’بابا میں نے چاکلیٹ چوری نہیں کی‘: راولپنڈی میں 13 سالہ گھریلو ملازمہ کی تشدد سے ہلاکت جس کے ملزمان ہسپتال کے عملے کے شک کی وجہ سے پکڑے گئے

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی کی پولیس نے 13 سالہ کمسن گھریلو ملازمہ پر تشدد کرکے اسے ہلاک کرنے کے الزام میں میاں بیوی سمیت تین افراد کو گرفتار کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔
فائل فوٹو
Getty Images
فائل فوٹو

انتباہ: اس رپورٹ میں شامل چند تفصیلات قارئین کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتی ہیں۔

’دونوں نے محض اس بات پر اسے مارا کہ اس نے ان کے بچوں کے لیے لائی گئی چاکلیٹس میں سے ایک چاکلیٹ چوری کی ہے لیکن میری بیٹی نے جواب دیا کہ بابا میں نے چاکلیٹ چوری نہیں کی۔‘

13 سالہ اقرا، جو راولپنڈی میں گزشتہ دو سال سے ایک گھر پر 8 ہزار روپے ماہانہ اجرت پر کام کرتی تھیں، کی دو ہفتے قبل اپنے والد سے ہونے والی اس بات چیت کے بارے میں ان کے والد ثنا اللہ نے بی بی سی کو بتایا۔

ثنا اللہ، جو خود سرگودھا کے رہائشی ہیں، کا کہنا ہے کہ انھوں نے بیٹی کو سمجھایا کہ ’کوئی بات نہیں، معاملہ ٹھیک ہو جائے گا۔‘

یہ ثنا اللہ کا اپنی بیٹی سے آخری رابطہ ثابت ہوا۔ ٹیلی فون پر ہونے والی اس بات چیت کے دو ہفتے بعد ایک دن ثنا اللہ کو راولپنڈی کے ہولی فیملی ہسپتال سے فون موصول ہوا جس میں انھیں بتایا گیا کہ ان کی بیٹی ایمرجنسی میں داخل ہے اور اس کی حالت تشویشناک ہے۔

ثنا اللہ کہتے ہیں کہ وہ یہ بات سن کر اپنے دو رشتہ داروں کے ہمراہ راولپنڈی کے ہولی فیملی ہسپتال پہنچے لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی کیونکہ 13 سالہ اقرا دم توڑ چکی تھیں۔

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی کی پولیس نے 13 سالہ کمسن گھریلو ملازمہ پر تشدد کر کے اسے ہلاک کرنے کے الزام میں میاں بیوی سمیت تین افراد کو گرفتار کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔

اس واقعہ کا مقدمہ مقتولہ کے والد کی مدعیت میں درج کیا گیا جس کے بعد ملزمان کو گزشتہ روز مقامی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں دو مرکزی ملزمان کا چار دن کا جسمانی ریمانڈ دیا گیا جبکہ ایک ملزمہ کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی مکمل چھان بین کر کے اس میں ملوث دیگر افراد کو بھی گرفتار کیا جائے گا۔

پولیس نے ملزمان کے خلاف درج مقدمے میں قتل کی دفعات کا بھی اضافہ کیا جبکہ مقتولہ اقرا کے ورثا نے پوسٹ مارٹم کے بعد ان کی لاش کی تدفین آبائی گاؤں میں کر دی۔

ہسپتال کے عملے کا شک

اس مقدمے کی تفتیشی ٹیم میں شامل پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اقرا کو زخمی حالت میں ایک خاتون ہسپتال چھوڑ کر گئی تھی جو ملزمان کی رشتہ دار ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’جب ہسپتال کے عملے نے بچی کے ورثا کے بارے میں پوچھا تو اس خاتون کا کہنا تھا کہ بچی کا والد فوت ہو چکا ہے جبکہ والدہ عدت میں ہیں اس لیے وہ ہسپتال نہیں آ سکتیں۔‘

