آٹھ سال تک مفلوج رہنے کے بعد ایک چپ کی مدد سے لوگوں کے دماغ پڑھنے والا نوجوان: ’اب مسئلہ رازداری کا ہے‘

آٹھ سال تک مفلوج رہنے والے نولینڈ کا ماننا ہے کہ اُن کے ساتھ جو کچھ بھی ہوتا ہے، یہ تجربہ تو بس ابھی ایک نئی دُنیا میں داخل ہونے کی ایک کوشش ہے کہ جو آنے والے ایک دن حقیقت بن سکتی ہے۔
نیورا لنک
BBC
آٹھ سال تک مفلوج رہنے والے 30 سالہ نولینڈ آربو جنوری سنہ 2024 میں ایسے پہلے انسان بن گئے جن کے دماغ میں امریکی نیورو ٹیکنالوجی کمپنی نیورالنک کی ڈیوائس نصب کی گئی۔

آپ کے دماغ میں ایک ایسی چِپ ہو کہ جو آپ کے خیالات کو کمپیوٹر کمانڈ میں بدل رہی ہو۔ ایسا سوچنا یا ایسی بات کرنا کسی سائنس فکشن جیسا لگتا ہے مگر ’نولینڈ آربو‘ کے لیے تو اب یہ ایک حقیقت ہے۔

آٹھ سال تک مفلوج رہنے والے 30 سالہ نولینڈ آربو جنوری سنہ 2024 میں ایسے پہلے انسان بنے کہ جن کے دماغ میں امریکی نیورو ٹیکنالوجی کمپنی نیورالنک کی ایک ڈیوائس یا چپ نصب کی گئی۔

یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ تو نہیں تھا۔ دُنیا میں کئی کمپنیوں نے ایسی چِپس بنائی ہیں اور انھیں نصب بھی کیا ہے۔ مگر نولینڈ کو زیادہ توجہ ملنے کی ایک بڑی وجہ نیورو ٹیکنالوجی کمپنی نیورالنک کے بانی ایلون مسک ہیں۔

لیکن نولینڈ کا کہنا ہے کہ زیادہ اہم نولینڈ یا مسک نہیں بلکہ ’سائنس‘ کی ترقی ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انھیں معلوم تھا ایسا کرنا (یعنی دماغ میں چپ لگوانا) کتنا خطرناک ہوسکتا ہے۔ تاہم اُن کا کہنا ہے کہ ’اچھا یا بُرا، جو بھی ہو، میں تو بس مدد کر رہا ہوں گا۔‘

اُن کا کہنا ہے کہ ’اگر سب ٹھیک رہا تو میں نیورالنک کے رضاکار کے طور پر مدد کر سکوں گا۔ اگر کچھ بُرا ہوا تو وہ (یعنی ٹیکنالوجی کمپنی) اس سے کُچھ سیکھ سکے گی۔‘

’کنٹرول نہ کہ رازداری‘

نولینڈ کا تعلق امریکی ریاست ایریزونا سے ہے۔ وہ سنہ 2016 میں غوطہ خوری کے دوران ایک حادثے کا شکار ہوئے جس کے باعث کندھوں کے نیچے سے اُن کا جسم بے جان یعنی مفلوج ہوگیا۔

وہ اس قدر زخمی ہوئے تھے کہ انھیں یہ ڈر ستانے لگا کہ وہ دوبارہ پڑھائی، کام یا یہاں تک کہ گیمز کھیلنے کے قابل بھی نہ رہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’آپ کے پاس کوئی کنٹرول نہیں رہ جاتا آپ بس بے جان ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے کوئی رازداری نہیں رہتی اور یہ سب سے مشکل وقت ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’آپ کو یہ سیکھنا پڑتا ہے کہ آپ کو ہر چیز کے لیے دوسرے لوگوں پر انحصار کرنا ہے۔‘

نیورالنک چپ انھیں اپنے دماغ سے کمپیوٹر کو کنٹرول کرنے کی اجازت دے کر انھیں کچھ حد تک خود مختار بنا رہی ہے۔

یہ وہی چپ ہے جسے دماغی کمپیوٹر انٹرفیس (بی سی آئی) کے نام سے جانا جاتا ہے اور جب انسان حرکت کرنے کے بارے میں سوچتا ہے تو یہ اس سے پیدا ہونے والے چھوٹے الیکٹرک سگنلز دماغ کو وہ کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

یہ ایک پیچیدہ موضوع ہے جس پر سائنسدان کئی دہائیوں سے کام کر رہے ہیں۔

اس سے ایلون مسک کی وابستگي نے نہ صرف اس ٹیکنالوجی کو بلکہ نیولینڈ کو بھی سرخیوں میں پہنچا دیا ہے۔

یہ نیورالنک کے لیے بہت زیادہ سرمایہ کاری کا باعث بنا لیکن اس کی حفاظت اور افادیت کے تعلق سے بھی بہت سے سوالات اٹھے۔

