چیمپئنز ٹرافی کا بہت اہم اور دلچسپ راؤنڈ شروع ہو گیا ہے یعنی سیمی فائنل۔اتوار کی شام انڈیا نے نیوزی لینڈ کو ہرا دیا یعنی یہ واضح ہو گیا کہ اس گروپ میں انڈیا نمبر ون پر ہو گا اور اس کا سیمی فائنل منگل کو دبئی ہی میں آسٹریلیا سے ہو گا۔ دوسرا سیمی فائنل پانچ مارچ کو جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ کے درمیان قذافی سٹیڈیم لاہور میں ہو گا۔
جب یہ ٹورنامنٹ شروع ہوا تو تجزیہ کاروں نے اندازے لگائے تھے کہ کون سی ٹیم آگے جائے گی۔ نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کی ٹیمیں اچھی فارم میں تھیں اور یہ توقع کی جا رہی تھی کہ یہ آگے جا سکتی ہیں۔
انڈین ٹیم بھی بہت اچھی فارم میں تھی، انگلینڈ کو چیمپئنز ٹرافی سے چند دن پہلے انڈیا نے بری طرح شکست دی تھی۔ یہ اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ یہ تینوں ٹیمیں آگے جا سکتی ہیں۔
صرف دو ایسے معاملات تھے جن کے حوالے سے ماہرین کلیئر نہیں تھے، پہلا پاکستانی ٹیم کی کارکردگی جو اکثر غیر متوقع رہتی ہے، پاکستان کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اسی لیے ہمیشہ چانس رہتا ہے کہ پاکستانی ٹیم ایکسٹرا آرڈنری کھیل کر آگے جا سکے۔ ایسا شاید ہوجاتا مگر پاکستانی ٹیم بیلنس نہیں تھی، سکواڈ میں ایک بڑی غلطی ہوئی کہ دوسرا سپیشلسٹ سپنر نہیں لے جایا گیا جبکہ بابراعظم بھی فارم میں نہ آ پائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تینوں سٹار فاسٹ بولرز توقعات پر پورا نہ اتر سکے۔
پاکستانی سلیکٹرز کو اندازہ تھا کہ پاکستان میں فلیٹ بیٹنگ پچز ہوں گی، اس لیے سپنرز سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑے گا، مگر پھر انہیں سکواڈ میں ہارڈ ہٹرز شامل کرنا چاہیے تھے۔ عرفان خان نیازی کو باہر رکھ کر طیب طاہر کو شامل کرنا غلط تھا کہ عرفان نیازی اچھا کلین ہٹر اور بہترین فیلڈر ہے۔
دوسرا ہمارے سلیکٹرز یہ اندازہ نہیں لگا سکے کہ پاکستان نے اپنا ایک اہم میچ انڈیا سے دبئی میں کھیلنا ہے، جہاں ہائی سکورنگ پچز نہیں ہوں گی اور وہاں سپنرز کو مدد ملے گی۔
افغانستان نے اس ٹورنامنٹ میں اپنی کارکردگی کو منوایا (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا کے خلاف اگر سفیان مقیم جیسا مسٹری سپنر ہوتا تو ٹیم کو فائدہ ہو سکتا تھا۔
پاکستان تو خیر اپنی بری سلیکشن اور دیگر غلطیوں کے باعث ٹورنامنٹ سے آؤٹ ہو گیا۔ سیمی فائنل کے لیے دیگر امیدواروں میں سے ایک اچھا امیدوار افغانستان تھا۔
