رنگ میگزین، جسے اکثر باکسنگ کی بائبل کہا جاتا ہے، نے انھیں 'اب تک کے سب سے بڑے ہیوی ویٹ میں سے ایک' کے طور پر بیان کرتے ہوئے لکھا ' انھیںہمیشہ کھیل کے آئیکون کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔'

معروف باکسر جارج فورمین 76 برس کی عمر میں وفات پا گئے ہیں۔
رنِگ میں بگ جارج کے نام سے مشہور امریکی کھلاڑی نے 1968 میں اولمپک گولڈ میڈل جیتا اور 21 سال کے وقفے سے دو بار ورلڈ ہیوی ویٹ ٹائٹل اپنے نام کیا۔
وہ 1974 میں اپنی مشہور رمبل ان دی جنگل فائٹ میں محمد علی سے اپنا پہلا ٹائٹل ہار گئے تھے۔
تاہم مجموعی طور پر انھوں نے 76کامیابیاں حاصل کیں جن میں 68ناک آؤٹ مقابلے بھی شامل ہیں جو محمد علی سے تقریباً دوگنا ہیں۔ فورمین 1997 میں ریٹائر ہوئے۔
ان کے اہل خانہ نے جمعے کی رات انسٹاگرام پر ایک پوسٹ میں کہا : ’ہمارے دل ٹوٹ چکے ہیں۔ ایک عقیدت مند مبلغ، ایک وفادار شوہر، ایک محبت کرنے والا باپ، اور ایک قابل فخر دادا، انھوں نے غیر متزلزل ایمان، عاجزی اور مقصد سے بھرپور زندگی گزاری۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ 'وہ ایک انسان دوست، اولمپیئن اور دو مرتبہ ہیوی ویٹ چیمپیئن رہے ہیں، ان کا بہت احترام کیا جاتا ہے، وہ اچھائی کے لیے ایک طاقت، نظم و ضبط، عزم اور اپنی وراثت کے محافظ تھے، جو اپنے نام کو برقرار رکھنے کے لیے انتھک جدوجہد کر رہے تھے۔'
سابق عالمی ہیوی ویٹ چیمپیئن مائیک ٹائسن نے کہا کہ ’باکسنگ اور اس شعبے میں فورمین کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔‘
رنگ میگزین، جسے اکثر باکسنگ کی بائبل کہا جاتا ہے، نے انھیں 'اب تک کے سب سے بڑے ہیوی ویٹ میں سے ایک' کے طور پر بیان کرتے ہوئے لکھا ’انھیں ہمیشہ کھیل کے آئیکون کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔‘

جارج فورمین کی زندگی اور کریئر
فورمین 10 جنوری 1949 کو مارشل، ٹیکساس میں پیدا ہوئے تھے، اور چھ بہن بھائیوں کے ساتھ الگ تھلگ امریکہ کی ایک جنوبی ریاست میں ان کی والدہ نے تنہا ان کی پرورش کی۔
انھوں نے سکول چھوڑ دیا اور رِنگ میں میں اپنی منزل پانے سے پہلے وہ گلیوں میں ڈکیتیاں کرتے رہے۔
فورمین نے میکسیکو سٹی میں 1968 کے اولمپکس میں ہیوی ویٹ گولڈ میڈل جیتا تھا۔
پروفیشنل باکسر بننےسے قبل انھوں نے 19 سال کی عمر میں لگاتار 37میچ جیتے تھے۔ انھوں نے اپنے کیریئر میں صرف پانچ مقابلے ہارے۔
انھوں نے 1973 میں کنگسٹن، جمیکا میں سابق ناقابل شکست چیمپیئن جو فریزیئر کو شکست دی تھی اور پہلے دو راؤنڈ میں انھیں چھ بار گرایا۔
سنپ 1974 میں کنشاسا، زیرے، جو اب ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو ہے، میں محمد علی کے خلاف ان کی رمبل ان دی جنگل، اب تک کے سب سے مشہور باکسنگ میچوں میں سے ایک ہے۔
محمد علی جو ان سے عمر میں بڑے تھے انھیں ویتنام جنگ میں شامل ہونے سے انکار کرنے پر سات سال قبل ان سے ان کا کراؤن چھین لیا گیا تھا۔

