فوج اور پنجاب حکومت چولستان کی بنجر زمینوں کو قابل کاشت کیوں بنانا چاہتے ہیں؟

جہاں پاکستانی فوج اور حکومت گرین پاکستان منصوبے سے متعلق بلند و بانگ دعوے کر رہے ہیں وہیں ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اس منصوبے سے مقامی کسانوں کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور جدید فارمنگ کے ذریعے چولستان کے صحرا کو نخلستان میں بدلنے میں کیا چیلنجز ہو سکتے ہیں؟

صوبہ پنجاب کی حکومت نے جنوب کے صحرائے علاقے چولستان کی غیر آباد اور بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنانے کا ایک منصوبہ شروع کیا ہے۔

14 فروری کو پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز اور پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے چولستان میں کنڈائی اور شاپو کے علاقوں میں ان منصوبوں کا افتتاح کیا۔

سرکاری بیان کے مطابق اس ’گرین پاکستان‘ منصوبے کے تحت گرین مال اینڈ سروس کمپنی، سمارٹ ایگری فارم اور ایگری کلچرل ریسرچ اینڈ فیسلیٹیشن سینٹر قائم کیے گئے ہیں جہاں کسانوں کو تمام زرعی سہولتیں ایک چھت تلے میسر ہوں گی۔

پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ ان منصوبوں کے تحت زراعت کو جدید بنانے کے ساتھ ساتھ کسانوں کو تمام زرعی سہولیات ایک چھت تلے فراہم کی جائیں گی، کسانوں کو ڈرونز سمیت زرعی مشینری رعایتی کرائے پر دستیاب ہو گی۔

صوبائی حکومت کے مطابق گرین ایگری مال اینڈ سروسز کمپنی کسانوں کو معیاری بیج، کھاد، کیڑے مار ادویات رعایتی قیمت پر فراہم کرے گی اور ایک ہی چھت تلے اس کمپنی کے ذریعے کسانوں کو زراعت سے متعلق تمام سہولت میسر ہوں گی۔

سمارٹ ایگر فارم کا منصوبہ کے تحت پانچہزار ایکڑ پر مشتمل جدید زرعی فارم کا بھی آغاز کیا گیا ہے۔ اس فارم میں جدید زرعی طریقے اور آبپاشی کا جدید نظام استعمال کیا جائے گا، پانی کے کم استعمال اور کم لاگت سے زیادہ پیداوار حاصل ہو گی۔

زرعی تحقیق اور سہولت مرکز میں زراعت کے شعبے سے متعلق تمام اشیا اور سہولتیں دستیاب ہوں گی جیسا کہ زمین کی جانچ سمیت تحقیق سے متعلق لیبارٹری کی تمام خدمات فراہم کی جائیں گی، یہ ادارہ زرعی تعلیم اور تحقیق کرنے والے ملک کے تمام اداروں کے ساتھ رابطے میں رہے گا۔

اس موقع پر وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چولستان اور پنجاب میں جدید زراعت کے انقلاب کی بنیاد رکھ دی گئی ہے، ان منصوبوں کا آغاز پنجاب کے کسانوں کی ترقی کے ایک نئے سفر کا آغاز ہے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ پنجاب پاکستان کا زرعی پاور ہاؤس ہے، جدید زراعت کے طریقے صوبے کے کسانوں کو فائدہ پہنچائیں گے اور پنجاب حکومت کے گرین کارپوریٹ منصوبے کے تحت حاصل ہونے والی کامیابیاں حوصلہ افزا اور ترقی کی نوید ہیں۔

یاد رہے کہ جون 2023 میں حکومت پاکستان غیر ملکی، بالخصوص خلیجی ممالک کے سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے کے لیے سپیشل انویسٹمینٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کا قیام عمل میں لائی تھی اور اس کے ایک منصوبے کے تحت کارپوریٹ فارمنگ کے 'گرین پاکستان منصوبے' کا آغاز کیا گیا تھا۔

اس کے تحت وزیر اعظم شہباز شریف نے سات جولائی 2023 کو 'لینڈ انفارمیشن اینڈ مینیجمینٹ سسٹم سینٹر آف ایکسلینس' کا افتتاح کیا تھا جس کا مقصد زراعت کے شعبے کو فروغ دینا اور اسے جدید خطوط پر استوار کرنا ہے۔

