ام علی: وہ ’ناقابل فراموش‘ میٹھا پکوان جس کے پیچھے قتل کی پراسرار داستان چھپی ہے

اس کی مقبولیت کی وجہ سے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ علی کون ہیں اور علی کی والدہ کون ہیں؟

اگست 2011 کا دن تھا جب میں کویت میں اپنے پسندیدہ ریسٹورنٹ میں بیٹھی افطار پلیٹر کا انتظار کر رہی تھی۔ تازہ پھلوں کے جوس، کھجوروں، ویجیٹیبل سموسہ، شیش توک، کافی اور میٹھے سے بھرپور سب کچھ ہی نہایت لذیذ تھا۔

لیکن تقریبا ایک دہائی بعد بھی میرے ذہن اور میری زبان پر جو ذائقہ نقش ہے، وہ ’ام علی‘ نامی سادہ مصری میٹھے پکوان کا ہے جس کی تاریخ بھی حیران کن ہے۔

اب 2025 میں آتے ہیں اور میں قاہرہ میں ایک سٹور کے باہر کھڑی ام علی کھا رہی ہوں۔ اس بار میرا ب12 سالہ بیٹا بھی میرے ساتھ ہے لیکن ام علی سے جیسے میرا دل ہی نہیں بھر رہا۔ اس بات کے باوجود کہ میں گزشتہ 14برس کے دوران مشرق وسطی کے تقریبا ہر شہر میں ام علی کا ذائِقہ چکھ چکی ہوں۔

نرمین منصور سابق مصری سفارت کار ہیں جو اب ایک فوڈ بلاگ چلاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ام علی کا ایک اچھا پیالہ ناقابل فراموش تجربہ ہوتا ہے۔ یہ ذائقے اور غزائیت کے بہترین امتزاج ہے اور مصری پکوانوں کا سٹار ہے۔‘

ام علی ایک نفیس بریڈ پڈنگ ہوتی ہے جسے مسالہ ملے دودھ، پف پیسٹری، چینی اور بھنے ہوئے بادام یا پستے سمیت کریم کی مدد سے تیار کیا جاتا ہے۔ روایتی طور پر اسے 20 سے 25 منٹ تک مٹی کے برتن میں پکا کر تیار کیا جاتا ہے تو اس کی خستہ سطح اور رشیمی سی تہہ اسے ایک منفرد ہکوان بناتی ہے۔

ام علی مصر ہی نہیں بلکہ پورے مشرق وسطی میں مقبول پکوان ہے جو عید اور رمضان میں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتی ہے۔ رواں سال کے آغاز میں بی لبان نامی کمپنی نے انسٹاگرام پر ام علی کی ایک ویڈیو لگائی تو اسے ہزاروں لوگوں نے پسند کیا۔

مصطفی عمران قاہرہ میں میرے ٹور گائیڈ تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ امرا اور عام لوگوں کو دستیاب سستا پکوان ہے، جو آسانی سے ہضم ہوتا ہے اور گھر میں موجود اجزا سے جلدی تیار ہو جاتا ہے، اور اسی لیے اتنا مقبول بھی ہے۔‘

تاہم اس کی مقبولیت کی وجہ سے ایک سوال بھی جنم لیتا ہے کہ علی کون ہیں اور علی کی والدہ کون ہیں؟

عربی زبان میں بھی ام علی، یعنی علی کی والدہ، کسی میٹھے پکوان کا غیر معمولی نام ہے۔اس سے بھی زیادہ غیر معمولی بات یہ ہے کہ بہت سے مصری لوگوں نے مجھے بتایا کہ اس ڈش کا نام ایک قتل کی وجہ سے رکھا گیا۔

ام علی اس مملوک شاہی خاندان کے پہلے سلطان کی پہلی اہلیہ تھیں جس نے مصر پر 13ویں صدی سے 16ویں صدی تک حکمرانی کی۔ 1250 میں ام علی کے شوہر، عزالدین ایبک، نے ایوبی خاندان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور مصر میں مملوک حکمرانی کی ابتدا کی۔

