’امید ہے فلموں میں بھی کام کرنے کا موقع ملے گا‘: ’یوٹیوب گاؤں‘ جہاں سینکڑوں لوگ ویڈیوز بنا کر پیسے کما رہے ہیں

انڈیا کی ریاست چھتیس گڑھ کے گاؤں تُلسی کی کُل آبادی چار ہزار افراد پر مشتمل ہے جن میں سے تقریباً 1000 لوگ کسی نہ کسی طرح سے یوٹیوب ویڈیوز بنانے میں مصروف رہتے ہیں۔

یوٹیوب دُنیا بھر میں پیسے کمانے کا ایک بڑا ذریعہ بن کر سامنے آیا ہے اور اب نہ صرف شہروں بلکہ دور دراز دیہاتوں میں بھی لوگ ویڈیوز بنا کر اپنے گھر چلا رہے ہیں اور نام کما رہے ہیں۔

ایسی ہی مثال انڈین ریاست چھتیس گڑھ کا ایک گاؤں تُلسی بھی ہے جہاں یوٹیوب نے لوگوں کی معاشی حالت کو سُدھارنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔

گذشتہ برس ستمبر کی ایک صبح کو درجنوں لوگ کھیتوں میں کام کر رہے تھے اور ایسے میں 32 سالہ جے ورما نے وہاں موجود خواتین کو اپنی نئی ویڈیو کا حصہ بننے کی دعوت دی۔ خواتین فوراً اپنے ساڑھیاں درست کر کے جے ورما کے گرد جمع ہو گئیں۔

جے ورما نے ایک بزرگ خاتون کو ایک پلاسٹک کی کُرسی پر بٹھایا، دوسری خاتون کو ان کے پاؤں چھونے کو کہا اور تیسری خاتون کو کہا کہ وہ بزرگ خاتون کو پینے کا پانی دیں۔

یوٹیوبر وجے ورما دراصل یہاں ایک تہوار کی تصویر کشی کرنے کی کوشش کر رہے تھے جس دیکھ کر نہ صرف انڈیا بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بیٹھے لوگ بھی لُطف اندوز ہو سکیں گے۔

وجے ورما کی ویڈیو کا حصہ بننے والی خواتین کو ایسی ویڈیوز بنانے کا تجربہ ہے اس لیے انھیں اس ویڈیو میں کام کرنے پر بھی خوشی ہوئی۔

ان لوگوں سے چند میٹر دور دیگر لوگ بھی یوٹیوب کے لیے اپنی ویڈیوز بنانے میں مصروف ہیں۔

ایک شخص موبائل فون پکڑ کے ویڈیو بنا رہا تھا اور دوسری طرف 26 سالہ راجیش دیوار ہِپ ہاپ میوزک پر ڈانس کرنے میں مصروف تھے۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ ایک پیشہ ور فنکار ہوں کیونکہ ان کا تھرکتا ہوا بدن اور چہرے کے تاثرات آپس میں میل کھا رہے تھے۔

چھتیس گڑھ کا گاؤں تُلسی انڈیا کے دیگر دیہاتوں کی طرح ہی ہے۔ یہاں چھوٹے چھوٹے مکانات ہیں اور جزوی طور پر ہموار سڑکیں ہیں۔ یہاں گھروں کے اوپر ٹنکیاں ہیں جہاں سے پورا گاؤں نظر آتا ہے۔

لیکن تُلسی انڈیا کے باقی دیہاتوں سے اس لیے مختلف ہے کیونکہ اسے 'یوٹیوب گاؤں' کہتے ہیں۔

اس گاؤں کی کُل آبادی چار ہزار افراد پر مشتمل ہے جن میں سے تقریباً 1000 لوگ کسی نہ کسی طرح سے یوٹیوب ویڈیوز بنانے میں مصروف رہتے ہیں۔

جب آپ اس گاؤں میں گھومتے ہیں تو آپ کو شاید ہی کوئی ایسا شخص دکھائی دے گا جو کہ کسی ویڈیو میں کبھی نہ کبھی نظر نہ آیا ہو۔

یہاں لوگ یوٹیوب ویڈیوز بنا کر پیسے کیسے کما رہے ہیں؟

اس گاؤں کے رہائشیوں کا کہنا تھا کہ یوٹیوب ویڈیوز بنا کر جو پیسہ وہ کما رہے ہیں اس نے ان کی مقامی معیشت کو بدل کر رکھ دیا ہے۔

نہ صرف وہ یوٹیوب سے مالی فائدہ حاصل کر رہے ہیں بلکہ اس کے سبب ان کی معاشرتی حیثیت پر بھی فرق پڑا ہے۔

