نائب وزیر اعظم اور وفاقی وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معاشی بہتری کا دنیا اعتراف کر رہی ہے، پاکستان کی معیشت درست سمت پر گامزن ہے، ملک میں مہنگائی کی شرح میں نمایاں کمی ہوئی ہے، پالیسی ریٹ میں کمی سے معاشی استحکام پیدا ہو رہا ہے، پالیسی ریٹ 22 فیصد سے کم ہو کر 12 فیصد پر آ چکا ہے۔
نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ 2017 میں میری بات مانی گئی ہوتی تو پاکستان 5 سال کشکول لے کر نہ پھرتا اور پاکستان کو دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرہ نہ ہوتا، پاکستان میں اتنی لچک موجود ہے لیکن ہم خود اپنے دشمن بن جاتے ہیں۔
نیویارک میں اوورسیز پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے کہا کہ جو ملک 2017 میں 3 سال بعد دنیا کی 24 ویں معیشت بن گیا تھا وہ دیوالیہ ہونے جارہا تھا، ہم نے بے پناہ سیاسی سرمایہ گنوایا ہے مگر پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت درست سمت میں گامزن ہے، ملک میں مہنگائی کی شرح میں نمایاں کمی ہوئی، پالیسی ریٹ میں کمی سے معاشی استحکام پیدا ہورہا ہے اور معاشی اشاریے بہتر ہورہے ہیں۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ 2013 الیکشن سے پہلے پاکستان کو غیرمستحکم میکر اکنامک ملک قرار دیا گیا، الیکشن جیت کر آنے والی حکومت کو 6 سے 7 ماہ میں ڈیفالٹ ڈکلیئر کرنا تھا، کہا جارہا تھا پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں 12 سے 15 سال لگیں گے مگر الیکشن جیتنے کے بعد 3 سال کےقلیل عرصے میں میکرو اکنامک اشاریے ٹھیک ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت آسمان کو چھوتی مہنگائی 3.6 فیصد پر آگئی، شرح سود دو ہندسوں سے 5 فیصد پر آگئی، بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم ہوگئی، دہشت گردی سے نجات کیلئے بھاری رقم خرچ کی گئی، ملک میں آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کیے گئے، ہم نے کراچی کی روشنیوں کو بھی بحال کیا، پاکستان نے پہلی مرتبہ 3 سال میں آئی ایم ایف کا پروگرام مکمل کیا، زرمبادلہ کے ذخائر بلند ترین سطح پر چلے گئے۔
نائب وزیراعظم نے مزید کہا کہ اس وقت آئی ایم ایف سمیت تمام مالیاتی اداروں کو سربراہان پاکستان آئے اور وزیراعظم نواز شریف سے ملاقاتوں کے بعد میرے ساتھ بیٹھ کر پاکستان کی تعریفوں کے پُل باندھتے تھے، وہ کہتے تھے کہ جس طرح آپ کا ملک اڑان بھررہا ہے، یہ جی 20 ملکوں میں شامل ہوجائے گا اور 2017 تک ہم 24 ویں معیشت بن گئے تھے۔
انہوں نے کہا پاکستان نے 2030 تک جی 20 ممالک میں شامل ہوجانا تھا لیکن پھر سازشیں شروع ہوئیں اور 2018 میں حکومت بھی بدلی اور 22-2020 تک ہم 47 ویں معیشت بن گئے اور ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ گئے۔
اسحٰق ڈار نے مزید کہا کہ 2022 میں آئینی طریقے سے تحریک عدم اعتماد لانے کے بعد جب پی ڈی ایم کی حکومت بنی، وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے بہت مشکل صورتحال تھی، ملک کا دیوالیہ ہونا نوشتہ دیوار تھا، لیکن ہم نے فیصلہ کیا سیاست داؤ پر لگتی ہے تو لگ جائے لیکن بچ جائے اور ہم نے اپنے اپنا کام کردکھایا۔
