گذشتہ روز امریکی کمپیوٹر سائنسدان لیکس فریڈمین کے یوٹیوب چینل پر شائع ہونے والی پوڈکاسٹ میں انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی ایک جانب پاکستان پر الزامات بھی عائد کرتے دکھائی دیے وہیں وہ مبہم الفاظ میں امن کی خواہش کا اظہار بھی کرتے نظر آئے۔
ہمسایہ ایٹمی طاقتوں پاکستان اور انڈیا کے بیچ تعلقات ایک طویل عرصے سے سرد مہری کا شکار رہے ہیں اور عموماً دونوں اطراف سے بیانات کی صورت میں نوک جھوک چلتی رہتی ہے۔ کبھی ایک جانب سے امن کی خواہش کا اظہار کیا جاتا ہے اور کبھی الزامات کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے۔
تاہم گذشتہ روز امریکی کمپیوٹر سائنسدان لیکس فریڈمین کے یوٹیوب چینل پر شائع ہونے والی ایک پوڈکاسٹ میں انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی جہاں پاکستان پر الزامات عائد کرتے دکھائی دیے وہیں وہ مبہم الفاظ میں امن کی خواہش کا اظہار بھی کرتے نظر آئے۔
لیکس فریڈمین کی جانب سے نریندر مودی سے اس تین گھنٹے سے زیادہ طویل پوڈکاسٹ کے دوران ان کی ذاتی زندگی سے لے کر علاقائی اور عالمی معاملات پر متعدد سوالات پوچھے گئے اور انڈیا کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے سوال پر مودی نے تفصیل سے جواب دیا۔
انڈیا کے وزیرِ اعظم نہ اس دوران بات کرتے ہوئے کہا الزام عائد کیا کہ پاکستان کی جانب سے انڈیا کو 'امن لانے کی ہر کوشش کا جواب جارحیت اور دھوکے سے دیا گیا۔'
انھوں نے کہا کہ 'جب میں وزیرِ اعظم بنا تو میں خصوصی طور پر لاہور امن کی تلاش میں گیا تھا، میں نے پاکستان کو اپنی تقریبِ حلف برداری پر خاص طور پر مدعو کیا تھا۔ تاکہ ہم نیا صفحہ پلٹ سکیں۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم یہی چاہتے ہیں کہ انھیں عقل آئے اور امن کا راستہ اپنا لیں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے رہنے والے بھی امن چاہتے ہیں کیونکہ وہ بھی تنازعوں اوربدامنی میں زندہ رہ رہ کر تنگ آ چکے ہوں گے۔'
تاہم اس کے جواب میں پاکستان کی دفترِ خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں انڈین وزیراعظم کے بیان کو گمراہ کن اور یکطرفہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'انڈیا کا مظلومیت کا فرضی بیانیہ پاکستانی سرزمین پر دہشتگردی کو ہوا دینے اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کو چھپا نہیں سکتا۔'
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ مودی نے اپنے تبصرے میں جموں و کشمیر کے تنازع کے بارے میں بات ہی نہیں کی جو گذشتہ سات دہائیوں انڈیا کی جانب سے اقوامِ متحدہ، پاکستان اور کشمیری عوام کو دی گئی یقین دہانیوں کے باوجود حل طلب ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ انڈیا کو دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے بیرونی ممالک میں ٹارگٹ کلنگ، تخریب کاری اور دہشت گردی کے اپنے ریکارڈ پر غور کرنا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ 'پاکستان نے ہمیشہ جموں و کشمیر کے بنیادی تنازع سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کے حل کے لیے روابط اور نتیجہ خیز مذاکرات کی وکالت کی ہے تاہم، جنوبی ایشیا میں امن و استحکام انڈیا کے سخت نقطۂ نظر کی وجہ سے یرغمال بنا ہوا ہے۔'
ترجمان دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ 'انڈیا سے نکلنے والا پاکستان مخالف بیانیہ دو طرفہ ماحول کو خراب کرتا ہے اور ایسے بیانات سے امن اور تعاون کے امکانات متاثر ہوتے ہیں، یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔'
’جب میں وزیرِ اعظم بنا تو میں خصوصی طور پر لاہور امن کی تلاش میں گیا تھا، میں نے پاکستان کو اپنی تقریبِ حلف برداری پر خاص طور پر مدعو کیا تھا‘مودی نے پوڈکاسٹ میں کیا کہا؟
جب نریندر مودی سے لیکس فریڈمین کی جانب سے پاکستان کے ساتھ روابط اور امن سے متعلق کسی پیشرفت کے بارے میں سوال کیا گیا تو مودی نے بات کا آغاز دونوں ممالک کی تاریخ سے کیا۔
انھوں نے کہا کہ '1947 سے پہلے آزادی کی لڑائی میں ہر کوئی کندھے سے کندھا ملا کر آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا، اور پوری قوم آزادی کی خوشی اور جشن منانے کا انتظار کر رہی تھی۔