لینڈ انفارمیشن اینڈ میجنمینٹ سسٹم کے سربراہ میجر جنرل شاہد نذیر نے اس وقتصحافیوں کو بتایا تھا 'سبز پاکستان' منصوبے کا مقصد 70 لاکھ ہیکٹرز سے زائد غیر کاشت شدہ اراضی کو استعمال کرتے ہوئے جدید زرعی فارمنگ کو فروغ دینا ہے۔

مگر جہاں ایک جانب فوج اور صوبائی حکومت اس منصوبے سے متعلق بلند و بانگ دعوے کر رہی ہیں وہیں ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اس منصوبے سے مقامی کسانوں کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور جدید فارمنگ کے ذریعے چولستان کے صحرا کو نخلستان میں بدلنے میں کیا چیلنجز ہو سکتے ہیں؟

کیا واقعی اس سے کسانوں کو فائدہ پہنچے گا؟

پنجاب حکومت کے شروع کردہ یہ منصوبے کارپوریٹ فارمنگ کے تحت ہے جس کا مطلب ہے کہ بڑی بڑی ملکی و غیر ملکی زرعی کمپنیاں حکومت سے زمین لیز پر لے کر یہاں کاشت کاری کریں گی اور یہاں سے فصل اور پیسہ کما کر اپنے پاس رکھیں گی ایسے میں ایک عام کسان کو اس سب میں کیا فائدہ ہو گا؟

پاکستان کسان اتحاد کے صدر خالد کھوکھر نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گرین پاکستان کے تحت شروع کردہ منصوبے اس وقت پاکستان کی اہم ترین ضرورت ہیں۔ 'ہم ہر سال آبادی میں اضافہ کر رہے ہیں مگر زرعی شعبے میں ترقی نہ ہونے کے برابر ہے۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان ہر سال 10 سے 12 ارب ڈالرز کی زرعی اجناس باہر سے درآمد کرتا رہا ہے۔اس لیے ملک کے غیر آباد رقبے کو قابل کاشت بنانا، جدید زرعی تکنیک اور زرعی مشینری کو اپنانا اور تحقیق کی بنیاد پر کاشتکاروں کو معلومات فراہم کرنا بہت ضروری ہو چکا ہے۔'

خالد کھوکھر کا کہنا تھا کہ ہم آج تک 19ویں صدی کا طریقہ زراعت اپنائے ہوئے ہیں اور ان ان منصوبوں کے ذریعے ہم 21 ویں صدی کی زراعت کریں گے۔

جیسا حکومت چولستان کے صحرائی علاقے کو قابل کاشت بنائے جانے کا دعویٰ کر رہی ہیں تو کیا زمینی حقائق بھی ایسے ہی ہیں کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ان منصوبوں کے افتتاح کے موقع پر میں خود بھی وہاں موجود تھا اور مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ دو ڈھائی لاکھ ایکٹر پر گندم کاشت کی گئی تھی اور سارے علاقے میں ہریالی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ بنجر رقبے کو جس طرح سے آباد کیا گیا وہ بہت خوش آئند تھا اور جس طرح سے جدید طریقہ آبپاشی کو اپنایا گیا تھا جس میں پیوٹ سسٹم یعنی پھوار کے ذریعے فصلوں کو پانی دینا، ڈرپنگ اریگیشن سسٹم اور سپینل اریگیشن سسٹم شامل ہے جس سے پانی کی 80 فیصد بچت ہوتی ہے۔

خالد کھوکھر سے جب ایک عام کسان پر اس کے اثرات کے متعلق پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ بطور صدر کسان اتحاد میرا کام ہی ایک عام کسان کے فائدے کو مدنظر رکھنا ہے۔

ان کا کہنا تھا ان منصوبوں کے ذریعے پاکستان بھر کے کسانوں اور بالخصوص چولستان کے کسانوں کے لیے ایک نیشنل ریگولیٹری سیڈ اتھارٹی بنا دی گئی ہے جس کا کام کاشتکاروں کو معیاری بیچ کی فراہمی یقینی بنانا ہے۔

اسی طرح ایگر مال کو ملک بھر میں پھیلایا جا رہا ہے جس سے کسان ایک ہی جگہ سے کنٹرول ریٹ پر معیاری کھاد، کیڑے مار ادویات وغیرہ دستیاب ہوں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایگری ماڈل فارمنگ کا پاکستان کے کاشتکار کو یہ فائدہ ہو گا کہ اس میں استعمال ہونے والے طریقے مقامی کاشتکار اپنائیں گے اور اس سے کم سے کم لاگت میں زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کر سکیں گے۔

