اترپردیش میں سالار مسعود غازی کی یاد میں نیزہ میلے پر تنازع: ’سومناتھ کو لوٹنے والوں کے نام پر میلہ لگانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی‘

سماج وادی پارٹی نے اس فیصلے پر تنقید کی ہے۔ اکھلیش یادو نے کہا ہے کہ 'نیزا میلہ میں ہر مذہب اور ذات کے لوگ ملتے ہیں، اگر کمبھ (میلے) کی تعریف ہو رہی ہے تو دوسرے میلوں میں کیوں نہیں؟'
مزار
BBC

گذشتہ سال اتر پردیش کے سنبھل میں ایک مسجد کے سروے سے شروع ہونے والے پرتشدد واقعات میں چار افراد مارے گئے تھے۔

اس کے بعد سے سنبھل مسلسل خبروں میں ہے اور اب پولیس نے سید سالار مسعود غازی کی یاد میں منعقد ہونے والے نیزہ میلے کی اجازت بھی دینے سے انکار کر دیا ہے۔

یہ میلہ ہر سال ہولی کے بعد منعقد ہوتا ہے۔ اس بار میلے کی انتظامی کمیٹی نے 18 مارچ کو پرچم کشائی کی منصوبہ بندی کر رہی تھی جبکہ میلہ 25 مارچ سے شروع ہونا تھا۔

سنبھل کے ایڈیشنل سپرانٹینڈنٹ آف پولیس شریش چندر نے کہا ہے کہ ’کسی بھی حملہ آور کے نام پر میلہ نہیں لگایا جائے گا‘ اور ایسا کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ صورتحال کے پیش نظر پولیس نے علاقے میں فلیگ مارچ بھی کیا۔

میلے کی آرگنائزنگ کمیٹی کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ میلے کے انعقاد کی اجازت کے لیے انتظامیہ سے بات کریں گے اور اگر ضرورت پڑی تو عدالت سے رجوع کریں گے۔

سماج وادی پارٹی نے اس فیصلے پر تنقید کی ہے۔ اکھلیش یادو نے کہا ہے کہ ’نیزہ میلے میں ہر مذہب اور ذات کے لوگ ملتے ہیں، اگر کمبھ (میلے) کی تعریف ہو رہی ہے تو دوسرے میلوں میں کیوں نہیں؟‘

مزار
BBC

جھگڑا کیا ہے، انکار کے پیچھے کیا منطق ہے؟

سنبھل کے صدر کوتوالی کے چمن سرائے علاقے میں ہولی کے بعد کئی دہائیوں سے اس میلے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ سید سالار مسعود غازی کی یاد میں ہر سال نیزہ میلہ منعقد کیا جاتا ہے۔

پولیس کے مطابق اعتراض اٹھانے والی جماعت کا کہنا تھا کہ سید سالار مسعود غازی نے ملک کو نقصان پہنچایا، اس لیے ان کے نام پر میلہ لگا کر ان کی شان میں گستاخی کرنا درست نہیں۔

اس اعتراض کے درمیان پیر کو نیزہ میلہ آرگنائزنگ کمیٹی کے ارکان نے ایڈیشنل سپرنٹینڈنٹ آف پولیس شریش چندر سے ملاقات کی۔ ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نے کمیٹی سے پوچھا کہ یہ میلہ کس کے نام پر منعقد کیا جاتا ہے۔

اس کے بعد شریش چندر نے اپنے بیان میں کہا کہ ’سومناتھ مندر کو لوٹنے والوں کے نام پر میلہ لگانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ وہ ایک لٹیرا تھا اور اس نے سومناتھ مندر کو لوٹا تھا۔ اگر تم ایسے لٹیرے کی یاد میں میلہ لگاتے ہو تو تم غدار ہو۔‘

