زندگی کو آسان بنانے والی وہ جدید ایجادات جو دہائیوں پہلے ہی وجود میں آ چکی تھیں

ہم اپنی روز مرہ زندگی میں اکثر اس بات پر غور ہی نہیں کر پاتے کہ ہم ناقابل یقین ٹیکنالوجی کے درمیان گھرے ہوئے ہیں اور زندگی کو آسان بنانے والی ان تمام اشیا کے پیچھے کسی نہ کسی ذہین انسان کی محنت ہے۔
آوازوں کا شور
BBC

ہم اپنی روز مرہ زندگی میں اکثر اس بات پر غور ہی نہیں کر پاتے کہ ہم ناقابل یقین ٹیکنالوجی کے درمیان گھرے ہوئے ہیں اور زندگی کو آسان بنانے والی ان تمام اشیا کے پیچھے کسی نہ کسی ذہین انسان کی محنت ہے۔

ہمارے گھر ہوں یا دفاتر، بیگ ہوں یا گاڑی، یہ سب کی سب اشیا ہماری زندگیوں کو آسان بنانے کے لیے بنائی گئی ہیں۔

اور ہم چاہے اس پر زیادہ دھیان نہ بھی دیں تب بھی حقیقت یہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے پیچھے بہت سے لوگوں کی غیر معمولی ذہانت، قسمت اور ان کو ملنے والے مواقع ہیں جنھوں نے ہماری جدید دنیا کو تشکیل دیا ہے۔

بی بی سی نے ایسی ہی پانچ دریافتوں اور اس کے پیچھے موجود ذہانت پر روشنی ڈالی ہے۔

شور ختم کرنے والے ننھے ہیڈفون کے پیچھے کی کہانی

ذرا سوچیں کہ آپ کسی ٹِک ٹاک کے شوقین فرد کے ساتھ بیٹھے ہیں اور وہ تیز آواز میں ویڈیوز دیکھ رہا ہے۔ ایسے میں آپ اپنے ’نوائز کینسلیشن‘ (باہر سے آنے والی آواز کو کم کرنے والے) ہیڈفونز کے شکر گزار ضرور ہوتے ہوں گے۔

اس سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ کے ہیڈفون کتنے چھوٹے ہیں، اس میں ایک سے زیادہ مائیکرو فون نصب ہوتے ہیں۔

ان میں نصب ایک مائیکروفون باہر سے آںے والی آواز کی رفتار کو جج کرتا ہے اور پھر اس آواز اور ریاضی کے درمیان ایک ریس شروع ہو جاتی ہے۔

آپ کا ہیڈفون باہر سے آنے والی آواز کو ناپتا ہے اور ہیڈفون کے اندر سے نکنے والی آواز بڑھا کر آپ کے کانوں تک پہنچاتا ہے۔

ہیلی کاپٹر اور آواز کے کٹ ہونے کا تعلق
BBC

یہ دراصل ایک غیر معمولی اور حیرت انگیز کام ہے جس میں ریاضی کے بہت سارے فارمولے استعمال ہوتے ہیں۔

اگرچہ یہ ایک حالیہ ٹیکنالوجی لگتی ہے تاہم اس کی ابتدا 70 سال پہلے کوریا کی جنگ سے ہوئی تھی۔

اس جنگ کے دوران امریکہ نے زخمی یا پھنسے ہوئے فوجیوں کو واپس لانے کے لیے ہیلی کاپٹر بھیجے تھے جن سے ریڈیو سگنل کی مدد سے رابطہ کیا گیا تھا۔

لیکن ہیلی کاپٹر کے بلیڈز نے ریڈیو سگنلز میں مداخلت کی اس لیے وہ فوجیوں کو سن نہیں سکے۔

