بلیک ہولز سے متعلق سٹیفن ہاکنگ کی قبر پر لکھا وہ فارمولا جو انھیں نوبل انعام دلا سکتا تھا

سٹیفن ہاکنگ کی موت کے سات سال بعد بھی یہ نظریہ عام طور پر کائنات کو سمجھنے اور خاص طور پر کائنات میں موجود بلیک ہولز کو سمجھنے کے لیے اتنا اہم ہے کہ امریکی خلائی ادارے ناسا اور یورپی نیوکلیئر ادارے سرن (CERN) جیسے معتبر ادارے اس کا پتہ لگانے کے لیے آج بھی کام کر رہے ہیں۔
سٹیفن ہاکنگ کی قبر
Getty Images
بلیک ہولز سے متعلق سٹیفن ہاکنگ کی قبر پر لکھا فارمولا

جب 14 مارچ سنہ 2018 کو سٹیفن ہاکنگ کی وفات ہوئی تو وہ اس وقت دنیا کے سب سے مشہور سائنسدان تھے۔ اپنی 76 سالہ زندگی کے دوران، برطانوی ماہر طبیعیات نے درجنوں سائنسی مضامین اور مشہور کتابیں لکھیں، دستاویزی فلموں اور سیریز میں حصہ لیا، اور یہاں تک کہ فلموں میں بھی جلوہ گر ہوئے۔

ان میں امیوٹروفک لیٹرل سکلیروسیس نامی مرض کی تشخیص 21 سال کی عمر میں ہوئی تھی، جس نے انھیں زندگی بھر کے لیے وہیل چیئر اور ایک جدید ترین مواصلاتی نظام استعمال کرنے پر مجبور کر دیا۔ مگر انھوں نے اپنی اس معذوری کو سائنسی کیریئر یا اپنے سٹارڈم کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔

لیکن اپنی تمام تر سائنسی کامیابیوں کے باوجود وہ اپنے ایک خاص نظریے کے لیے یاد رکھے جانا چاہتے تھے اور اس نظریے کا فارمولا ان کی قبر کے کتبے میں لکھا گیا ہے۔

ان کی قبر مشہور سائنسدان چارلس ڈارون اور آئزک نیوٹن کی قبر سے چند قدم فاصلے پر ویسٹ منسٹر ایبے نامی قبرستان میں ہے۔

ان کے اس نظریے کو ہاکنگ ریڈیشن کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ان کی موت کے سات سال بعد بھی یہ نظریہ عام طور پر کائنات کو سمجھنے اور خاص طور پر کائنات میں موجود بلیک ہولز کو سمجھنے کے لیے اتنا اہم ہے کہ امریکی خلائی ادارے ناسا اور یورپی نیوکلیئر ادارے سرن (CERN) جیسے معتبر ادارے اس کا پتہ لگانے کے لیے آج بھی کام کر رہے ہیں۔

سٹیفن ہاکنگ
Getty Images

ہاکنگ کا بڑا ’سرپرائز‘

ان کی قبر پر لگے پتھر کے کتبے پر لکھا ہے ’یہاں سٹیفن ہاکنگ (1942-2018) دفن ہیں‘۔

یہ گہرے گرے رنگ کی پتھر کی ایک سلیٹ ہے جس کے درمیان میں ان کے اس نظریے کو لکھا گیا ہے۔ جس پر بیضوی شکل کے کچھ دائرے کندہ کیے گئے ہیں اور دس حروف کا ایک فارمولا لکھا ہے۔

یہ فارمولہ ان کے اس خیال کو ظاہر کرتا ہے کہ ’کائنات میں موجود بلیک ہولز مکمل طور پر سیاہ نہیں ہیں بلکہ ان میں سے ایک روشنی نکلتی ہیں جسے ہاکنگ ریڈی ایشن کہا جاتا ہے۔‘

ان کی کتبے پر درج اس فارمولے کی وضاحت ویسٹ منسٹر ایبے میں موجود آفیشل دکان میں بکنے والے ان کی قبر کے پوسٹ کارڈ پر درج ہے۔

مگر پوسٹ کارڈ پر اس نظریے کو درج ہونے سے بہت پہلے اس خیال کہ بلیک ہولز اتنے سیاہ نہیں ہیں نے سٹیفن ہاکنگ کو بھی مزید جستجو پر اکسایا تھا۔