محمد علی سے میچ میں کیا ہوا
فورمین نے 50 سال بعد اکتوبر میں بی بی سی ورلڈ سروس نیوز آور کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اس افسانوی لڑائی کا ذکر کرتے ہوئے وضاحت کی کہ سب کو لگتا تھا کہ وہ علی کو تباہ کرنے جا رہے ہیں۔
باکسر کا کہنا تھا کہ 'ماہرین اس وقت پیش گوئی کر رہے تھے کہ وہ ایک راؤنڈ تک نہیں ٹِک پائیں گے'۔
فورمین نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ عام طور پر کسی بھی باکسنگ میچ سے قبل 'حقیقی طور پر گھبراہٹ' کا شکار ہو جاتے تھے لیکن وہ رات ان کے لیے 'سب سے زیادہ آرام دہ' تھی۔
میچ کے بارے میں ہنستے ہوئے ان کاکہنا تھا کہ ’میں وہاں دو ٹائٹل بیلٹس کے ساتھ گیا تھا اور لوٹا تو میرے پاس ایک بھی نہیں تھی۔ یہ بہت عجیب تھا کہ مجھے لگتا تھا کہ میں اسے ایک ہی راؤنڈ میں ناک آؤٹ کر دوں گا لیکن تیسرے راؤنڈ تک میں نے انھیں ایک بار گرایا اور وہ اٹھے اور مجھے چیختے ہوئے کہا ’کیا تم یہی کر سکتے ہو جارج، مجھے کچھ کر کے دکھاؤ‘، مجھے اس وقت سمجھ آ گئی تھی کہ میں غلط وقت پر غلط جگہ موجود تھا۔‘
30 اکتوبر 1974 کو محمد علی اور جارج فورمین کے درمیان زائر (موجودہ کانگو) کے شہر کنشاسا میں ہونے والی فائٹ کو بیسویں صدی کے چند بڑے سپورٹس ایونٹس اور ہیوی ویٹ باکسنگ کی تاریخ کی سب سے بڑی فائٹ سمجھا جاتا ہے۔
جارج فورمین کا شمار 'فولادی مکوں والے باکسر' کے طور پر ہوتا تھا جنھوں نے کین نارٹن اور جو فریزئر جیسے طاقتور باکسرز کو دوسرے ہی راؤنڈ میں ناک آؤٹ کر دیا تھا۔
اسی لیے ماہرین محمد علی کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہے تھے جو 32 سال کے ہو چکے تھے اور ان کی رفتار اور ریفلکسز میں پہلے جیسی بات نہیں رہی تھی لیکن اگر کسی چیز میں فرق نہیں آیا تھا تو وہ ان کی شعلہ بیانی تھی۔
محمد علی نے ڈیوڈ فراسٹ کو دیے گئے انٹرویو میں جارج فورمین پر زبردست زبانی وار کیے جس کے لیے وہ مشہور تھے اور جب وہ رنگ میں داخل ہوئے تو اس وقت یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ وہ تماشائیوں میں بہت مقبول ہیں جو فلک شگاف نعرے لگا رہے تھے کہ ʹعلی اسے مار ڈالو۔۔۔'
لیکن ذہین محمد علی نے ایک حربہ استعمال کیا جو بعد میں 'روپ اے ڈوپ' کے نام سے جانا جانے لگا، جس کی وجہ سے انھوں نے فورمین کو آؤٹ کردیا۔ محمد علی نے انھیں ناک آؤٹ کرنے سے پہلے ان سے سیکڑوں مکے کھائے۔
محمد علی نے اپنے روایتی انداز میں یہ مقابلہ کرتے ہوئے جارج فورمین کو پہلے خوب تھکایا اور پھر آٹھویں راؤنڈ میں بازی پلٹی اور جارج فورمین محمد علی کے مکے کھاتے ہوئے لڑکھڑاتے ہوئے رنگ میں گر پڑے۔ دنیا کو یقیناً اسی منظر کا بے تابی سے انتظار تھا۔
یہ ٹی وی پر اپنے وقت کی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی باکسنگ فائٹ تھی۔
اس فائٹ پر سنہ 1996 میں ایک دستاویزی فلم ʹوین وی ور دی کنگز' بھی بنی تھی جس نے اکیڈمی ایوارڈ جیتا تھا۔ جب یہ ایوارڈ دیا جا رہا تھا تو محمد علی اس موقع پر موجود تھے اور حاضرین نے کھڑے ہو کر انھیں خراج تحسین پیش کیا تھا۔
دوسری پیشہ ورانہ شکست کے بعد فورمین 1977 میں ریٹائر ہوئے اور ٹیکساس میں لارڈ جیزز کرائسٹ چرچ میں مقرر وزیر بن گئے، جس کی تعمیر انھوں نے کی تھی۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ محمد علی کے ہاتھوں شکست 'میرے ساتھ اب تک کی سب سے اچھی بات' تھی کیونکہ اس کے نتیجے میں انھوں نے تبلیغ کا راستہ اختیار کیا۔
ایک وقت تھا جب محمد علی اور جارج فورمین ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے لیکن پھر ان میں ایسی دوستی ہوئی کہ ایک دوسرے کو پیغامات بھیجتے تھے ریٹائرمنٹ کا ختم کرنے فیصلہ اور دوبارہ چیمپیئن بننے کا اعزاز
فورمین نے1987 میں ایک بار پھر سامنے آئے اور نوجوانوں کے مرکز کے لیے رقم جمع کی۔
انھوں نے لگاتار 24 میچ جیتے اور پھر 1991 میں 12 راؤنڈ کے بعد ایونڈر ہولی فیلڈ سے میچ ہار گئے۔
سنہ 1994 میں فورمین نے 45سال کی عمر میں ناقابل شکست مائیکل مور کو شکست دے کر سب سے عمر رسیدہ ہیوی ویٹ چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔
فورمین نے پانچ شادیاں کیں۔ ان کے ایک درجن بچے ہیں، جن میں پانچ بیٹے بھی شامل ہیں جن سب کا نام جارج ہے۔
انھوں نے اپنی ویب سائٹ پر وضاحت کی کہ انھوں نے ان کا نام اپنے نام پر رکھا تاکہ 'ان میں ہمیشہ کچھ مشترک ہو'۔
وہ کہتے ہیں 'میں ان سے کہتا ہوں، اگر ہم میں سے کوئی اوپر جاتا ہے، تو ہم سب ایک ساتھ اوپر جاتے ہیں'۔ '
اور اگر کوئی نیچے اترتا ہے، تو ہم سب ایک ساتھ نیچے اترتے ہیں۔'