پولیس اہلکار نے بتایا کہ ’اس بات پر ہسپتال کے عملے کو شک ہوا کیونکہ بچی کی حالت کو دیکھ کر انھوں نے محسوس کیا کہ اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔‘

ہسپتال کی جانب سے واقعے کی اطلاع پولیس کو ملی تو سب سے پہلے اسی خاتون کو تلاش کیا گیا جو اقرا کو ہسپتال چھوڑ کر گئی تھیں۔

اہلکار کے مطابق ’جب اس خاتون سے پوچھ گچھ کی گئی تو اس نے بتایا کہ اسے کہا گیا تھا کہ اس بچی کو ہسپتال چھوڑ کر آ جائے۔‘

تفتیشی ٹیم میں شامل اہلکار کے مطابق متعلقہ علاقے کے سب ڈویژنل پولیس افسر ملک رفاقت نے بعد میں اقرا کے والد سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔

تفتیشی ٹیم میں شامل اہلکار کے بقول پولیس افسر کی جانب سے اقرا کے والدین کو ایزی پیسہ کے ذریعے راولپنڈی آنے کا کرایہ بھی بھجوایا گیا۔

’آہنی راڈ سے تشدد‘

راولپنڈی پولیس کے حکام کے نوٹس میں جب یہ واقعہ آیا تو پولیس نے ملزمان کو تحویل میں لے لیا اور ان سے اس واقعہ سے متعلق پوچھ گچھ شروع کر دی۔

تفتیشی ٹیم میں شامل پولیس اہلکار کے بقول ’ملزمان نے اعتراف کیا کہ یہ معاملہ ایک چاکلیٹ کی مبینہ چوری سے شروع ہوا تھا۔‘

مقامی پولیس کے مطابق ’ملزمان نے آہنی راڈ سے اقرا کو تشدد کا نشانہ بنایا جس کے بعد تین روز تک گھریلو ٹوٹکوں سے اس کا علاج کرنے کی کوشش کی گئی تاہم حالت خراب ہونے پر اسے ایک خاتون کی مدد سے ہسپتال پہنچا دیا گیا۔‘

اقرا کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے والی ٹیم میں شامل ڈاکٹر فرقان نے بی بی سی کو بتایا کہ پوسٹ مارٹم کی تفصیلی رپورٹ ابھی تک نہیں آئی تاہم ’ابتدائی معائنے میں جسم پر تشدد کے بہت زیادہ نشانات دیکھے گئے۔‘

ان کے مطابق ’ایسا محسوس ہوا کہ کسی آہنی چیز سے اس پر تشدد کیا گیا۔‘

ڈاکٹر فرقان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بچی کے سر پر تین مقامات پر چوٹیں آئیں جن کی وجہ سے اس کا نروس سسٹم بریک ڈاؤن ہو گیا‘۔

انھوں نے بتایا کہ جب بچی کو ہسپتال منتقل کیا گیا تو اس وقت اس کے دونوں پاؤں مڑے ہوئے تھے۔

فائل فوٹو
Getty Images
فائل فوٹو

تشدد اور قرضہ

ثنا اللہ سرگودھا کے رہائشی ہیں۔ ان کے پانچ بچے تھے جن میں اقرا سمیت تین بیٹیاں اور دو بیٹے شامل ہیں۔ وہ منڈی بہاؤالدین میں ایک زمیندار کے پاس کام کرتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پانچ سال قبل انھوں نے زمیندار سے 10 لاکھ روپے قرضہ لیا تھا۔ وہ اس قرضے کے عوض زمیندار کی زمینوں پر کھیتی باڑی کا کام کرتے ہیں۔

مقتولہ اقرا کے والد ثنا اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ دو ہفتے پہلے بیٹی نے فون پر جسمانی تشدد کے بارے میں بتایا۔