خالد کھوکھر کہتے ہیں کہ چولستان میں مختلف کمپنیوں کے آ کر غیر آباد رقبے کو آباد کرنے سے مقامی لوگوں کو نہ صرفذریعہ روزگار ملے گا بلکہ ان کا معیار زندگی بھی بہتر ہو گا۔ مقامی کسان بھی جدید زراعت کو سیکھے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ لینڈ انفارمیشن اینڈ میجنمینٹ سسٹمجس کا کام کاشتکار کو اس کی زمین کی تمام معلومات فراہم کرنا ہے۔ لاہور میں بیٹھا ایک کسان جس کا رقبہ رحیم یار خان میں ہے وہ اس نظام کے ذریعے اپنی زمین کی زرخیزی، موسمی حالات، سوئل ٹیسٹ کا تجزیہ، پوٹاشیئم ، فاسفورس کی مقدار کا علم حاصل کر سکتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ حکومت پنجاب ہر تحصیل کی سطح پر تمام زرعی مشینوں پر مبنی ایک فلیٹ کھڑا کیا جائے گا جسے کاشتکار ایک ایپ کے ذریعے کرائے پر حاصل کر سکے گی۔

کسان
Getty Images

اس سے زرعی معیشت میں کیا بہتری آئے گی؟

اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے اکنامک سیکورٹی کے چیئرپرسن اور ماحولیاتی و زرعی معیشت کے ماہر ڈاکٹر انیل سلمان نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر گذشتہ دس برسوں کا تجزیہ کیا جائے تو پاکستان میں زراعت کے شعبے کا ملکی جی ڈی پی میں حصہ 22 فیصد رہی ہے۔ جبکہ اگر سنہ 1999، 2000 میں دیکھیں تو اس وقت اس کا جی ڈی پی میں حصہ 45 فیصد کے قریب تھا۔ یعنی ہماری زراعت کم ہوئی ہے۔

ڈاکٹر انیل کا کہنا تھا کہ اگر ہم اپنے امپورٹ بلز دیکھیں تو ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان بیرون دنیا سے زرعی اجناس درآمد کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ان دو عناصر کو مدنظر رکھیں تو یہ منصوبہ بہت اچھا ہے مگر یہ ایک طویل مدتی یعنی دس سال کا منصوبہ ہے جس سے پاکستان کی معیشت کو سہارا ملے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ اس منصوبے کی ایک اور اہم معاشی اہمیت یہ ہے کہ اس میں صحرائی یا بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنایا جا رہا ہے۔ اس کا ایک اور ماحولیاتی مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ آپ صحرائی یا بنجر علاقوں میں اب فصلیں کاشت کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ کارپوریٹ کمپنیوں کے ان بنجر علاقوں میں آنے سے مقامی معیشت میں تیزی آئے گی، مقامی افراد کو ان زمینوں پر روزگار ملے گا، اس کے علاوہ مقامی سطح پر استطاعت رکھنے والے کسان مل کر کارپورٹ فارمنگ نہ صرف سیکھ سکیں گے بلکہ اس سے بہتر زرعی آمدن بھی حاصل کر سکیں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس سے ملک کی زراعت بڑھے گی اور اب تک پاکستان کے ٹیکس نظام میں زراعت سے حاصل ہونے والے ٹیکس کا حصہ صرف دو فیصد ہے اور جب زراعت میں تیزی آئے گی، زیادہ پیداواری فصل، بیرون ملک سے منگوائی جانے والی مشینری، کارپورٹ کمپنیوں کی سرمایہ کاری اور رجسٹریشن سے ملکی معیشت میں اس شعبہ سے اکٹھا ہونے والے ٹیکس میں اضافہ ہو گا۔

ڈاکٹر انیل کے مطابق صحراؤں کو قابل کاشت کرنے کا منصوبہ نیا نہیں ہے اس سے قبل بھی سعودی عرب میں البائدہ پراجیکٹ تھا، دوسرا افریقہ میں صحارا فارسٹ پراجیکٹ تھا اور مصر میں سیکم پراجیکٹ کے تحت صحرا میں بائیو ڈائنامک فارمز بنائے گئے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ گرین پاکستان منصوبے کے تناظر میں یہ اقدامات اس لیے بھی مثبت ہے کیونکہ اس میں جدید طریقہ کار اپنانے سے پانی کی بچت ہو گی۔

