں کہ کارگل سمیت جنگ سے متاثرہ علاقوں میں شناخت کا بحران اور فخر کی کمی ہوتی ہے۔ ’میرے خیال میں سیاحت ایک اچھا راستہ ہے جس سے باہر کے لوگ آپ کی میراث، تاریخ اور ثقافت جان سکتے ہیں اور اس کی مدد سے مقامی فخر بھی زندہ ہو سکتا ہے۔‘
مزمل اور ان کے بھائی تفضل نے 2013 میں ایک سیاحتی ٹریول کمپنی کا آغاز کیا جو کارگل کی ثقافتی اور قدرتی میراث پر توجہ دیتی ہے۔
اگرچہ زیادہ تر سیاح لداخ میں لیہ کے قریب بدھ مت کی خانقاہیں دیکھنے یا پھر برفانی تیندوے کی تلاش میں آتے ہیں، مزمل کو امید ہے کہ اب وہ زیادہ سے زیادہ سیاحوں کو اپنا گھر، یعنی کارگل بھی دکھا پائیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم اپنے خطے سے جڑے جنگ زدہ علاقے کے تاثر کو بدلنا چاہتے ہیں۔ میں اپنے آباؤاجداد کو یاد کرتا ہوں اور ان دلچسپ لوگوں سے جن سے ان کی ملاقات ہوا کرتی ہو گی۔‘
’کارگل آج بھی ایک ایسی جگہ ہے جہاں سے لوگ گزرتے ہیں جیسے ماضی میں ہوتا تھا اور مجھے لگتا ہے کہ میں سیاحوں اور مسافروں کی مدد سے اس میراث کو قائم رکھے ہوئے ہوں۔‘
پرانی شاہراہ ریشم پر چلتے ہوئے مزمل اور میں زنسکر کی بدھ مت کو ماننے والی سلطنت کی جانب چلے جہاں ایک بڑے گلیشئر کے نیچے تین عمر رسیدہ خواتین کو کمر پر سامان باندھے رواں دواں دیکھا جو شاید موسم سرما کی تیاری کر رہی تھیں۔
مزمل نے ان کو گاڑی میں بٹھایا تو ایک نے پوچھا کہ وہ باہر کی دنیا سے کیا خبر لایا ہے۔ جیسے اس کے پڑدادا نے کسی زمانے میں کیا ہو گا، مزمل سیاست، تجارت اور دور افتادہ علاقوں کی باتیں سنانے لگا۔