درحقیقت پائلٹ اور ہیلی کاپٹر میں موجود مسافر ایک دوسرے سے زبانی کلامی بات چیت کر سکتے تھے لیکن شور نے اس عمل کو ناممکن بنا دیا تھا، جیسا کہ انجینئر لارنس جے فوگل نے تصدیق کی ہے اور انھوں نے ہی اس مسئلے کے حل کی تلاش کے دوران ان ہیلی کاپٹرز میں متعدد سفر کیے تھے۔

صوتی لہریں (آواز کی لہریں) کس طرح ایک دوسرے کو منسوخ کرتی ہیں اس کا نظریہ 150 سال سے بھی پہلے دریافت کیا گیا تھا ، لیکن جے فوگل پہلے شخص تھے جنھوں نے انھیں 1950 کی دہائی میں عملی طور پر استعمال کیا۔

انھوں نے آواز سے چھٹکارا پانے والا پہلا ہیڈ فون بنایا تھا۔

مجرم کی شناخت اور پاسپورٹ کی چِپ

سائنس کی کرامات
BBC

آج کل کے جدید چپ لگے ہوئے پاسپورٹ ہمیں ہائی ٹیک لگ سکتے ہیں لیکن بائیو میٹرک پاسپورٹ بنانے کی ابتدا دراصل 19ویں صدی کے ایک فرانسیسی پولیس افسر الفونس برٹیلون کی مایوسی سے ہوئی تھی۔

1880 کی دہائی میں پیرس کے ایک پولیس سٹیشن میں کام کرتے ہوئے انھیں محسوس ہوا کہ چونکہ مجرموں کا ریکارڈ محفوظ کرنے کا کوئی مستقل طریقہ نہیں ہے اسی لیے مجرم دوبارہ کسی اور کا روپ دھار کر قانون کے شکنجے سے بچ نکلتے ہیں۔

لیکن الفونس برٹیلون یہ جانتے تھے کہ ایک بالغ جسم کی ساخت وقت کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتی اور اس لیے انھوں نے پولیس کے پاس موجود جرائم پیشہ افراد کی تصاویر کا استعمال کرتے ہوئے جسمانی پیمائش کا ایک نظام وضع کیا، جس سے مجرموں کی تفصیلات کو ریکارڈ کرنے اور دوبارہ مجرموں کا سراغ لگانے کا بہترین طریقہ بن گیا۔

اسی سسٹم کی مدد سے مشہور فرانسیسی سیریل کلر جوزف ویچر کی شناخت میں بھی مدد ملی تھی۔

الفونس کے نظام کو بعد میں فنگر پرنٹس سے تبدیل کر دیا گیا لیکن 1960 کی دہائی میں چہرے کی شناخت اور بایومیٹرک نظام کا آغاز دراصل ان ہی کے ایجاد کردہ نظام کی نئی شکل ہے۔

ایلیویٹرز

تاروں کی ایجادیں
BBC

دنیا بھر میں موجود الیکٹرک سیڑھیوں (ایلیویٹرز) کی نقل و حرکت کا جائزہ لیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ برقی نظام سے چلنے والے یہ زینے ہر تین دن میں پوری دنیا کی آبادی کے برابر لوگوں کو نقل و حرکت میں مدد دیتے ہیں۔

اس کی ایک مثال وہ لفٹس بھی ہیں جو تاروں کے سہارے دو پہاڑوں کے درمیان لٹکی ہوتی ہیں۔ یہاں بعض اوقات حادثات بھی ہوتے ہیں لیکن یہ وہاں کے مقامی لوگوں کی نقل و حمل کے لیے سب سے محفوظ طریقہ ہے۔

ان کے کارگر ہونے کی وجہ ناقابل یقین حد تک مضبوط کیبلز (تاریں) ہیں جو ان لفٹس کو تھامی ہوئی ہوتی ہیں۔

یہ طریقہ کار 19ویں صدی میں کوئلے کی کانوں میں ایک خطرناک مسئلے کو حل کرنے کے لیے سوچا گیا تھا جس نے صنعتی انقلاب کو ہوا دی۔