جب نولینڈ کے امپلانٹ کا اعلان کیا گیا تو ماہرین نے اسے ایک ’اہم سنگ میل‘ قرار دیا لیکن اس کے ساتھ اس کے نتیجے کے متعلق خبردار بھی کیا۔

مسک اس کے متعلق زیادہ تفصیل نہیں دے رہے ہیں لیکن ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں انھوں نے لکھا کہ ’ابتدائی نتائج میں نیورون میں سپائیک یعنی حرکت کے خوش آئندہ شواہد ملے ہیں۔‘

حقیقت میں نولینڈ نے کہا کہ ارب پتی ایلون مسک نے ان سے سرجری سے پہلے اور بعد میں بات کی تھی وہ کہیں زیادہ پر امید تھے۔

انھوں نے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ وہ اتنے ہی پرجوش تھے جتنا میں اس کو شروع کرنے کے لیے تھا۔‘

بہر حال انھوں نے زور دے کر کہا کہ نیورالنک اس کے مالک سے زیادہ اہم ہے اور وہ اسے ’ایلون مسک کا ڈیوائس‘ نہیں مانتے۔

لیکن امریکی حکومت میں ان کے بڑھتے ہوئے متنازع کردار کو دیکھتے ہوئے یہ سوال اٹھٹا ہے کہ کیا باقی دنیا بھی اسی طرح مانتی ہے۔ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے۔

لیکن نولینڈ کی زندگی پر اس ڈیوائس کے اثرات پر کوئی سوال نہیں ہے۔

بائیں جانب نولینڈ کی والدہ، والد اوراُن کی کزن سرجری کے بعد ہسپتال میں ان کے ساتھ
BBC
بائیں جانب نولینڈ کی والدہ، والد اوراُن کی کزن سرجری کے بعد ہسپتال میں ان کے ساتھ

’یہ ممکن نہیں تھا‘

جب نولینڈ سرجری کے بعد ہوش میں آئے تو ڈیوائس انسٹال کرنے والے نے بتایا کہ وہ ابتدائی طور پر اپنی انگلیوں کو ہلانے کے بارے میں سوچ کر سکرین پر موجود کرسر کو کنٹرول کرنے کے قابل تھے۔

انھوں نے کہا کہ ’حقیقتاً میں نہیں جانتا تھا کہ کیا اُمید رکھوں، یہ کسی سائنس فکشن کی طرح لگتا ہے۔‘

وہ نیورالنک کے پرجوش ملازمین سے گھرے ہوئے تھے۔ انھوں نے سکرین پر نیوران کے سپائک کو دیکھنے کے بعد کہا کہ وہ ’فرط جذبات سے مغلوب تھے‘ کہ وہ صرف اپنے خیالات سے اپنے کمپیوٹر کو کنٹرول کرسکتے ہیں۔

اور اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ امپلانٹ استعمال کرنے کی ان کی صلاحیت اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ اب وہ شطرنج اور ویڈیو گیمز کھیل سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’میں ویڈیو گیمز کھیلتا ہوا بڑا ہوا ہوں۔‘ لیکن جب معذور ہوا تو انھیں ’چھوڑنا پڑا۔‘

’اب میں اپنے دوستوں کو ان تمام کھیلوں میں باآسانی شکست دے سکتا ہوں جو پہلے ممکن نہیں تھا۔‘

نولینڈ زندگیوں کو تبدیل کرنے کی ٹیکنالوجی کی صلاحیت کا ایک طاقتور مظہر ہیں لیکن اس میں خامیاں بھی ہوسکتی ہیں۔

سسیکس یونیورسٹی میں نیورو سائنس کے پروفیسر انیل سیٹھ نے کہا کہ ’ایک اہم مسئلہ رازداری کا ہے۔‘

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اگر ہم اپنی دماغی سرگرمی کو ایکسپورٹ کر رہے ہیں۔۔۔ تو ہم ایک طرح سے نہ صرف ان چیزوں تک رسائی کی اجازت دے رہے ہیں جو ہم کرتے ہیں بلکہ ممکنہ طور پر ہم کیا سوچتے ہیں، یا ہمارا کیا یقین ہے اور ہم کیا محسوس کرتے ہیں اس تک بھی رسائی دے رہے ہیں۔‘

’ایک بار جب آپ کے سر کے اندر کی چیزوں تک رسائی مل جاتی ہے تو واقعتاً کوئی بات بھی راز نہیں رہ جاتی۔‘

لیکن نولینڈ کے لیے یہ خدشہ کوئی معنی نہیں رکھتا، اس کے بجائے وہ چپس کو اس لحاظ سے آگے بڑھتے دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ مزید کیا کر سکتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انھیں امید ہے کہ یہ آلہ بالآخر انھیں اپنی وہیل چیئر یا یہاں تک کہ مستقبل کے انسان نما روبوٹ کو کنٹرول کرنے کی اجازت دے گا۔‘