'ہم اس بارے میں طویل دورانیے تک بات کر سکتے ہیں کہ اس دوران کیا ہوتا رہا، لیکن اس وقت کے پالیسی بنانے والوں نے انڈیا کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔'
نریندر مودی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے دعویٰ کیا کہ 'بھاری دل اور آنسوؤں کے ساتھ مسلمانوں کی جانب سے ان کے اکثریتی علاقوں کو ایک ملک بنانے کے مطالبے کو تسلیم کیا، انڈیا کے لوگوں نے تو اس حقیقت کو خندہ پیشانی سے تسلیم کر لیا لیکن اس کے بعد خونریزی کے انتہائی افسوسناک دور کا آغاز ہوا۔ پاکستان سے خون آلود لاشوں اور زخمیوں سے بھری ٹرینیں پاکستان سے آنا شروع ہوئیں۔ وہ ایک انتہائی دل دہلا دینے والا منظر تھا۔'
مودی نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ 'جب انھوں نے اپنا مطالبہ منوا لیا تو ہمیں ان سے امید تھی کہ وہ جیئیں گے اور جینے دیں گے لیکن انھوں نے ایک پرامن ہمسائے کی طرح رہنے سے انکار کیا، بارہا انھوں نے انڈیا کے ساتھ لڑائی کرنے کی کوشش کی اور ہمارے خلاف پراکسی جنگ کا آغاز کیا۔'
انھوں نے کچھ توقف کے بعد کہا کہ 'یہ مختلف نظریات کی بات کہنا غلطی ہو گی، وہ کونسا نظریہ ہے جو خونریزی اور دہشت گردی کی برآمد سے پھلتا پھولتا ہے اور ہم اس عفریت کے واحد متاثرہ ممالک نہیں ہے۔ 'دنیا میں جہاں بھی دہشتگردی ہوتی ہے اس کا سرا کسی نہ کسی طرح پاکستان سے ہی جا نکلتا ہے۔'
’حال ہی میں انڈیا اور پاکستان کا میچ ہوا تھا جس کا نتیجہ آپ کو بتا دے گا کہ کون سی ٹیم بہتر ہے‘انھوں نے کہا کہ 'ستمبر 11 کے (ورلڈ ٹریڈ) حملوں کی مثال لے لیں، ان کے مرکزی ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن کو آخر کار کہاں سے پکڑا گیا تھا؟ اس نے پاکستان میں پناہ لی ہوئی تھی۔
'دنیا بھی اب اس بات کو سمجھ چکی ہے کہ دہشتگردی اور دہشت کا نظریہ پاکستان میں کی بنیادوں میں موجود ہے۔ آج یہ بدامنی کا مرکز بن چکا ہے، نہ صرف انڈیا کے لیے بلکہ دنیا کے لیے بھی۔'
انڈین وزیرِ اعظم کا مزید کہنا تھا کہ 'اور ہم نے ان سے متعدد بار پوچھا ہے کہ اس سے کیا اچھا مل سکتا ہے؟ ہم نے ان پر زور دیا ہے کہ وہ ریاست کی سرپرستی میں پنپنے والی دہشت گردی کے راستے کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیں۔ آپ کو کیا ملے گا اپنی قوم کو سرکش گروہوں کے ہاتھوں میں دے کر۔
'جب میں وزیرِ اعظم بنا تو میں خصوصی طور پر لاہور امن کی تلاش میں گیا تھا، میں نے پاکستان کو اپنی تقریبِ حلف برداری پر خاص طور پر مدعو کیا تھا۔ تاکہ ہم نیا صفحہ پلٹ سکیں۔ لیکن امن لانے کی ہر کوشش کا جواب جارحیت اور دھوکےہ سے دیا گیا۔'
خیال رہے کہ سنہ 2015 میں دسمبر کے مہینے میں نریندر مودی کی جانب سے پاکستان کا مختصر دورہ کیا گیا تھا۔ اس وقت کے وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے انھیں چند گھنٹوں کے دورے کے دوران رائیونڈ میں انھیں اپنی رہائش گاہ لے گئے تھے۔
تاہم اس سے اگلے ہی ماہ یعنی سنہ 2016 کے آغاز میں پٹھان کوٹ میں انڈین ایئربیس پر ایک حملہ ہوا تھا جس کے بعد انڈیا نے اس میں پاکستان کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا اور اس حملے کا ذمہ دار کشمیری عسکریت پسند گروپ جیشِ محمد کر قرار دیا تھا۔
مودی نے کہا ہے کہ 'ہم یہی چاہتے ہیں کہ انھیں عقل آئے اور امن کا راستہ اپنا لیں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے رہنے والے بھی امن چاہتے ہیں کیونکہ وہ بھی تنازعوں اوربدامنی میں زندہ رہ رہ کر تنگ آ چکے ہوں گے۔
'وہ بھی مسلسل دہشت میں زندگی گزارنے سے تنگ آ چکے ہوں گے، جہاں معصوم بچے بھی ہلاک کر دیے جاتے ہیں اور ان گنت زندگیاں تباہ کر دی جاتی ہیں۔'
اس سنجیدہ گفتگو کے بعد ان سے لیکس کی جانب سے پوچھا گیا کہ وہ کیا سمجھتے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان میں سے کس کی ٹیم زیادہ اچھی ہے۔ اس پر مودی نے کہا کہ 'میں کھیلوں کی تکنیک کے حوالے سے کوئی ماہر تو نہیں، اور کھیلوں کے ماہر ہی بتا سکتے ہیں کہ بہتر تکنیک کس کی ہے اور کون بہتر کھلاڑی ہے لیکن حال ہی میں انڈیا اور پاکستان کا میچ ہوا تھا جس کا نتیجہ آپ کو بتا دے گا کہ کون سی ٹیم بہتر ہے۔'
خیال رہے کہ وہ آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی میں 23 فروری کو پاکستان اور انڈیا کے درمیان کھیلے گئے میچ کی بات کر رہے تھے جس میں انڈیا نے پاکستان کو باآسانی چھ وکٹوں سے شکست دی تھی۔