کان کنوں کو زمین کے اندر گہرائی میں جانا پڑتا تھا اور لفٹوں کو بھنگ کے پودے سے بنی رسی (ہیمپ روپ) یا لوہے کی زنجیروں سے لٹکایا جاتا تھا جو کمزور ہو کر ٹوٹ جاتی تھیں۔

لیکن ہر طریقے کی اپنی خوبیاں ہوتی ہیں جس کی عکاسی جرمن مائن ایڈمنسٹریٹر ولہیم البرٹ نے کرتے ہوئے لوہے کے تاروں کو رسیوں کے انداز میں موڑنا شروع کیا۔

1834 تک انھوں نے ہیمپ روپ سے زیادہ مضبوط اور لوہے کی زنجیروں سے سستی سٹیل کیبل بنالی تھی۔

اس 190 سال پرانی ایجاد نے لفٹوں کو محفوظ بنا دیا۔

لیکن جو ٹیکنالوجی ایلیویٹرز یعنی لفٹس کو اوپر کی طرف لے جانے میں مدد کرتی ہے وہ اس سے بھی پرانی ہے اور اسے 12ویں صدی کے محاصروں میں جنگی ہتھیاروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تک لے جانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا ۔

کاؤنٹر ویٹ مشین گن نما ایک جہازی سائز آلہ تھا، جو گولہ بارود دور تک پھینکنے کے لیے استعمال ہوتا تھا اور اسکی مدد سے حملہ آور اپنے دشمن کے دفاع کو تیزی سے تباہ کرکے اس پر حاوی ہو جاتے تھے۔

یہ وہی طریقہ کار ہے جو آج کے ایلیویٹرز میں کیبن کے وزن کو اوپر کی طرف بآسانی لے جاتا ہے۔

گرد کو سانس میں جانے سے پہلے ہی دبوچ لیا جائے

ویکیوم کلینر کی ایجاد
BBC

آج کے ویکیوم کلینرز میں جدید ٹیکنالوجی پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر جین 5 ڈائزن کے طاقتور ماڈل میں چھوٹی موٹر ہے جو ایک منٹ میں چکر مکمل کر سکتی ہے اور اس کی یہ تیزرفتار فارمولا ون کار سے نو گنا زیادہ تیز ہے۔

یہ انتہائی تیزی سے گھومتے ہوئے مٹی اور گرد کو چوس کر ماحول کو انتہائی ضدی ناپسندیدہ ذرات سے چھٹکارا دیتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ خیال کہ سکشن یا ہوا کھینچنا گرد سے نجات کا بہترین حل ہے ہمیشہ واضح نہیں تھی۔ ابتدائی مشینیں دھول مٹی کو قالین سے اٹھانے اور اسے ایک تھیلے میں جمع کرنے کے لیے ہوا پھینکتی تھیں نہ کہ چوستی تھیں۔

وہ انجینئر ہیوبرٹ سیسل بوتھ ہی تھے جنھوں نے دھول کو فلٹر کے ذریعے چوسنے کے بہتر آپشن پر سوچا اور 1901 میں پہلا ویکیوم کلینر ایجاد کیا۔ تاہم یہ مشین اس وقت بہت مہنگی اور سائز میں دیوقامت تھی۔

لیکن صرف چھ سال بعد جیمز سپینگلرنےقیمت اور سائز دونوں میں کم پورٹیبل ویکیوم کلینرز متعارف کروائے۔ اس سے قبل جیمز کو ایک ناکام مؤجد سمجھا جاتا رہا تھا۔ پیسوں کی ضرورت کے پیش نظر جیمز سپینگلر نے اوہائیو کے ایک ڈپارٹمنٹ سٹور میں ملازمت اختیار کی تھی۔

ان کا کام صفائی کرنا تھا لیکن دمے کے مریض ہونے کی وجہ سے یہ کام ان کے لیے انتہائی تکلیف دہ تھا۔