تُلسی گاؤں میں یوٹیوب چینلز کے ذریعے پیسے کمانے والے افراد میں بڑی تعداد خواتین کی ہے۔ اس سے قبل خواتین کے پاس دیہی ماحول میں روزگار کمانے کے زیادہ مواقع نہیں تھے۔

لیکن اب ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ نے ان کی زندگیاں اتنی بدل دی ہیں کہ یہ خواتین اب درختوں کے نیچے بیٹھ کر اکثر ویڈیو بنانے کے آئیڈیاز پر بات کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

رواں مہینے یوٹیوب کے قیام کو 20 برس مکمل ہو چکے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً دو ارب 50 کروڑ لوگ اس ویڈیو پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہیں۔

تُلسی گاؤں کے رہائشی نیترام یادیو کہتے ہیں کہ 'یوٹیوب بچوں کو غلط عادات اور جرائم سے بچا رہا ہے۔ گاؤں کے رہائشی اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ انھوں نے ویڈیوز بنا کر اپنی زندگیاں بدل لی ہیں۔'

سوشل میڈیا نے لوگوں کی زندگیاں کیسے بدلیں؟

وجے ورما اور ان کے دوست گیانیندرا شُکلا نے 'بیئنگ چھتیس گڑھیا' نامی یوٹیوب چینل 2018 میں بنایا تھا اور اس چینل نے اس گاؤں کی تقدیر ہی بدل دی۔

وجے ورما کہتے ہیں کہ 'ہم اپنی روز مرہ کی زندگیوں سے خوش نہیں تھے اور کچھ ایسا کرنا چاہتے تھے جس سے ہماری تخلیقی صلاحیتیں منظرِ عام پر آئیں۔'

ان کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں دائیں بازو کی جماعت بجرنگ دل کے کارکنان کو ویلنٹائنز ڈے پر ایک نوجوان جوڑے کو ہراساں کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ اس ویڈیو میں نہ صرف حقائق دکھائے گئے تھے بلکہ وائس اوور میں طنز و مزاح کا استعمال بھی کیا گیا تھا۔

جے ورما اس ویڈیو کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'وہ ایک مزاحیہ ویڈیو تھی لیکن اس میں ایک پیغام بھی چھپا ہوا تھا۔'

اس ویڈیو کے یوٹیوب پر اپلوڈ ہونے کے بعد جے ورما اور گیانیندرا کے چینل پر تقریباً ایک لاکھ 25 ہزار فالورز آئے۔ ان کا خاندان اس بات پر ناراض تھا کہ وہسوشل میڈیا پر اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں لیکن جب ایک بار پیسے آنا شروع ہوئے تو ان کی ناراضی خوشی میں تبدیل ہوگئی۔

اب وجے ورمااور گیانیندرا اپنی ملازمتیں چھوڑ چکے ہیں اور صرف یوٹیوب کے ذریعے پیسے کما رہے ہیں۔

ان دونوں نے ایک مثال قائم کی جس پر گاؤں کے دیگر لوگوں نے بھی عمل کیا۔

گیانیندرا کہتے ہیں کہ وہ اپنی ویڈیو میں کام کرنے والے تمام لوگوں کو پیسے دیتے ہیں اور انھیں سکرپٹ لکھنے اور ویڈیو ایڈٹ کرنے کی تربیت بھی دیتے ہیں۔

پھر ایک وقت ایسا آیا کہ مقامی انتظامیہ کو یہاں کے لوگوں کے ٹیلنٹ کا اندازہ ہوگیا اور انھوں نے تُلسی گاؤں میں 2023 میں ایک جدید سٹوڈیو بھی بنا دیا۔

علاقے کے سابق کلیکٹر سرویشور بھورے کہتے ہیں کہ 'میں اس گاؤں میں سٹوڈیو بنا کر دیہی اور شہری زندگی کے درمیان فرق ختم کرنا چاہتا تھا۔'

'ان کی ویڈیوز میں ایک پیغام ہوتا تھا جو کہ لاکھوں لوگوں تک پہنچ رہا تھا۔ سٹوڈیو بنا کر میں ان کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتا تھا۔'

بھورے کے ایک قدم نے اس گاؤں کی قسمت بدل دی اور اس سٹوڈیو کے بننے کے بعد سینکڑوں لوگ یوٹیوب کے ذریعے روزگار کمانے لگے۔

گاؤں کی پنکی ساہو جو یوٹیوب ویڈیوز بنا کر فلموں تک پہنچیں

تُلسی کے یو ٹیوب کریز سے ابھرنے والے بہت سے سوشل میڈیا سٹارز میں 27 سالہ پنکی ساہو بھی شامل ہیں۔