انھوں نے کہا کہ ’تاریخ کے مطابق وہ حملہ آور محمود غزنوی کا کمانڈر تھا، اس نے سومناتھ کو لوٹا اور ملک میں قتل عام کروایا، یہ تاریخ میں درج ہے، یہاں کسی لٹیرے کی یاد میں کوئی تقریب منعقد نہیں کی جائے گی، اگر کسی نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔‘

اے ایس پی کے بیان پر جب بی بی سی ہندی نے سنبھل کے ایس پی کرشنا کمار وشنوئی سے بات کی تو انھوں نے کہا: ’اے ایس پی اپنی بات کو صحیح طریقے سے پیش کر سکتے تھے، لیکن ہماری ترجیح یہ ہے کہ امن و امان خراب نہ ہو، ماحول فرقہ وارانہ طور پر حساس ہے، امن برقرار رکھنا ہماری ذمہ داری ہے اور ہموہ کر رہے ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ کسی بھی وجہ سے کوئی تنازع کھڑا ہو۔‘

تاہم انتظامی کمیٹی کے شاہد علی مسعودی اور قاری کمال کو انتظامیہ سے میلے کے انعقاد کی اجازت نہیں ملی۔ شاہد علی مسعودی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن بات نہ ہو سکی۔

سالار مسعود غازی کون تھا؟

سید سالار مسعود غازی نے 11ویں صدی میں سنبھل کے راجپوت بادشاہ کو ایک جنگ میں شکست دی تھی۔ اس کے بعد وہ ریاست اتر پردیش کے ضلع بہرائچ کی طرف چلے گئے جہاں انھوں نے کئی بادشاہوں سے لڑائیاں لڑیں۔

وہ 1034 عیسوی میں سہیل دیو کے خلاف جنگ کے دوران شدید زخمی ہو کر ہلاک ہو گئے تھے۔ انھیں اسی جگہ دفن کیا گیا جہاں اب ان کی درگاہ واقع ہے۔

درگاہ کمیٹی بہرائچ کے بقا اللہ حبیب کے مطابق 'جب سید سالار مسعود غازی کی وفات ہوئی تو اس وقت ان کی عمر صرف 18 سال 4 ماہ تھی۔ انھیں ایک صوفی بزرگ سمجھا جاتا ہے۔ ان کے عرس میں تمام مذاہب کے لوگ آتے ہیں، جو پنجابی کیلنڈر کے مطابق جیٹھ کے مہینے میں ہوتا ہے اور تقریباً ایک ماہ تک جاری رہتا ہے۔'

مقامی لوگ انھیں 'بالے میاں' کے نام سے بھی جانتے ہیں اور عقیدت مند ان کے مزار پر چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔

بہرائچ کے ایک مقامی صحافی عظیم مرزا کے مطابق سنہ 1034 میں سید سالار مسعود غازی کی وفات کے بعد ان کا مقبرہ سنگھا پاراسی (جو اب بہرائچ کا ایک حصہ ہے) نامی جگہ پر بنایا گیا۔

عظیم مرزا بتاتے ہیں کہ سنہ 1250 میں دہلی کے سلطان ناصرالدین محمود نے اس قبر کو مقبرے میں تبدیل کر دیا تھا تب سے وہاں میلہ لگتا ہے اور وہاں جانے والے کچھ زائرین نے وہاں سے ایک اینٹ لے کر اپنے گاؤں میں بھی میلہ لگانا شروع کر دیا، اس طرح تقریباً 1900 مقامات پر سید سالار مسعود غازی کے نام پر میلہ لگتا ہے۔

بہرائچ ضلع انتظامیہ کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق یہ علاقہ 'بھر خاندان' کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔ چینی سیاح ہیوین سانگ اور فاہین کے علاوہ ابن بطوطہ نے بھی اس جگہ کا دورہ کیا۔

ضلعی انتظامیہ کے مطابق یہ درگاہ 11ویں صدی کے ایک صوفی بزرگ کی ہے۔ اس کی تعمیر فیروز شاہ تغلق نے کروائی تھی۔