تاہم ٹیکنالوجی اپنی موجودہ، زیادہ محدود حالت میں سب کچھ بہت آسانی سے نہیں کر رہا ہے۔

ایک موقع پر ڈیوائس میں مسئلہ آجانے کی وجہ سے وہ مکمل طور پر اپنے کمپیوٹر کا کنٹرول کھو بیٹھے تھے۔ یہ اس وقت ان کے دماغ سے جزوی طور پر منقطع ہو گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ وہ 'کم از کم اتنا کہہ سکتے ہیں کہ یہ واقعی پریشان کن تھا۔

’میں نہیں جانتا تھا کہ کیا میں نیورلنک کو دوبارہ استعمال کر سکوں گا۔‘

جب انجینئرز نے سافٹ ویئر کو ایڈجسٹ کیا اور کنکشن کی مرمت کی گئی تو پھر اس میں بہتری آئی۔ لیکن اس چیز نے ٹیکنالوجی کی حدود پر ماہرین کی طرف سے دکھائی جانے والی تشویش کو اجاگر کیا۔

اس چپ یا آلے کی جانب سے موصول ہونے والے سگنل کو پھر کمپیوٹر سگنل میں تبدیل کردیا جاتا ہے
Getty Images
اس چپ یا آلے کی جانب سے موصول ہونے والے سگنل کو پھر کمپیوٹر سگنل میں تبدیل کردیا جاتا ہے

ایک بڑا کاروبار

نیورالنک ان بہت سی کمپنیوں میں سے ایک ہے جو ہماری دماغی طاقت کو ڈیجیٹل طریقے سے ٹیپ کرنے یا انھیں پڑھنے کے لیے کسی طریقے کی تلاش میں ہے۔

'سنکرون' ایسی ہی ایک کمپنی ہے کہ جس کا کہنا ہے کہ اس کی ’سٹنٹروڈ ڈیوائس‘ کا مقصد موٹر نیورون کی بیماری میں مبتلا افراد کی مدد کرنا اور اُن کی زندگی کو مُشکلات سے دور کرنا ہے۔

اوپن برین سرجری کی ضرورت کے بجائے اسے کسی شخص کی گردن کی شہ رگ میں نصب کیا جاتا ہے اور پھر خون کی شریان کے ذریعے اسی فرد کے دماغ تک اسے منتقل کیا جاتا ہے۔

نیورالنک کی ہی طرح یہ آلہ بالآخر دماغ سے جڑ جاتا ہے۔

چیف ٹکنالوجی آفیسر ریکی بنرجی کا کہنا ہے کہ ’یہ چپ یا آلہ اس وقت حرکت میں آتا ہے کہ جب کوئی ان کی انگلی کو چھونے یا ایسا نہ کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہوتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ان باتوں کے درمیان فرق کے بارے میں جاننے کے قابل ہونے کو ہم ’ڈیجیٹل موٹر آؤٹ پُٹ‘ کہتے ہیں۔‘

اس چپ یا آلے کی جانب سے موصول ہونے والے سگنل کو پھر کمپیوٹر سگنل میں تبدیل کردیا جاتا ہے، جہاں اسے فی الحال 10 افراد استعمال کر رہے ہیں۔

ایسے ہی ایک شخص نے، جو اپنا آخری نام استعمال نہیں کرنا چاہتے تھے نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ایپل کے وژن پرو ہیڈسیٹ کے ساتھ ڈیوائس استعمال کرنے والے دنیا کے پہلے شخص تھے۔

مارک کا کہنا ہے کہ ’اس کی وجہ سے انھیں ورچوئلی آسٹریلیا میں موجود آبشاروں سے لے کر نیوزی لینڈ کے پہاڑوں جیسے دور دراز مقامات پر چھٹیاں گزارنے کا موقع ملا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں مستقبل میں ایک ایسی دنیا دیکھ سکتا ہوں جہاں یہ ٹیکنالوجی واقعی کسی ایسے شخص کی دُنیا بدل سکتی ہو کہ جو فالج کی وجہ سے ایسا کرنے کے قابل نہ ہو۔‘

لیکن نولینڈ کے لیے ان کی نیورالنک چپ کے ساتھ ایک شرط یہ ہے کہ وہ ایک ایسے مطالعے کا حصہ بننے پر رضامند ہوئے کہ جس کے تحت ان کے دماغ میں چھ سال تک کے لیے اس چپ کو نصب کیا گیا۔

ان کے ساتھ جو کچھ بھی ہوتا ہے، ان کا ماننا ہے کہ ان کا تجربہ تو بس ابھی ایک نئی دُنیا میں داخل ہونے کی ایک کوشش ہے کہ جو ایک دن حقیقت بن سکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم دماغ کے بارے میں اب بھی اتنی ترقی کرنے کے بعد بھی بہت کم جانتے ہیں تاہم اس نئی دُنیا کے لیے سوچ اور چپ سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع مل رہا ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.