کیا بنگلہ دیش سیکولرازم سے اسلام پرستی کی طرف بڑھ رہا ہے؟

جب بنگلہ دیش الگ ہوا تو لوگ مذہب کی بنیاد پر بننے والے پاکستان پر سوال اٹھانے لگے۔ لوگ کہنے لگے تھے کہ مذہبی شناخت ہی سب کچھ نہیں ہے۔ ایسے میں مذہب کی بنیاد پر قوم بنانے کا فیصلہ غلط تھا۔ لوگ کہنے لگے کہ بنگالی شناخت اسلامی شناخت سے مختلف ہے۔
بنگلہ دیش
Getty Images
شیخ حسینہ کی معزولی کے بعد بنگلہ دیش میں لسانی اور مذہبی تشخص کے درمیان کشمکش بڑھ گئی ہے

پاکستان مذہب کی بنیاد پر بنا اور پھر زبان کی بنیاد پر بنگلہ دیش اس سے الگ ہو گیا۔ بنگلہ دیش کی آزادی کی بنیاد بنگالی قوم پرستی تھی لیکن یہ قوم پرستی اسلام کے خلاف نہیں تھی۔

بنگالی قوم پرستی کا بیج اس وقت بویا گیا جب بانیِ پاکستان محمد علی جناح نے مارچ 1948 میں اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ 1952 میں مشرقی پاکستان میں زبان کی تحریک شروع ہوئی۔

جب بنگلہ دیش الگ ہوا تو لوگ مذہب کی بنیاد پر بننے والے پاکستان پر سوال اٹھانے لگے۔ لوگ کہنے لگے تھے کہ مذہبی شناخت ہی سب کچھ نہیں ہے۔ ایسے میں مذہب کی بنیاد پر قوم بنانے کا فیصلہ غلط ہے۔ لوگ کہنے لگے کہ بنگالی شناخت اسلامی شناخت سے مختلف ہے۔

جب بنگلہ دیش بنا تو اس نے بنگالی قوم پرستی اور سیکولر جمہوریہ کو اپنایا۔ شیخ مجیب الرحمن نے فیصلہ کیا کہ بنگلہ دیش ایک قومی ریاست کے طور پر سیکولرازم پر قائم ہوگا۔ یہ فیصلہ بطور اسلامی ملک پاکستان کے تجربے کے بعد کیا گیا۔ بنگلہ دیش میں بنیاد پرست اسلامی گروہوں پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی کیونکہ انھیں پاکستان کا حامی سمجھا جاتا تھا۔

لیکن بنگلہ دیش کا سیکولر کردار زیادہ دیر تک کارگر ثابت نہ ہو سکا۔ سنہ 1975 میں بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کو قتل کر دیا گیا اور فوجی بغاوت ہوئی۔ یہ بنگلہ دیش کے سیکولرازم کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔

فوجی آمر ضیا الرحمان نے سنہ 1977 میں نہ صرف بنگلہ دیش کے آئین سے سیکولرازم کو ہٹا دیا بلکہ اسی کے ساتھ اسلامی جماعتوں پر سے پابندی بھی ہٹا دی گئی۔ جس کے بعد سنہ 1988 میں جنرل حسین محمد ارشاد نے اسلام کو ریاستی مذہب قرار دیا۔

تاہم جب شیخ حسینہ کی سربراہی میں عوامی لیگ کی حکومت سنہ 2009 میں اقتدار میں آئی تو اس نے آئین میں سیکولرازم کو شامل کرنے کا وعدہ کیا۔ سیکولرازم کو سنہ 2011 میں بنگلہ دیش کے آئین میں دوبارہ شامل کیا گیا اور اب بھی اسلام ریاستی مذہب ہے۔

getty
Getty Images
بنگلہ دیش میں حالیہ مہینوں میں انڈیا کے خلاف کئی مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔

اسلام بطور ریاستی مذہب

بنگلہ دیش کے آئین کے آرٹیکل دو کے مطابق اسلام ریاست کا مذہب ہے لیکن اس کے ساتھ ہی آرٹیکل 12 کہتا ہے کہ بنگلہ دیش ایک سیکولر ملک ہے اور یہاں دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی مساوی حقوق حاصل ہیں۔

گذشتہ سال اگست میں شیخ حسینہ کی معزولی کے بعد ایک بار پھر یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا بنگلہ دیش بنگالی قوم پرستی سے اسلام پرستی کی طرف بڑھ رہا ہے؟

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے کئی اصلاحاتی کمیشن بنائے۔ ایک آئینی اصلاحاتی کمیشن بھی بنا۔ اس کمیشن نے بنگلہ دیش کے آئین سے سیکولرازم کی اصطلاح کو ہٹانے کی سفارش کی تھی۔

موجودہ حالات میں تو بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی بھی محمد یونس کی حکومت کی حمایت کر رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی نے بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ میں پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔ جماعت ایک طرح سے آزاد بنگلہ دیش کی مخالفت کرتی رہی ہے۔