وہ کسانوں کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئیں۔ پنکی ساہو نے چاہا کہ وہ اداکارہ یا پھر ڈانسر بن جائیں لیکن یہ ایک ایسا خواب تھا جو پورا ہونا ناممکن تھا کیونکہ ان کے خاندان اور اردگرد کے لوگوں کے نزدیک اداکاری ایک ناپسندیدہ کام تھی۔

لیکن تنقید کے باوجود پنکی ساہو نے اپنی ڈانس کی ویڈیوز انسٹا گرام ریلز اور یو ٹیوب شارٹس کی صورت میں پوسٹ کرنا شروع کر دیں۔

بیئنگ چھتیس گڑھیا چینل کے بانیوں نے پنکی کی ویڈیوز دیکھیں اور انھیں اپنی پروڈکشن کے لیے بھرتی کیا۔

وہ کہتی ہیں کہ اس سبب ان کا خواب پورا ہوگیا۔

'انھوں نے میری صلاحیتوں کو پہچانا اور میری صلاحیتوں کو نکھارا۔'

بیئنگ چھتیں گڑھیا کے ساتھ کیے گئے ان کے کام نے چھتیس گڑھ کے علاقائی سنیما کے فلم سازوں کی توجہ حاصل کی اور پنکی کو ان کی ایک فلم میں کاسٹ کیا گیا۔ اس کے بعد سے وہ سات فلموں میں نظر آ چکی ہیں۔

آنند مانک پوری قریبی شہر بلاس پور کے ایک پروڈیوسر اور ڈائریکٹر ہیں، وہ پنکی کی یوٹیوب پرفارمنس سے بہت متاثر ہوئے۔

وہ کہتے ہیں کہ وہ ایک نئے چہرے کی تلاش میں تھے جو اداکاری کر سکے اور ساہو کے پاس یہ ٹیلنٹ تھا۔

وجے ورما اور گیانیندرا سے متاثر ہو کر تُلسی کے رہنے والے آدتیا بھاگیل نے کالج میں ہی اپنا یوٹیوب چینل شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔

ان کے یوٹیوب چینل پر ایک برس میں سبسکرائبرز کی تعداد 20 ہزار سے زیادہ ہو گئی اور انھوں نے پیسے کمانا شروع کر دیے۔

پھر وجے ورما نے انہیں لکھنے اور ہدایت کاری کے کام کے لیے بیئنگ چھتیس گڑھیا کی ٹیم میں شامل کرلیا۔

وجے ورما اور گیانیندرا کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات کو یاد کرتے ہوئے بھاگیل کہتے ہیں کہ ’یہ تجربہ کسی مشہور شخصیت سے ملنے جیسا تھا۔‘

بھاگیل کو جلد ہی قریبی شہر رائے پور کے ایک پروڈکشن ہاؤس میں ملازمت مل گئی۔

بھاگیل کو آنے والی بڑے بجٹ کی فلم ’کھرون پار‘ کے لیے سکرپٹ رائٹر اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر کا کردار ملا اوریہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے امید ہے کہ ایک دن مجھے فلم انڈسٹری میں کام کرنے کا موقع ملے گا۔‘

اڑتیس سالہ منوج یادیو بھی یوٹیوبر ہیں جو سنیما میں کام کرتے ہیں۔ وہ بچپن میں اداکاری کرتے تھے اور ایک بار رامائن میں رام کا کردار بھی ادا کر چکے ہیں۔

یادیو نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ ایک دن چھتیس گڑھ کے سنیما ہالوں میں تالیوں کی گڑگڑاہٹ سنیں گے۔

یوٹیوب ویڈیوز میں کئی سالوں تک اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کے بعد یادیو نے ایک علاقائی فلم میں کام کیا۔ اس میں ان کی اداکاری کے سبب انھیں وسیع پیمانے پر تعریف ملی۔ آج یادیو نے نہ صرف اپنا نام بنایا بلکہ اپنے ہنر سے روزی بھی کمائی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں اپنے جذبات کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا لیکن یو ٹیوب کے بغیر یہ کچھ بھی ممکن نہیں تھا۔‘

’یوٹیوب ویڈیوز بنا کر خواتین کے خواب پورے ہو گئے‘

یوٹیوب اس گاؤں کی خواتین کی زندگیوں میں ایک انقلاب لے کر آیا ہے۔

تلسی کی سابق سرپنچ دروپدی وشنو کے مطابق یوٹیوب انڈیا میں مروجہ تعصبات کو چیلنج کرنے اور سماجی اصولوں کو بدلنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے، جہاں گھریلو تشدد ایک سنگین مسئلہ ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’خواتین کے خلاف نفرت پھیلانے والے رواج اب بھی رائج ہیں، خاص طور پر بہوؤں کے ساتھ یہاں سلوک اچھا نہیں ہے۔ یہ ویڈیوز اس چکر کو توڑنے میں مدد کرتی ہیں۔‘

