بائیس نومبر 1963 کی صبح سورج اپنی آب و تاب سے چمک رہا تھا جب ایک سنائپر کی گولی امریکی شہر ڈیلس کی فضا کو چیرتی ہوئی اس وقت کے صدر جان ایف کینیڈی کو لگی اور یہاں امریکی تاریخ کے سب سے ہائی پروفائل قتل کے بارے میں سازشی نظریات پنپنا شروع ہوئے جو آج تک نہیں تھم سکے۔
ٹیکساس کے گورنرآگے جبکہ جان ایف کینیڈی اور جیکی کینیڈی پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھےبائیس نومبر 1963 کی صبح سورج اپنی آب و تاب سے چمک رہا تھا جب ایک سنائپر کی گولی امریکی شہر ڈیلس کی فضا کو چیرتی ہوئی اس وقت کے صدر جان ایف کینیڈی کو لگی اور یوں امریکی تاریخ کے سب سے ہائی پروفائل قتل کے بارے میں سازشی نظریات پنپنا شروع ہوئے جو آج تک نہیں تھم سکے۔
اب صدر ٹرمپ کی جانب سے ایک صدارتی حکمنامے پر دستخط کرنے کے بعد امریکہ نے صدر جان ایف کینیڈی کے قتل سے متعلق 'تمام دستاویزات' جاری کر دیے ہیں تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ کیونکہ وہ افراد جو اس قتل کے تحقیقات میں براہ راست شامل تھے اب اس دنیا میں نہیں ہیں، اس لیے اس حوالے سے نئے دستاویزات بھی کوئی خاطر خواہ انکشاف کا باعث نہیں بنیں گے۔
اس کیس پر سالوں سے تحقیق کرنے والے ماہرین ان ہزاروں کاغذات کا جائزہ لے رہے ہیں اور ان میں سے تمام تاحال آن لائن دستیاب نہیں ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اس حوالے سے طویل وقت درکار ہو گا اور یہ کہ ان دستاویزات سے انھیں کسی غیر معمولی پیش رفت کی امید نہیں ہے۔
ماضی کی امریکی حکومتیں اس کیس کے حوالے سے لاکھوں دستاویزات منظرِ عام پر لا چکی ہیں لیکن قومی سلامتی کے خدشات کے پیشِ نظر کچھ دستاویزات اب تک خفیہ یا کلاسیفائیڈ رکھے گئے تھے۔
بہت سے امریکی اب بھی مانتے ہیں کہ بندوق بردار ملزم لی ہاروی اوسوالڈ، جن پر یہ گولی چلانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے نے اکیلے یہ کام نہیں کیا تھا۔
اس موضوع پر ہزاروں کتابیں، دستاویزی فلمیں، پوڈ کاسٹس، ٹی وی شوز اور ہالی ووڈ فلمیں بنائی جا چکی ہیں جن میں 22 نومبر 1963 کے واقعات اور اس کے پوری دنیا پر ہونے والے اثرات کے بارے میں تفصیلات بتائی گئی ہیں۔
تاہم پھر بھی اس بارے میں جتنی زیادہ معلومات سامنے آتی ہیں اتنا ہی اس پراسرار قتل کے حوالے سے شک اور ابہام بڑھتا جاتا ہے۔

قتل کے واقعے کے حوالے سے حقائق
امریکہ میں عام طور پر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ اس کیس کے اصل حقائق سرکاری موقف سے مختلف ہیں اور چند مورخین کے مطابق قتل کی اس واردات کے بعد امریکی عوام کا حکومت پر اعتماد کم ہونا شروع ہو گیا۔
جان ایف کینیڈی کے قتل کے بنیادی حقائق طےشدہ ہیں اور سب کو معلوم ہیں۔
22 نومبر 1963 کو صدر جان ایف کینیڈی اپنی اہلیہ جیکی کینیڈی اور ٹیکساس ریاست کے گورنر جان کونالی جونیئر اور ان کی اہلیہ کے ساتھ ایک کنورٹیبل گاڑی میں ڈیلس کے ڈیلی پلازہ کے سامنے سے گزر رہے تھے جب اچانک گولیاں چلیں۔