بنگلہ دیش کی نیوز ویب سائٹ پرتھم الو کو رواں ماہ دیے جانے والے ایک انٹرویو میں بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے سربراہ شفیق الرحمان نے کہا کہ ’سنہ1971 میں ہمارا موقف اصولوں پر مبنی تھا۔ ہم انڈیا کے مفاد کے لیے ایک آزاد ملک نہیں چاہتے تھے۔ ہم چاہتے تھے کہ پاکستانیوں کو ہمیں ووٹ کا حق دینے پر مجبور کیا جائے۔ اگر یہ ممکن نہ ہوتا تو بہت سے ممالک گوریلا وار کے ذریعے آزادی حاصل کر چکے ہوتے۔‘

شفیق الرحمن نے کہا تھا کہ ’اگر ہمیں آزادی کسی کے ذریعے یا کسی کے حق میں ملی ہے تو یہ ایک بوجھ کو ہٹانے اور دوسرے پر بوجھ ڈالنے کے مترادف ہوگا، کیا بنگلہ دیش کے لیے پچھلے 53 سالوں سے یہ سچ نہیں رہا ؟ ہمیں یہ کیوں سننا پڑ رہا ہے کہ ایک خاص ملک کسی خاص پارٹی کو پسند نہیں کرتا اور اگر کوئی خاص ملک نہیں چاہتا تو ایک مخصوص پارٹی اقتدار میں نہیں آ سکتی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’کیا ایک آزاد ملک میں ایسا رویہ اختیار کیا جاتا ہے؟ بنگال کے نوجوان اب ایسا کچھ سننا نہیں چاہتے۔‘

کولکتہ یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ہمادری چٹرجی کہتے ہیں کہ ’بنگلہ دیش میں ہمیشہ سے ہائبرڈ قوم پرستی رہی ہے۔‘

Getty
Getty Images
بنگلہ دیش میں محمد یونس کی قیادت میں عبوری حکومت پر اسلامی بنیاد پرستی کو فروغ دینے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔

بنگالی قوم پرستی بمقابلہ اسلامی قوم پرستی

پروفیسر چٹرجی کہتے ہیں کہ ’بنگلہ دیش بنگالی قوم پرستی کے ذریعے بنا لیکن اسلام یہاں سے کہیں نہیں گیا۔ بنگالی قوم پرستی کی وکالت کرنے والے اسلام مخالف نہیں تھے۔ یہاں شروع سے ہی ہائبرڈ قوم پرستی تھی۔ شیخ حسینہ کا خیال تھا کہ وہ بنگالی قوم پرستی کے ذریعے ہی بنگلہ دیش کو سنبھال سکتی ہیں اور یہ ان کی غلطی تھی۔ بنگلہ دیش طویل عرصے سے جنگ آزادی کے رومانس سے آگے بڑھ چکا تھا۔ شیخ حسینہ یہ بات نہ سمجھ سکیں۔‘

پروفیسر ہمادری چٹرجی مزید کہتے ہیں کہ ’اب بنگلہ دیش کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اسلامی قوم پرستی بنگالی قوم پرستی پر حاوی ہے لیکن وہاں کے لوگ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ بنگلہ دیش کے لوگوں نے پاکستان کو دیکھا ہے اور اب بھی دیکھ رہے ہوں گے۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ ایسی غلطی کریں گے۔‘

سُمت گنگولی سٹینفورڈ یونیورسٹی میں انڈیا امریکہ تعلقات پر ہنٹنگٹن پروگرام کے سینئر فیلو ہیں۔ 12 فروری کو انھوں نے انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس میں بنگالی قوم پرستی اور اسلامی بنیاد پرستی پر ایک مضمون لکھا۔

اس مضمون میں گنگولی کہتے ہیں کہ ’سنہ 1980 کی دہائی میں بنگلہ دیشی بڑی تعداد میں خلیجی ممالک میں کام کرنے گئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر لوگوں کو سعودی عرب میں کام ملا ہے۔ بنگلہ دیش کے لوگوں نے سعودی عرب میں بالکل مختلف اسلام دیکھا۔ اس کے ساتھ بنگلہ دیش کی سیاست میں اسلام پسندوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔ سعودی عرب نے بنگلہ دیش میں مدارس کی مالی امداد شروع کردی۔‘

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’ان مدارس کا اسلام بنگالی اسلام سے بالکل مختلف تھا۔ اس سے اسلام کی جڑیں بنگلہ دیش کے معاشرے میں مضبوط ہو گئیں۔ ظاہر ہے کہ بنگالی قوم پرستی بنیاد پرست اسلام کے ساتھنہیں چل سکتی تھی۔ شیخ حسینہ کے جانے کے بعد بنگالی قوم پرستوں کی بے چینی مزید بڑھ گئی ہے۔ شیخ مجیب الرحمن کے گھر پر حملہ اسی بے چینی کا عکاس تھا۔ اس حملے کے پیچھے جماعت اسلامی کے لوگوں کا ہاتھ تھا۔‘