انھوں نے دھول کو جذب کرنے کے لیے ایک الیکٹرانک آلہ بنانے کا فیصلہ کیا جس کے لیے انھوں نے سلائی مشین کی موٹر، ایک جھاڑو، ایک تکیہ اور ٹائروں والا ایک باکس استعمال کیا۔

اگرچہ انھوں نے پہلا پورٹیبل ویکیوم کلینر بنایا لیکن ان کی ایجاد ایک مقامی کاروباری شخص کے نام سے منسوب ہوئِی جس نے اس ایجاد پر سرمایہ لگایا اور وہ تھے ولیم ہوور۔

سپینگلر کی ایجاد 1920 کی دہائی میں مقبول ہوئی اور اس میں مستقلتبدیلیاں کی جاتی رہیں تاہم وہ اپنی ایجاد کی مقبولیت خود نہ دیکھ پائے۔

تانبے کی تاریں اور ٹچ سکرین کی شروعات

ٹچ سکرین کی ایجاد
BBC

ٹچ سکرینز تیزی سے عام ہو رہی ہیں اور ہم انھیں روز مرہ زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ 2007 میں آئی فون نے ٹچ سکرین کو عوام تک پہنچایا، لیکن یہ ٹیکنالوجی 1960 کی دہائی سے ایئر ٹریفک کنٹرول ٹاورز میں استعمال ہو رہی تھی۔

زمینی ایئر ٹریفک کنٹرولرز کا مشن آسمان میں زندگیوں کی حفاظت کرنا تھا۔ ہر فلائٹ کی شناخت ایک کال سائن سے کی جاتی تھی اور اس وقت کمپیوٹرز کو پرواز کی معلومات پراسیس کرنے کے لیے کوڈ ٹائپ کرنا پڑتا تھا۔

اتنی زیادہ ایئر ٹریفک کے ساتھ ڈیٹا کی درستگی بھی ضروری تھی اور اس میں خطرہ بہت زیادہ تھا۔ ہر پرواز کا کوڈ پانچ سے سات حروف پر مشتمل ہوتا تھا اور کام کے دباؤ کے دوران ٹائپ کرتے وقت غلطیاں کرنا بہت معمول کی بات تھی۔

برطانوی انجینئر ایرک آرتھر جانسن نے کی بورڈ کو ختم کرنے کا ایک منفرد آئیڈیا فنگر سینسیٹو ڈسپلے کی صورت میں پیش کیا۔

وہ اس خیال سے بخوبی واقف تھے کہ ہمارے جسم میں برقی چارج (الیکٹرک فیلڈ) موجود ہوتے ہیں اور جب دو برقی چارج قریب آجائیں تو ایک دوسرے پر اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہتے۔

انھوں نے سوچا کہ کیوں نہ ایک تانبے کی تار کو کھینچ کر پھر اسے کمپیوٹر سے جوڑا جائے؟ اور یہی خیال ان کی انقلابی ایجاد کی بنیاد تھی۔

اگر ایئر ٹریفک کنٹرول سینٹرز میں ایسی سکرینز ہوتیں جن میں تانبے کی تاروں کا ایک سلسلہ ہوتا اور ہر ایک کو علیحدہ فلائٹ کوڈز کے ساتھ ڈیٹیکٹ اور لیبل کیا جا سکتا تو کنٹرولر کو صرف مطلوبہ کوڈ کو چھونا ہوتا، لکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

جانسن نے ایک ایسا نظام بنایا جو نہ صرف لچکدار تھا بلکہ پہلے سے موجود کسی بھی چیز سے زیادہ تیز تھا، سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں غلطی کا امکان بھی بہت کم تھا۔

یہ دنیا کی پہلی ٹچ سکرین تھی، جس نے ہوائی جہاز کے فلائٹ پلانز کو تیزی سے ایڈجسٹ کرنے کی سہولت فراہم کی تاکہ سانحوں سے بچا جا سکے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.