حال ہی میں 61 سالہ دروپدی نے اس موضوع سے متعلق ایک ویڈیو میں کام بھی کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے یہ کردار ادا کرنے میں بہت مزہ آیا کیونکہ اس نے خواتین کے ساتھ احترام اور برابری کے ساتھ برتاؤ کرنے کے خیال کو فروغ دیا۔ یہ ایک قدر ہے جسے میں نے گاؤں کے سربراہ کے طور پر اپنے پورے دور میں برقرار رکھا۔‘

28 سالہ راہل ورما نے شادیوں میں بطور فوٹوگرافر کام کیا ہے۔ انھوں نے بھی یوٹیوب کا فن گاؤں والوں سے سیکھا۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ پلیٹ فارم گاؤں میں مسلسل ترقی کر رہا ہے۔

’شروع میں ہماری مائیں اور بہنیں صرف ہماری مدد کرتی تھیں مگر اب وہ اپنے چینل چلا رہی ہیں۔ یہ وہ چیز ہے جس کا پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔‘

راہل ورما کا کہنا ہے کہ ان کا 15 سالہ بھتیجا بھی گاؤں میں مواد تخلیق کرنے والوں کی مدد کرتا ہے۔

’یہ ایک سنجیدہ کام ہے جس میں ہر کوئی حصہ لیتا ہے۔‘

2020 میں انڈیا کی جانب سے ٹک ٹاک ایپ پر پابندی عائد کرنے سے پہلے کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے دوران وہاں دیہی سطح پر ویڈیوز بنانے کا دور شروع ہوا تھا۔

انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی دہلی کے اسسٹنٹ پروفیسر سری رام وینکٹارامن کہتے ہیں کہ یہ ابتدائی لہر بنیادی طور پر مردانہ تھی۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے بعد بہت سی خواتین کامیابی سے سوشل میڈیا چینل چلا رہی ہیں۔ اس سے نئے اقتصادی مواقع پیدا ہوئے ہیں۔

56 سالہ رامکالی ورما کہتی ہیں کہ انھیں اپنے گاؤں کے یوٹیوب چینلز پر کام کرنا پسند ہے۔

وہ ایک پیار کرنے والی ماں کا کردار ادا کرنے کے لیے گاؤں میں مشہور ہیں۔ گاؤں میں ان کے ٹیلنٹ کی بہت مانگ ہے۔

رامکالی کے کرداروں میں اکثر صنفی مسائل کو اُجاگر کیا جاتا ہے۔

ایک ویڈیو میں ایک خاتون کو اس کی ساس مزید تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دے رہی ہے۔

رامکالی کا کہنا ہے کہ ’میں خواتین کو تعلیم اور کامیابی سے روشناس کروانا چاہتی ہوں۔ یہ کام مجھے اطمینان اور ذہنی سکون دیتی ہے۔‘

دوسری جانب ایک کامیاب اور خود انحصار اداکارہ پنکی ساہو دوسری نوجوان لڑکیوں کو متاثر کرنا چاہتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اگر میں اپنے خواب پورے کر سکتی ہوں تو وہ بھی کر سکتی ہیں۔‘

پنکی ساہو نوجوان خواتین کے لیے رول ماڈل بن گئی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’لڑکیوں کو بڑے خواب دکھانا میرے اس سفر کا سب سے زیادہ فائدہ مند حصہ ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اب ایسی لڑکیاں بھی ہیں جو فلم ساز بننے کی خواہش رکھتی ہیں۔‘

جیسے ہی تلسی گاؤں کے مضافات میں سورج غروب ہوتا ہے راجیش دیوار اور ان کی ٹیم اپنے کام کا آغاز کرتی ہے۔

راجیش دیوار کے چینل کا نام ’لیتھوا راجہ‘ ہے جس کا مطلب ہے ’حیرت انگیز بادشاہ۔‘

راجیش دیوار کو امید ہے کہ یوٹیوب لوگوں کے لیے ثقافتی تبدیلی لا سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’لوگ ہماری زبان میں ریپ گانے نہیں بناتے ہیں۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ میں اس ٹرینڈ کو تبدیل کر سکتا ہوں۔ میں اپنے علاقے میں ایک نئی دھن شامل کرنا چاہتا ہوں اور تلسی کو اس کے ویڈیوز کی طرح اس کی موسیقی کے لیے مشہور کرنا چاہتا ہوں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.