صدر کینیڈی کو سر اور گردن جبکہ گورنر کو پیٹھ پر گولی لگی۔ جان ایف کینیڈی کو قریبی پارک لینڈ ہسپتال لے جایا گیا جہاں ان کی موت واقع ہوئی۔ اس واقعے میں گورنر زخمی ہوئے لیکن زندہ بچ گئے۔
حکومتی انکوائری کے بعد وارن کمیشن رپورٹ میں لی ہاروی اوسوالڈ نامی شخص کو اس واقعے کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ شواہد نے بھی اس کی تصدیق کی۔ بعد میں لی ہاروی کو پولیس کی حراست میں ہی گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایک ہی گولی صدر جان ایف کینیڈی کے جسم سے گزرتی ہوئی گورنر کونالی کو لگی تھی۔ یہ اس بات کی وضاحت بھی تھی کہ اس حملے میں ایک ہی مسلح شخص کا کردار تھا۔ اس نتیجے کو 'سنگل بلٹ تھیوری' یا 'جادوئی گولی کا نظریہ' بھی کہا جاتا ہے۔
ڈیلاس کے ایک پولیس اہلکار نے صدر جان ایف کینیڈی کو قتل کرنے کے لیے استعمال ہونے والی رائفل اٹھا رکھی ہےکمیشن نے اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے اس حقیقت پر بھی کسی حد تک انحصار کیا کہ ہسپتال میں گورنر کونالی جس سٹریچر پر زیرعلاج تھے وہاں سے ایک گولی ملی تھی۔
اس وقت کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ گولی کہاں سے آئی لیکن کمیٹی نے نتیجہ اخذ کیا کہ جس وقت ڈاکٹر گورنر کا علاج کر رہے تھے، اسی وقت یہ گولی ان کے جسم سے نکلی ہو گی۔
تاہم اس سرکاری موقف کے ناقدین نے جادوئی گولی کے نظریے پر یقین نہیں کیا کہ ایک ہی گولی دو افراد میں اتنے زخم کی وجہ ہو سکتی ہے۔
سنہ 2023 میں اس حوالے سے ایک اہم پیش رفت سامنے آئی تھی جب امریکی سیکرٹ سروس کے سابق ایجنٹ پال لانڈس جنھوں نے امریکی صدر کی ہلاکت کو بہت قریب سے دیکھا تھا نے اپنی سوانح عمری میں دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے جان ایف کینیڈی کی گاڑی سے ملنے والی ایک گولی ہسپتال میں صدر کے سٹریچر پر چھوڑ دی تھی۔
واضح رہے کہ عرصہ دراز سے جان ایف کینیڈی کا قتل سازشی نظریوں کا مرکز رہا جس میں ایک سوال یہ بھی اٹھتا رہا کہ اس واردات میں کتنے لوگ شامل تھے، اس کے پیچھے دراصل کون تھا اور صدر کو کتنی گولیاں لگی تھیں۔
امریکہ میں عام طور پر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ اس کیس کے اصل حقائق سرکاری موقف سے مختلف ہیں اور چند مورخین کے مطابق قتل کی اس واردات کے بعد امریکی عوام کا حکومت پر اعتماد کم ہونا شروع ہو گیا۔
لی ہاروی اوسوالڈپال لانڈس کی کتاب میں کیا لکھا ہے؟
اس دن پال لانڈس صدر کی اہلیہ جان کینیڈی کے ساتھ تھے۔ جب یہ واقعہ پیش آیا تو وہ صدر سے کچھ ہی فٹ دور تھے اور انھوں نے جان ایف کینیڈی کے سر پر گولی لگتے ہوئے دیکھا تھا۔
پھر بھگڈر مچ گئی اور پال لانڈس نے اس وقت جو کیا، وہ انھوں نے دہائیوں تک چند افراد کے علاوہ کسی کو نہیں بتایا۔
نیو یارک ٹائمز کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں پال نے بتایا کہ جب گاڑیوں کا قافلہ ہسپتال پہنچا تو انھوں نے صدر کی گاڑی میں ایک گولی پڑی ہوئی دیکھی۔