عزالدین نے آخری ایوبی ملکہ، ال در، سے شادی کی تاکہ ان کی حکومت کو ایک سند مل جائے۔ یہ رشتہ سیاسی اتحاد تھا اور ال در کے اکثر اپنے شوہر سے اختلافات رہتے تھے۔ اس کہانی کے مطابق ایک وقت ایسا آیا جب ال در نے عزالدین کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا، وہ بھی غسل لیتے وقت۔

ام علی نے اپنے شوہر کی موت کا بدلہ لینے کی ٹھانی اور لکڑی کے ڈنڈوں سے ان کو قتل کر دیا۔ ال در کی ہلاکت کے بعد ام علی نے اپنے خانساماں کو ہدایت دی کہ اس کامیابی کا جشن کسی خاص پکوان سے منایا جائے اور یوں مبینہ طور پر ان کے اعزاز میں ام علی کی ڈش پہلی بار تیار ہوئی۔

اگرچہ میں یہ سن کر حیران ہوئی کہ ام علی کے پیچھے قتل اور دھوکے کی داستان چھپی ہے، تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ اس پکوان کا ارتقا اس سے زیادہ پیچیدہ ہے اور یہ اب بھی کئی مورخین کے لیے ایک پہیلی ہے۔

ڈاکٹر منات قاہرہ میں امریکی یونیورسٹی میں خوراک کی تاریخ کی ماہر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’تاریخی ریکارڈ نہیں ہے جو بتا سکے کہ ام علی پکوان کا ال در کے قتل سے واقعی کوئی تعلق تھا یا نہیں اگرچہ کہ ہم یہ بات ضرور یقینی طور پر جانتے ہیں کہ ملکہ ام نے ہی ال در کو قتل کیا تھا۔ لیکن ہمارے پاس اس پکوان کو اس قتل سے جوڑنے کے لیے شواہد نہیں ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نہیں جانتی کہ یہ نام کیسے پڑا تھا۔‘ ام علی تیار کرنے کی سب سے پرانی ترکیب 19ویں صدی کی ایک عربی کتاب میں پائی گئی جس کی وجہ سے یہ معاملہ اور بھی پراسرار ہوتا ہے۔

تاہم نرمین منصور 13ویں صدی کے ام علی سے جڑے بیانیے کو کسی حد تک سچ مانتی ہیں۔ ان کے مطابق مصر میں روقاق نامی پتلی روٹی زمانہ قدیم سے استعمال ہوتی رہی ہے اور فرعون کے کچن نامہ کتاب کے مطابق بھی اس کے شواہد موجود ہیں۔

نرمین کہتی ہیں کہ ’یہ ممکن ہے کہ ام علی کے خانساماں نے محل میں بچی ہوئی روقاق دودھ کے ساتھ پکا کر یہ ڈش تیار کی ہو۔‘ کہانی کی سچائی جو بھی ہو، اب ال در کے قاتل سے یہ نام جڑ چکا ہے اور مصر میں ام علی کو اچھائی کی برائی پر فتح کے طور پر جانا جاتا ہے۔

مصطفی عمران کہتے ہیں کہ ’ہم اس کہانی کو انصاف کی فتح کی وجہ سے پسند کرتے ہیں اور اس لیے بھی کہ مصریوں کو کہانیاں پسند ہیں تو یوں یہ ڈش مشہور ہو گئی۔‘ 2004 کی ایک مشہور عربی ڈرامہ سیریز میں بھی مصری اداکارہ نے ام علی کی کہانی دہرائی ہے۔

رمضان میں اس پکوان کو مرکزی مقام حاصل ہو جاتا ہے کیوں کہ یہ گلوکوز سے خالی جسم کو فوری توانائی فراہم کرتی ہے۔ نرمین منصور کے مطابق ام علی میں ’کیلشیئم اور پروٹین سمیت وٹامن ہوتے ہیں، کاربوہائڈریٹ ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود دیگر علاقائی میٹھے پکوانوں کے مقابلے میں اس میں کم کیلوریز ہوتی ہیں۔‘

ایک اور نکتہ یہ بھی ہے کہ اسے تیار کرنا مشکل نہیں۔ نرمین کے مطابق ’بہت سادہ سے اجزا درکار ہوتے ہیں جو ہر مصری کچن میں پائے جاتے ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.