رکی پونٹنگ اور بعض دیگر کھلاڑیوں کا خیال تھا کہ افغانستان سیمی فائنل میں جا سکتا ہے۔ انہیں اندازہ تھا کہ انگلینڈ کی ٹیم اتنے اچھے ردھم میں نہیں اور بولنگ میں خاص کر وہ دم خم نہیں، ویسا ہی ہوا۔انگلینڈ دو میچز میں اپنی نسبتاً کمزور بولنگ کے باعث ہار گیا۔ آسٹریلیا کے خلاف ساڑھے تین سو رنز کر کے ہارنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ افغانستان کے خلاف بھی جوروٹ کی شاندار اننگ نے میچ بنا دیا تھا، روٹ کے آؤٹ ہونے کے بعد سنگل ڈبل کر کے بھی میچ جیت سکتے تھے،غیر ضروری جارحیت مہنگی پڑی۔
افغانستان نے انگلینڈ کو اچھا میچ ہرایا، مگر ان کی بدقسمتی کہ وہ پہلا میچ جنوبی افریقہ سے ہار گئے، یوں ان کے پاس مارجن کم بچا تھا۔
آسٹریلیا کے خلاف میچ بارش کی نذر ہوا تو آسٹریلیا کو فائدہ پہنچا کیونکہ ان کا ایک میچ پہلے ہی جنوبی افریقہ سے برابر ہوچکا تھا۔ افغانستان نے مگر اس ٹورنامنٹ میں اپنی کارکردگی کو منوایا اور اپنے بارے میں ناقدین کی رائے بہتر بنائی۔
آسٹریلیا نے سرپرائز دیا۔ دراصل آسٹریلیا ہمیشہ سے ایک تگڑی اور مضبوط ٹیم ہے، اس بار مگر ٹورنامنٹ سے پہلے اس کے تینوں مین فاسٹ بولرز انجریز اور دیگر وجوہات کی بنا پر شامل نہیں ہوئے جبکہ مارش جیسا بلے باز بھی نہیں کھیل پایا اور سٹانس نے اچانک ون ڈے سے ریٹائرمنٹ لے لی۔
ورون چکرورتی نے نیوزی لینڈ کے خلاف پانچ وکٹیں لے کر اپنی افادیت ثابت کی (فوٹو: کرک ٹوڈے)
یہ بڑا سیٹ بیک تھا، ایک بڑے ٹؤرنامنٹ میں آپ کی مین بولنگ ہی شامل نہ ہو تو بڑی مشکل ہوجاتی ہے۔ آسٹریلین بیٹنگ لائن نے بولنگ کی کمزوری دور کی۔ انگلینڈ کے خلاف ساڑھے تین سو رنز کا ہدف عبور کر کے ہر ایک کو حیران کر دیا۔ ان کی خوش قسمتی کہ جنوبی افریقہ سے میچ بارش کے باعث ہو نہیں سکا اورایک پوائنٹ مل گیا۔
افغانستان کے خلاف بھی بارش سے میچ مکمل نہیں ہو سکا اور ایک پوائنٹ مل گیا مگر اس میچ میں آسٹریلین اوپنرز نے بڑی عمدہ جارحانہ بیٹنگ کر کے پہلے دس اوورز ہی میں میچ کا رخ بدل دیا تھا۔ انہوں نے جیسی بیٹنگ کر دی تھی، اس سے ان کی پوزیشن بہتر ہو گئی تھی۔ بہرحال افغانستان آؤٹ ہو گیا۔
اب سیمی فائنل کی معرکہ آرائی شروع ہو چکی ہے۔ پہلا سیمی فائنل بھارت اور آسٹریلیا کے درمیان دبئی میں ہے۔ وینیو سب سے اہم ہے کہ آسٹریلین ٹیم پاکستان کی فلیٹ بیٹنگ پچز پر عمدہ بیٹنگ کرتی آئی ہے۔ اب اچانک اسے دبئی کی سپن فرینڈلی پچ پر انڈین کوالٹی سپن بولنگ سے مقابلہ درپیش ہے۔