سنہ 2016 میں ماہر طبیعیات نے سالانہ ریتھ لیکچرز پروگرام کے حصے کے طور پر بی بی سی کے لیے دو لیکچرز دیے۔ وہاں انھوں نے بتایا کہ سنہ 1974 کے اوائل میں ’میں تحقیق کر رہا تھا کہ مادہ کسی بلیک ہول کے قریب کیسے برتاؤ کرے گا۔‘

انھوں نے اس بارے میں مزید بتاتے ہوئے کہا کہ ’میرے لیے یہ بڑی حیرت کی بات تھی کہ میں نے دریافت کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ بلیک ہول ایک مستقل شرح سے ذرات کا اخراج کرتا ہے۔ اس وقت ہر کسی کی طرح، میں نے اس بات کو قبول کر لیا تھا کہ بلیک ہول کچھ بھی خارج نہیں کر سکتا۔ اس لیے میں نے اس کو غلط ثابت کرنے کے لیے بہت محنت اور تحقیق کی۔‘

’مگر میں اس بارے میں جتنا سوچتا اور کوشش کرتا اتنا ہی یہ خیال زیادہ آتا اور بلآخر میں نے اس بات کو تسلیم کر لیا۔‘

بلیک ہول
Getty Images

اس نظریے کی بنیاد بننے والے سوالات

میکسیکو میں سنویسٹاو کے شعبہ طبیعیات کے ایک سینیئر محقق اور سرن کے ریسرچ ایسوسی ایٹ جیرارڈو ہیریرا کورل نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ہاکنگ ریڈی ایشن کو سمجھنے کے لیے پہلے دو نظریات کو سمجھنا ضروری ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پہلا نظریہ ایک رجحان ہے جسے ’پیئر پروڈکشن‘ کہا جاتا ہے جو اس وقت ہوتا ہے جب ایک فوٹون جو روشنی کا ایک ذرہ ہے اچانک ایک پارٹیکل اور اینٹی پارٹیکل کا جوڑا پیدا کرتا ہے۔‘

’پھر فوراً ہی یہ پارٹیکل اور اینٹی پارٹیکل دوبارہ ایک دوسرے کی طرف کشش پیدا کرتے ہیں اور ایک دوسرے میں ضم ہو کر ختم ہو جاتے ہیں یعنی وہ دوبارہ ملتے ہیں، تاکہ ایک بار پھر وہ فوٹوون تیار کیا جا سکے جس سے یہ ذرات بنے تھے۔ ‘

وہ کہتے ہیں کہ ’عام الفاظ میں یہ ایک اتار چڑھاؤ کا عمل ہے جس میں ایک فوٹون ہے جو ایک پارٹیکل اور اینٹی پارٹیکل کا جوڑا پیدا کرتا ہے، جو مل کر دوبارہ فوٹوون بن جاتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’دوسرے تصور کا تعلق بلیک ہولز کی ایک انتہائی دلچسپ خصوصیت سے ہے اسے ہورائزن (افق) کہا جاتا ہے۔ یعنی بلیک ہولز پر ایک لکیر ایک حد ہے جو اسے باقی کائنات سے الگ کرتی ہے۔‘

وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’یہ لکیر وہ جگہ ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں جو چیز ایک بار اس لکیر کو عبور کر لیتی ہیں تو وہ واپس موجودہ کائنات میں نہیں آ سکتی۔ کم از کم اس کائنات میں جس کے بارے میں ہمیں پتا ہے، یہاں سے تو روشنی بھی نہیں گزرتی۔‘

ہاکنگ کی تحقیق کا نظریہ ہی یہ تھا کہ اگر اس ایونٹ ہورائزن یعنی اس افقی لکیر پر اگر پیئر پروڈکشن یعنی فوٹون کے ٹوٹنے اور پھر بننے کا عمل ہو تو کیا ہو گا؟

سٹیفن ہاکنگ نے بی بی سی کو دیے ایک لیکچر میں وضاحت کی تھی کہ ’بلیک ہول کی موجودگی میں، فوٹون کے پارٹیکلز میں سے ایک ذرہ بلیک ہول میں گر سکتا ہے، اور دوسرا ذرے تنہا ہو سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پیچھے رہ جانے والا ذرہ بھی شاید بلیک ہول میں ہی جا گرتا ہے یا شاید وہ لا محدودیت میں کھو جاتا ہے جس سے بلیک ہولز سے نکلنے والی روشنی محسوس ہوتی ہے۔‘