انہوں نے کہا کہ اگر 2017 میں میری بات مانی گئی ہوتی تو پاکستان 5 سال کشکول لے کر نہ پھرتا اور پاکستان کو دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرہ نہ ہوتا، پاکستان میں اتنی لچک موجود ہے لیکن ہم خود اپنے دشمن بن جاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ڈی ایم حکومت نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا اور پھر 9 اگست کو نگراں حکومت آئی، جو معیشت کا حال تھا وہ آپ کے سامنے ہے، مہنگائی 38 فیصد پر پہنچ گئی، شرح سود 22 فیصد پر پہنچ گئی، بینک 24 فیصد پر قرض دے رہے تھے تو اس میں کون سا کاروبار چل سکتا تھا، جن کے پاس پیسے تھے انہوں نے کہا کہ بینک میں پیسے رکھ کر کمائیں، کام کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ گزشتہ سال فروری میں ہمیں دوبارہ موقع ملا اور الحمدللہ بڑی کوششوں کے بعد ایک سال میں ملک بھیانک معاشی صورتحال سے نکل چکا ہے اور مستحکم ہوگیا اور اب ترقی کا سفر شروع ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یکم جولائی تا یکم جنوری 7 ماہ کی مہنگائی کی شرح 6.4 فیصد ہے، لیکن جنوری کی مہنگائی کی شرح 2.41 فیصد تھی، شرح سود 22 فیصد سے 12 فیصد پر آچکی ہے، زرمبادلہ اور برآمدات میں اضافہ ہوا ہے، عالمی ادارے دوبارہ پاکستان کو تعریف سے نواز رہے ہیں، گڑھے میں گر کر نکلنا آسان نہیں ہوتا۔
نائب وزیر اعظم نے کہا کہ معاشی بدحالی کے بعد دہشت گردی وہ دوسری شے ہے جو ہمیں ورثے میں ملی ہے، انہوں نے کہاکہ 2014 میں بجٹ منظور ہوچکا تھا، اس کے بعد نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں مجھے بطور وزیر خزانہ بلاکر کہا گیا کہ کیا آپ سالانہ 100 ارب ڈالر دے سکتے ہیں، تو میں نے کہا کہ ہمیں اس لعنت کو دور کرنا ہے اور آنے والی نسلوں کو محفوظ پاکستان دینا ہے، میں نے وعدہ کیا اور 2014 سے 2017 تک وہ رقم فراہم کی، درجنوں دہشت گرد حملے ختم ہوگئے اور پاکستان محفوظ ملک بن گیاتھا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ اب ہم دوبارہ آئے ہیں تو 2 سال میں دہشتگردی میں تیزی آئی ہے، اور اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں، کیونکہ پالیسی بناتے وقت ہم نہیں سوچتے کہ ملک پر اس کا کیا اثر ہوگا، ان چیزوں کو سیاست سے پاک ہونا چاہیے، ہمارے بعد آنے والی حکومت اگر معیشت کو 24 ویں سے 21 یا 20 ویں نمبر پر لے آتی تو ہم ان کی تعریف کرتے مگر انہوں نے پاکستان کو 47 ویں معیشت بنادیا جس پر میں ان کی تعریف نہیں کرسکتا۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی ختم ہوگئی تھی مگر اب دوبارہ سر اٹھاچکی ہے، ہر ہفتے کئی فوجی جوانوں کے جنازے میں پڑھتا ہوں اور کئی جنازوں میں وزیراعظم خود جاتے ہیں، یہ کیوں ہوا؟ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے، آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد میں بڑے پیمانے پر دہشت گردوں کی ہلاکت اور فوجی جوانوں کی شہادت کے بعد دہشت گردوں کی بڑی تعداد نے ہمسایہ ملک میں پناہ لے لی اور ہمارے بعد والی حکومت نے سمجھوتا کرکے ٹی ٹی پی کے 30 سے 40 ہزار لوگ واپس آگئے اور سنگین جرائم پر جیلوں میں قید 100 سے زائد مجرموں کو ہم نے چھوڑ دیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کیا کرتے ہیں اور اس کے کیا نتائج آتے ہیں، حکومت پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے، 35 سال میں کئی مرتبہ ہمیں حکومت کرنے کا موقع ملا اور کئی مرتبہ کسی اور کو حکومت مل گئی، مگر مقصد صرف پاکستان ہونا چاہیے۔