پاکستان کے معروف سیاسی تجزیہ کار پرویز ہود بھائی نے گذشتہ سال نومبر میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کے دوران پرویز ہود بھائی نے یہ بھی محسوس کیا کہ بنگلہ دیش میں اسلامی قوم پرستی بنگالی قوم پرستی پر حاوی ہے۔

getty
Getty Images

دشمن انڈیا ہے یا پاکستان؟

پرویز ہود بھائی کہتے ہیں کہ ’بنگلہ دیش میں بے چینی ہے۔ اس وقت ایک طرف سیکولر قوم پرستی ہے جس میں لسانی شناخت کی بات کی جا رہی ہے۔ بنگلہ دیش کے لوگ ایک عرصے سے اس پر فخر کرتے رہے ہیں۔ دوسری طرف بنگلہ دیش کے اندر مذہبی قوتیں بھی سر اٹھا رہی ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ بنگلہ دیش کو اسلامی رنگ دیا جائے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ بنگلہ دیشی معاشرہ مضبوط ہے۔‘

’بنگلہ دیشی خواتین برقعہ نہیں پہنتیں، مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں اور پاکستانی خواتین سے زیادہ جدید ہیں۔ میرے خیال میں بنگلہ دیش میں یہ علمیہ تو ہے لیکن اسلامی قوتیں جیت نہیں پائیں گی۔ بنگلہ دیش کے عوام کو یاد ہوگا کہ 1971 میں اسلام کے نام پر کتنے مظالم ڈھائے گئے۔‘

پرویز ہود بھائی کہتے ہیں کہ ’شیخ حسینہ کے جانے کے بعد اسلامی قوتوں کو تقویت ملی ہے لیکن بنگلہ دیش کے لوگ ماضی کو اتنی آسانی سے نہیں بھولیں گے۔ بنگلہ دیش کے لوگ دیکھ رہے ہوں گے کہ پاکستان میں اسلامی قوم پرستی کس قدر پروان چڑھ رہی ہے۔ بنگلہ دیش کو دیکھنا چاہیے کہ مذہبی قوم پرستی پاکستان کو کہاں لے گئی ہے۔ بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر حملے ہوتے رہے ہیں لیکن اب بھی وہاں ہندو اور مسلمان مل کر رہتے ہیں جو پاکستان میں ممکن نہیں۔‘

پرویز ہود بھائی کہتے ہیں کہ ’اگر بنگلہ دیش میں بنگالی قوم پرستی پر اسلامی قوم پرستی کا غلبہ ہوا تو یہ ملک ٹوٹ پھوٹ کی طرف بڑھے گا۔‘

ہود بھائی نے مزید کہا کہ ’حال ہی میں جب میں ڈھاکہ گیا تھا تو ڈھاکہ یونیورسٹی میں لوگ سائنسدان ستیندر ناتھ بوس کی یوم پیدائش منا رہے تھے۔ پاکستان میں ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ مجھے یہ بات بہت پسند آئی۔ اس پروگرام میں محمد یونس بھی آئے تھے۔‘

بنگلہ دیش میں قوم پرستی کے بارے میں بحث جاری ہے۔ بنگلہ دیش کی قوم پرستی میں پاکستان یا انڈیا کو دشمن سمجھا جائے اس پر بھی بحث جاری ہے۔

پرویز ہود بھائی کہتے ہیں کہ ’بنگلہ دیش میں پاکستان کے بارے میں سوچ بدل رہی ہے کیونکہ وہ غصہ اب نظر نہیں آتا۔ بنگلہ دیش کی سیاسی جماعتیں بھی جنگ آزادی میں انڈیا کے کردار پر سوالات اٹھا رہی ہیں۔‘

بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی سٹینڈنگ کمیٹی کے رکن مرزا عباس نے گذشتہ سال یکم دسمبر کو کہا تھا کہ انڈیا دو ہندو ممالک بنانا چاہتا ہے۔ وہ چٹاگانگ پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ سب کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش ایک چھوٹا اور غریب ملک ہے۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ بنگلہ دیش ایک آزاد خیال اور مضبوط ملک ہے۔ انڈیا کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے پاس چھوٹی فوج ہے لیکن 1971 میں ہم بغیر تربیت کے لڑے۔ بنگلہ دیش کے 20 کروڑ لوگ فوجی ہیں۔‘

مرزا عباس نے کہا کہ ’اس سال بھی آمر حسینہ کو ہمارے بیٹوں اور بیٹیوں نے بغیر ہتھیاروں کے اقتدار سے ہٹایا۔ راہول گاندھی نے کہا تھا کہ انڈیا نے بنگلہ دیش کو آزاد کرایا۔ لیکن انڈیا نے بنگلہ دیش نہیں بنایا۔ ہم نے بنگلہ دیش کو آزاد کرایا۔ انڈیا نے پاکستان کو تقسیم کیا اور اس نے اپنے فائدے کے لیے ایسا کیا نہ کے ہمارے فائدے کے لیے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.