آخری گروپ میچ میں انڈیا نے ایک بولڈ سٹیپ اٹھاتے ہوئے چار سپنر کھلائے، ایسا بہت کم ہوتا ہے مگر گوتم گمبھیر، روہت شرما پر مبنی ٹیم مینجمنٹ نے ایسا کر ڈالا۔ انڈیا نے باقی میچز میں کلدیپ یادیو، اکثر پٹیل اور رویندر جدیجہ پر مشتمل سپن اٹیک کھلایا جسے شامی، ہرشیت رانا اور ہاردک پانڈیا کے پیس باولنگ اٹیک کی سپورٹ حاصل تھی۔
نیوزی لینڈ کے خلاف رانا کو ڈراپ کر کے مسٹری لیگ سپنر ورون چکرورتی کو کھلایا گیا۔ چکرورتی نے پچھلے کچھ عرصے میں عمدہ وائٹ بال کرکٹ کھیلی ہے اور خاصی وکٹیں لی ہیں۔ انگلینڈ کے خلاف چیمپئنز ٹرافی سے پہلے بھی چکرورتی بہت کامیاب بولر رہا۔ نیوزی لینڈ کے خلاف اسے موقع ملا تو اس نے پھر کمال کر دکھایا اور پانچ وکٹیں لے کر اپنی افادیت کو ثابت کر دیا۔ ویسے یہی چکرورتی دو سال قبل ورلڈ کپ میں پاکستان کے خلاف بری طرح ناکام ہوا تھا جب بابراعظم اور محمد رضوان نے آؤٹ ہوئے بغیر ہدف حاصل کر لیا اور بھارت کو دس وکٹوں سے شکست ہوئی تھی۔
تب سوشل میڈیا پر چکرورتی کا مذاق اڑایا گیا کہ یہ کیسا مسٹری سپنر ہے جو کچھ کر ہی نہیں پایا۔ چکرورتی پر تنقید ہوئی، وہ ڈراپ بھی ہوا مگر اپنی محنت اور پرفارمنس سے واپسی ہوئی اور اتوار کی شام کا ہیرو ورون چکرورتی تھا۔
انڈیا کے خلاف مسٹری سپنر سفیان مقیم کو کھلایا جاتا تو فائدہ ہو سکتا تھا (فوٹو: پی سی بی)
امکانات ہیں کہ سیمی فائنل میں بھی یہی بولنگ اٹیک کھیلے۔ ایسا ہوا تو انڈیا کو ایڈوانٹیج حاصل ہو گا۔
آسٹریلین ٹیم میں ایک ہی سپیشلسٹ سپنر ایڈم زمپا ہیں، پارٹ ٹائم سپنر میکسویل ہے، مگر ان کا انڈین کوالٹی سپن بولنگ سے ہرگز موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ انڈین بیٹنگ بھی اچھا کھیل رہی ہے، شھبمن گل اچھا کھیل رہا ہے، روہت شرما گو رنز نہیں کر رہا مگر کوہلی کچھ نہ کچھ کر لیتا ہے جبکہ اب تو شریاس آئیر بھی فارم میں آ گیا، اکثر پٹیل بھی مفید رنز کر رہا اور پانڈیا بھی اچھی فارم میں ہے۔ نہایت آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ پہلے سیمی فائنل میں انڈیا فیورٹ ہے۔
اگر کوئی اپ سیٹ نہ ہوا تو انڈیا فائنل کھیلے گا، ایسا اگر ہوا تو چیمپئنز ٹرافی کا فائنل دبئی میں شفٹ ہوجائے گا۔پاکستانی کرکٹ بورڈ کے لیے یہ اچھی خبر نہیں ہو گی کہ فائنل پاکستان میں ہونا ان کے لیے زیادہ مفید تھا۔ شائقین کرکٹ کے لیے بھی اس لحاظ سے یہ تھوڑا منفی رہے گا کہ ابھی تک دبئی میں جو بھی میچز ہوئے، ان میں سے کوئی بھی ہائی سکورنگ نہیں تھا۔ تین سو سکور تک نہیں ہو پایا اور نہ چھکوں، چوکوں کی بارش ہوئی۔اگر پاکستان میں فائنل ہوا تو وہاں ہائی سکور مقابلے کی توقع کی جا سکتی ہے کہ بیشتر میچز میں تین سو پلس رنز بنے ہیں۔ خیر ابھی تو یہ سب قیاس آرائیاں ہیں، آسٹریلیا بھی اچھی ٹیم ہے اور وہ پریشر کو ہینڈل کرنا بھی جانتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ پہلا سیمی فائنل کس رخ جائے گا؟