ڈاکٹر انیل کہتے ہیں کہ جب ملٹی نیشنل کمپنیاں کارپورٹ فارمنگ میں آئیں گی تو بہت سے مقامی کسان یا کمپنیوں کا کلچر تبدیل ہو جائے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ مقامی سطح پر کسانوں اور زمینداروں، وڈیروں کی جدید طریقہ زراعت کے متعلق آگہی بہتر ہو گی۔ وہ سرمایہ کاری کریں گے تو ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہو گا۔

اگلے طویل مدتی تناظر میں بات کریں تو زرعی برآمدات بڑھیں گی اور درآمدات میں کمی آئے گی۔

پانی
Getty Images

کون سے عوامل اس منصوبے کو ناکام بنا سکتے ہیں؟

ڈاکٹر انیل سلمان جہاں گرین پاکستان منصوبے کے تحت پنجاب حکومت کی جانب سے شروع کیے گئے اقدامات کو ملکی زرعی شعبے کے لیے انتہائی اہم اور مثبت قرار دیتے ہیں وہیں وہ سمجھتے ہیں کہ کچھ عوامل ایسے بھی ہے جو چولستان کے چھ ملین ایکڑ رقبے کو قابل کاشت بنانے کے پورے منصوبے پر پانی پھیر سکتے ہیں۔

جی ہاں، ڈاکٹر انیل کے خیال میں اس منصوبے کی کامیابی اور ناکامی میں سب سے بڑا عمل دخل خارجی و داخلی سطح پر پانی کی تقسیم پر تنازعات کو لے کر ہو سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم خارجی سطح پر بات کریں تو پاکستان اور انڈیا کے درمیان پانی کی تقسیم کو لے کر ہمیشہ سے تنازع رہا ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان اس حوالے سے سندھ طاس معاہدہ موجود ہے لیکن دونوں ملک ایک دوسرے پر اس معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے گرین پاکستان منصوبے کے تحت ملک کے مختلف علاقوں کی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے حال ہی میں چھ نئی نہروں کی تعمیر کی منظوری دی ہے۔ جن میں چولستان کینال بھی شامل ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ اس کینال میں پانی دریائے ستلج سے لایا جائے گا اور سندھ طاس معاہدے کے تحت دریائے ستلج کے پانی کو انڈیا کنٹرول کرتا ہے۔ ایسے میں اگر کل کو انڈیا پانی بند کر دے تو پاکستان یہ سارا منصوبہ بیٹھ جائے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر داخلی سطح پر مسائل کی بات کی جائے تو سندھ اور پنجاب بھی پانی کی تقسیم پر لڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ یہ تنازعہ نیا نہیں ہے مگر اس میں شدت گرین پاکستان منصوبے کے بعد سے آئی ہے۔

واضح رہے کہ سندھ حکومت پنجاب پر یہ الزام لگاتی رہی ہے کہ پنجاب سندھ کے حصہ سے کم پانی اس کو فراہم کرتا ہے۔

ڈاکٹر انیل کے مطابق اس وقت سندھ میں پانی کی قلت 20 فیصد ہے جبکہ پنجاب میں یہ 14 فیصد ہے۔ وہ کہتے ہیں ایسے میں اگر چولستان میں پانی کسی اور ذریعے سے فراہم کیا جاتا ہے تو دونوں صوبوں کے درمیان تحفظات اور خلیج بڑھ سکتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ تیسرا چیلنج یہ ہو سکتا ہے کہ کارپوریٹ فارمنگ سے چھوٹے کسان کو خطرہ ہو سکتا ہے، وہ انھیں مزید دیوار کے ساتھ نہ لگا دے۔ تاہم اگر حکومت کا ماڈل و میکنزم شفاف اور مضبوط ہو تو اس مسئلے سے بچا جا سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا شفاف نظام مرتب دیا جائے اور چولستان میں فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے پانی کا ایسا نظام مرتب کرنا چاہیے جو ہماری ایکوافائر ڈیپلیشن یعنی صحرا میں فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے پانی کا اخراج اس کے اکٹھا کرنا زیادہ نہ ہو ورنہ سندھ اور بلوچستان کو زرعی اعتبار سے سخت مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.