پال نے وہ گولی اٹھائی اور اپنی جیب میں رکھ لی۔ ان کے مطابق تھوڑی ہی دیر میں وہ ایمرجنسی میں صدر کے ساتھ تھے جہاں انھوں نے اس گولی کو جان ایف کینیڈی کے سٹریچر پر رکھ دیا تاکہ یہ بطور ثبوت صدر کے جسم کے ساتھ ہی رہے اور ذمہ دار لوگوں تک پہنچ جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ 'موقع واردات کو محفوظ بنانے کے لیے کوئی بھی نہیں تھا اور یہ میرے لیے پریشان کن چیز تھی۔'
'سب کچھ اتنا جلدی میں ہو رہا تھا اور مجھے ڈر تھا کہ میرے پاس ایک اہم ثبوت ہے جسے غائب یا ضائع نہیں ہونا چاہیے۔'
تاہم وہ اس ثبوت کو خود اس سے پہلے کبھی سامنے نہیں لائے۔ انھوں نے کسی سرکاری رپورٹ میں اس کا تذکرہ نہیں کیا اور نہ ہی اس وقت وارن کمیشن نے ان کا انٹرویو کیا تھا۔
امریکی عوام پر اس قتل کا ایک گہرا اثر پڑامورخ جیمز روبنالٹ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'وہ (پال) بہت دیر سے سوئے نہیں ہوئے تھے اور اس وقت بھی ان کو مزید ڈیوٹی کرنی تھی جبکہ وہ نفسیاتی مسائل سے بھی متاثر تھے۔'
جیمز کا کہنا ہے کہ 'پال اس گولی کے بارے میں بھول گئے۔ وہ اس وقت جو کچھ ہو رہا تھا اس میں کھو گئے۔'
کئی سال تک پال نے جان ایف کینیڈی کے قتل کے بارے میں یا اس سے جڑے سازشی نظریوں کے بارے میں کچھ پڑھنے کی کوشش تک نہیں کی لیکن ایک وقت آیا جب انھوں نے اپنی کہانی دنیا کو سنانے کا فیصلہ کیا۔
جان ایف کینیڈی کی موت کے حوالے سے موجود پراسراریت اور دلچسپی کی مختلف وجوہات ہیں۔ ناٹنگھم یونیورسٹی کے پیٹر لنگ کا کہنا ہے کہ 'کینیڈی زیادہ تر لوگوں کے لیے ایک عظیم صدر تھے۔ وہ پہلے ٹیلی ویژن صدر تھے، جو ایک نوجوان صدر تھے جن کی خوبصورت بیوی اور پیارے بچے تھے۔
ان کے مطابق کینیڈی کی ہلاکت کے بعد جیکی کینیڈی کو 20 لاکھ سے زیادہ تعزیتی خطوط لکھے گئے تھے۔
اس کے علاوہ اس بارے میں لوگوں کی دلچسپی اس لیے بھی زیادہ ہے کیونکہ اس قتل کی ویڈیو بنی تھی۔ ڈیلس کے ایک درزی کے گھر کے مووی کیمرا سے یہ 26 سیکنڈ کی فوٹیج بنی تھی جو صدر کے دورے کا دور کھڑے جائزہ لے رہے تھے۔
جیکی کینیڈی کی وہ تصویر جس میں گلابی رنگ کے کپڑوں میں گاڑی کے پیچھے سہمی ہوئی بیٹھی ہیں تمام امریکیوں کے ذہنوں پر نقش ہو چکا تھا۔
زپروڈر کو پہلا سٹیزن جرنلسٹ قرار دیا جاتا ہے جن کی فوٹیج نے جرائم کے حوالے سے فوٹیج کے لیے روایتی حدود کو تبدیل کر دیا۔
اس رپورٹ کے حوالے سے ابہام اور شکوک جلد ہی سامنے آنے لگے تھے اور اکثر سوال آج بھی باقی ہیں۔ پروفیسر لنگ کہتے ہیں کہ 'کینیڈی کی ہلاکت کے حوالے سے مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم کبھی بھی اوسوالڈ کی کہانی جان ہی نہیں پائے۔
'آپ کی حراست میں ایک ایسا شخص تھا جو بظاہر ملزم تھا، حالانکہ اس نے پولیس کو یہ کہا تھا وہ معصوم ہے، لیکن اس پر کبھی مقدمہ چل ہی نہیں سکا۔'
سنہ 2017 میں امریکہ میں کیے گئے ایک سروے میں یہ پتا چلتا ہے کہ 61 فیصد یہ سمجھتے ہیں کہ اس قتل میں کوئی اور ملوث تھا۔ ایک ایسے ملک پر جہاں عوام اکثر معاملات پر اختلاف کرتے دکھائی دیتے ہیں، یہ وہ معاملہ ہے جس پر کافی حد تک اتفاق دکھائی دیتا ہے۔