دوسرا سیمی فائنل سب سے مشکل اور ٹف ہوگا۔ جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ دونوں اچھی اور بیلنس ٹیمیں ہیں۔ دونوں کی بیٹنگ بھی اچھا کھیل رہی، بولنگ بھی اچھی ہے۔ ایک اچھے اور مزے کے مقابلے کی توقع ہے۔
آسٹریلیا کے پاس ایڈم زمپا کی شکل میں صرف ایک ہی سپیشلسٹ سپنر ہیں (فوٹو: دی کرکٹر)
قذافی سٹیڈیم میں جو میچز ہوئے، ان سب میں بڑے سکور ہوئے، بلے بازوں کو جوہر دکھانے کے مواقع ملے، سنچریاں بنیں۔ جنوبی افریقہ کے پاس اچھے ہارڈ ہٹرز موجود ہیں۔ بایوما پچھلا میچ نہیں کھیلا، سیمی فائنل شائد لازمی کھیلے، ڈوسن نے پچھلے میچ میں اچھی نصف سنچری بنائی، کلاسن بہت اچھی فارم میں ہے، اس نے بھی انگلینڈ کے خلاف نصف سنچری بنائی۔ جنوبی افریقہ چار فاسٹ بولر کو کھلا رہا ہے، جانسن، ربادا، نگیڈی ،ملڈر اور سپیشلسٹ سپنر کیشو مہاراج ۔ مارکرم بھی پارٹ ٹائم بولنگ کرا لیتا۔
نیوزی لینڈ کی بولنگ بھی اچھی ہے۔ ہنری بہت اچھی فارم میں ہے، انڈیا کے خلاف اس نے پانچ وکٹیں لیں اور ان فارم شھبمن گل کو بڑی عقلمندی سے آؤٹ کیا۔ جبکہ اسے کائل جیمیسن اور اوروکی کی سپورٹ حاصل ہے، سپن اٹیک کی قیادت نہایت تجربہ کار سپنر سینٹنر کر رہا جبکہ مائیکل بریسویل اور رچن ریویندر بھی موجود ہیں۔ کیوی بیٹنگ بھی فارم میں ہے، ول ینگ، رویندر، ولیمسن، لیتھم، مچلز سب رنز کر رہے ہیں اور پچھلے چند میچز میں انہوں نے اچھی ففٹیز بنائی ہیں۔
یوں اچھی مضبوط اور بیلنس نیوزی لینڈ ٹیم کا مقابلہ اتنی ہی اچھی، مضبوط اور بیلنس جنوبی افریقی ٹیم سے ہوگا۔ میں جنوبی افریقہ کو تھوڑا سا ایڈوانٹیج دے سکتا ہوں کہ وہ ابھی تک ناقابل شکست رہی ہے اور ان کا اعتماد بڑھا ہوا ہے جبکہ وہ شدت سے چاہتے ہیں کہ کسی بڑے ٹورنامنٹ کو جیت کر اپنے اوپر لگا چوکرز کا لیبل ہٹا سکیں۔ مگر یہ انیس بیس بھی نہیں، شاید ساڑھے انیس بیس سمجھ لیں۔
لاہور میں بہرحال ایک اچھا میچ ہونے کی توقع ہے، جو ٹیم پریشر کو اچھا ہینڈل کر لے گی اسے فائدہ ہو گا۔ تھوڑا بہت ٹاس کا بھی عمل ہو گا کہ لاہور میں دوسرے وقت میں کچھ اوس بھی پڑتی ہے اور گراؤنڈ گیلا ہوجانے پر بولنگ ٹیم خاص کر سپنرز کو گرپ کرنے میں مشکل پڑتی ہے۔