ثنا اللہ کے بقول ’بیٹی نے بتایا کہ اتنا زیادہ تشدد کیا گیا کہ اس کے جسم کی ہڈیاں ٹوٹ چکی ہیں۔‘ اقرا نے والد سے کہا کہ اسے اپنے ساتھ گھر لے جائیں۔

ثنا اللہ کے بقول اقرا نے ہچکیاں لیتے ہوئے کہا کہ ’ان دونوں نے محض اس بات پر اسے مارا کہ اس نے ان کے بچوں کی چاکلیٹس میں سے ایک چاکلیٹ چوری کی جبکہ بیٹی نے جواب دیا کہ بابا میں نے چاکلیٹ چوری نہیں کی۔‘

ثنا اللہ کے مطابق ان کے مالی وسائل اتنے نہیں تھے کہ وہ سرگودھا سے اپنی بچی کو دیکھنے کے لیے راولپنڈی آتے۔

انھوں نے بیٹی کو سمجھایا کہ ’کوئی بات نہیں، معاملہ ٹھیک ہو جائے گا۔‘

اس مقدمے کی تفتیشی ٹیم میں شامل ایک پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ مقتولہ اقرا پہلے بھی ملزمان کے گھر پر کام کرتیتھی ’جب ایسی ہی جسمانی تشدد کی شکایات پر بچی کے ورثا اس کو لیکر سر گودھا چلے گئے تھے۔‘

پولیس اہلکار کے مطابق اس واقعے کے ایک سال کے بعد ملزم نے دوبارہ اقرا کے والد ثنا اللہ سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ بچی کو دوبارہ کام کے لیے ان کے گھر پر چھوڑ دیں کیونکہ ’بچوں کا اقرا کے ساتھ دل لگا ہوا تھا۔‘

پولیس اہلکار کے مطابق ’ثنا اللہ 2023 میں اپنی بیٹی کو دوبارہ ملزمان کے گھر پر چھوڑ آئے اور ان سے 8 ہزار روپے کے حساب سے ایک سال کی تنخواہ ایڈوانس میں لی۔‘

مقتولہ کے والد کا کہنا ہے کہ وہ تین ماہ قبل اپنی بیٹی سے ملنے راولپنڈی آئے تھے لیکن ’اس وقت اس نے کسی بھی قسم کے تشدد کی بات نہیں کی تھی۔‘ انھوں نے کہا کہ ملزمان نے انھیں تین ماہ کی تنخواہ ایڈوانس میں دے دی تھی۔

’ایسے مقدمات ریاست کی مدعیت میں درج ہوں‘

واضح رہے کہ گھریلو تشدد کا اس نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ کم عمر ملازمین کے حوالے سے قوانین کی موجودگی کے باوجود یہ رجحان ملک بھر میں پایا جاتا ہے۔

فوجداری مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل بشارت اللہ خان کا کہنا ہے کہ ’ایسے واقعات کا مقدمہ سرکار کی مدعیت میں درج ہونا چاہیے تاکہ کوئی سمجھوتہ یا راضی نامہ نہ کر سکے اور ذمہ داروں کو سزا دلوائی جا سکے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ مقدمہ بھی مقتولہ کے والد کی مدعیت میں درج کیا گیا، جو ایک غریب آدمی ہیں۔‘

ان کے مطابق ’اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ مدعی مقدمہ پیسوں کے عوض ملزمان کو معاف کر دے۔‘

اس مقدمے کے مدعی ثنا اللہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ملزمان کے رشتہ دار ان سے رابطہ کر رہے ہیں اور ان کے بقول ’وہ اس معاملے کو ختم کرنے کے لیے ہر مطالبے کو پورا کرنے کو تیار ہیں۔‘

دوسری جانب پنجاب چائلڈ پروٹیکشن بیورو بھی اس مقدمے کی تفتیش پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ ملزمان کو سزا دلوانے کے لیے تمام قانونی آپشن استعمال کریں گے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.