اسی سکیپنگ ریڈی ایشن کے نظریے کا فارمولہ ہی ان کی قبر کے کتبے میں لکھا ہے۔

بلیک ہول
Getty Images

بلیک ہول کا خاتمہ

ہاکنگ ریڈی ایشن کے نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ یہ بلیک ہول کے خاتمے کی پیش گوئی کرتا ہے اور اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں جوڑی کےپیدا ہونے پر واپس جانا ہوگا۔

ہیریرا کورل کہتی ہیں کہ روزمرہ کی زندگی میں یہ واقعہ اس وقت پیش آتا ہے جب فوٹون کسی ایٹم کے قریب سے گزرتا ہے کیونکہ ایٹم سے پیدا ہونے والا الیکٹرو میگنیٹک فیلڈ جوڑوں کی پیداوار کے لیے ضروری توانائی فراہم کرتا ہے جو بعد میں ختم ہو جاتے ہیں۔

اب جب بلیک ہول کے کنارے پر جوڑے کی پیداوار ہوتی ہے، تو اس سے ’افق سے تھوڑی سی توانائی نکلتی ہے۔‘

تاہم ’جیسا کہیہ عملاربوں بار ہوتا ہےتو افق پر جوڑوں کی مسلسل پیداوار بلیک ہول سے توانائی کو دور کھینچ رہی ہے۔‘

’اس کے نتیجے میں اربوں سال بعد بلیک ہول ختم ہو جائے گا۔ یہ اپنی تمام توانائی جوڑوں کی پیداوار کے رجحان پر صرف کر کے غائب ہو جائے گا۔‘

اس میں کتنا وقت لگے گا اس کا اندازہ اس بات سے لگیا جا سکتا ہے کہ ناسا کے مطابق سٹیلر بلیک ہول یعنی اب تک کے سب سے چھوٹے سائز کے بلیک ہول کو ختم ہونے میں کائنات کی موجودہ عمر سے درجنوں گنا زیادہ وقت لگے گا۔

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کو ہاکنگ ریڈی ایشن کو تجرباتی طور پر آزمانے کے لیے انتظار کرنا پڑے گا۔

نوبل انعام جو نہیں ملا

ہاکنگ ریڈی ایشن کا سراغ لگانے کی سب سے بڑی تجرباتی کوشش ناسا کی جانب سے کی جا رہی ہے۔

جون 2008 میں ناسا نے فرمی ٹیلی سکوپ کو خلا میں بھیجا جس کا مقصد کائنات میں روشنی کے ذرائع گاما رے ذرائع کا نقشہ بنانا ہے۔

ہاکنگ نے کہا تھا کہ ایسے بلیک ہول ہو سکتے ہیں جوابھر بن رہے ہیں اور یہ ختم ہو سکتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے تابکاری خارج کریں گے جسےامید ہے کہ ہم فرمی خلائی تحقیقات کے ذریعے دیکھ سکیں گے۔

دوسری جانب میکسیکو کے طبیعیات دان سرن کے لارج ہیڈرون کولائیڈر سے ایسی تابکاری کی تلاش کر رہے ہیں جو ٹکراؤ میں پیدا ہونے والے مائیکرو بلیک ہولز سے خارج ہو سکتی ہے۔

یہ ریڈی ایشن جو بخارات بننے کے بعد ذرات کے ایک گروپ کر شکل میں بکھر جاتی ہے جسے ڈیٹیکٹرز میں دیکھا جا سکتا ہے۔

ہاکنگ کی جانب سے ریڈی ایشن کے بارے میں بتائے جانے کو50 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے ان سب اور دیگر کوششوں کے باوجود اور ابھی تک اس کاعملیمشاہدہ نہیں کیا جاسکا۔

جیسا کہ انھوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا جسے سن کر سامعین میں ہنس دیے ترھے کہ ’یہ شرم کی بات ہے، کیونکہ اگر وہ کامیاب ہو جاتے تو میں نوبل انعام جیت لیتا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.