مورخین کا کیا کہنا ہے؟

ان دونوں کی تفصیل 17ویں صدی میں فارسی زبان میں لکھی گئی کتاب 'میراتِ مسعودی' میں موجود ہے۔ یہ کتاب عبدالرحمن چشتی نے 1620 میں لکھی، یعنی سالار مسعود غازی کی وفات کے تقریباً 600 سال بعد۔ اس لیے بہت سے مورخین اس کتاب کی صداقت پر سوالات اٹھاتے رہے ہیں۔

مؤرخ شاہد امین نے کتاب 'دی آفرلائف آف واریئر سینٹ غازی میاں' میں لکھا ہے کہ عبدالرحمٰن چشتی نے میراتِ مسعودی میں جو کچھ لکھا ہے اس کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ملتا۔

شاہد امین نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ 'میراتِ مسعودی' عبدالرحمن چشتی کا تخیل بھی ہو سکتا ہے۔

اس سے پہلے امیر خسرو نے 1291 میں اپنے خطوط میں سید سالار مسعود غازی کا ذکر کیا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسعود غازی، عبدالرحمن چشتی کی تصنیف سے پہلے ہی مشہور تھے۔

شاہد امین لکھتے ہیں کہ غزنی کی فوج میں سید سالار مسعود غازی کے کردار کے بارے میں میراث مسعودی میں کوئی واضح ذکر نہیں ہے۔

غازی بمقابلہ سہیل دیو

سید سالار مسعود غازی کے نام پر ایک عرصے سے سیاست چل رہی ہے۔ بی جے پی کے علاوہ سہیل دیو کو ان کی مخالفت میں ہیرو بتایا گیا تھا۔ اوم پرکاش راج بھر نے سہیل دیو کے نام پر اپنی سیاسی پارٹی بنائی ہے، وہیں بی جے پی نے بھی سہیل دیو کو اہمیت دینا شروع کر دی ہے۔

سالار مسعود غازی کو شکست دینے والے راجہ سہیل دیو کی یادگار کا سنگ بنیاد وزیر اعظم نریندر مودی نے 16 فروری 2021 کو رکھا تھا۔

بی جے پی لیڈر امت شاہ نے 2016 سے سہیل دیو کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے۔ اتر پردیش میں، بی جے پی کی نظر راج بھر برادری کے ووٹوں پر لگی ہوئی ہے، جو سہیل دیو کو اپنا اجداد مانتی ہے۔

بی جے پی لیڈروں نے اپنی تقریروں میں اکثر سالار مسعود غازی کی مخالفت کرتے ہوئے سہیل دیو کو حقیقی ہیرو قرار دیا ہے۔

اخبار نوبھارت ٹائمز کے مطابق مئی 2024 میں بہرائچ میں انتخابی مہم کے دوران وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا تھا کہ 'مہاراجہ سہیل دیو راج بھر کی آزادی کے بعد سے توہین کی جاتی رہی ہے۔ مہاراجہ سہیل دیو، جس نے سومناتھ مندر کے مجرم سالار مسعود غازی کو قتل کیا اور بہرائچ میں اس کا مقبرہ بنایا کو عزت نہیں دی گئی۔'

عظیم مرزا نے کہا کہ 'سید سالار مسعود غازی کو حملہ آور کہنے کی بات 2014 کے بعد زور پکڑنے لگی۔ جب یوگی آدتیہ ناتھ ایم پی تھے تب بھی انھوں نے ایسے الفاظ استعمال کیے تھے۔ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد انھوں نے مہاراجہ سہیل دیو کو زیادہ اہمیت دی، اور راج بھر برادری کے لیڈروں نے اس معاملے پر سرمایہ کاری کرنا شروع کر دی۔'

فی الحال پچھلے سال کے تشدد کے بعد سنبھل ہولی اور رمضان کی وجہ سے خبروں میں تھا اور اب ایک بار پھر یہ تنازع سنبھل کو سرخیوں میں لے آیا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.