جب صدیوں پرانا خزانہ ان دونوں کے ہاتھ لگا تو انھوں نے سوچا کہ اب وہ نہ صرف بہت امیر ہو جائیں گے بلکہ ان کی زندگیاں ہمیشہ کے لیے بدل جائیں گی۔ لیکن ان میں سے صرف ایک بات سچ ثابت ہوئی۔
پال اور ڈیوس کو جو نواردات ملیں اس میں یہ انگوٹھی بھی شامل تھیاس کہانی کا آغاز اس وقت ہوا جب جاسوسوں کی ایک ایسے شخص کی تلاش تھی جو دھات تلاش کرتے کرتے جرم کے راستے پر چل پڑا اور یہیں سے انھیں ایک حیران کن سراغ ملا۔
ان کی نظر سے ایک فیس بُک اپیل گزری جس میں مطلوب شخص جارج پاول کو تلاش کرنے کی درخواست اس لیے توجہ کا مرکز بن رہی تھی کیونکہ انھوں نے خود اس میں ایک کمنٹ میں شکایت کی تھی کہ پولیس کی جانب سے استعمال کی جانے والی تصویر میں وہ ’مدہوش‘ لگ رہے ہیں۔
مقامی رپورٹر ہولی مورگن کا کہنا تھا کہ ’ان میں کئی کمنٹس جارج کی حمایت میں تھے جن میں کہا جا رہا تھا کہ اس نے ایسا کچھ غلط نہیں کیا اور اسے جیل جانے کی سزا نہیں ملنی چاہیے تھی۔‘
لیکن جو بات ہولی مورگن کو فوری طور پرمعلوم نہ ہو سکی وہ یہ تھی کہ پاول اور ان کے دوست لیٹن ڈیوس کو برطانوی تاریخ کے سب سے بڑے خزانوں میں سے ایک کی چوری کے الزام میں سزا سنائی گئی تھی، جس کی مالیت 30 لاکھ پاؤنڈ تھی۔
یہ کہانی ابتدائی قرون وسطیٰ کے برطانیہ سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ کوئی معمولی خزانہ نہیں تھا بلکہ سونے کے زیورات، چاندی کے بسکٹ اور سینکڑوں سکوں پر مشتمل اس خزانے کو ایک ایسے ایک نامعلوم شخص نے دفن کیا تھا جو شکست کھاتی وائی کنگ فوج کا غالباً کوئی عہدیدار رہا ہو گا۔
یہ خزانہ تاریخ کے اندھیروں میں کھو گیا تھا۔ جون 2015 کی ایک صبح جب ہیرفورڈ شائر کے قصبے لیومنسٹر کے قریب ایک کھیت میں جارج پال اور لیٹن ڈیوس نے زمین کو صاف کرنے کے لیے کھدائی کا کام شروع کیا۔
جارج پاول کا تعلق نیو پورٹ جبکہ لیٹن ڈیوس کا پونٹی پریڈ سے تھا۔

صدیوں پرانے خزانے کی دریافت
جب صدیوں پرانا خزانہ ان دونوں کے ہاتھ لگا تو انھوں نے سوچا کہ اب وہ نہ صرف بہت امیر ہو جائیں گے بلکہ ان کی زندگیاں ہمیشہ کے لیے بدل جائیں گی لیکن ان میں سے صرف ایک بات سچ ثابت ہوئی۔
یاد رہے کہ کسی کی زمین پر دھات تلاش کرنے کے لیے اس جگہ کے مالک کی اجازت ضروری ہوتی ہے۔ پاول اور ڈیوس کے پاس اس کھیت میں جانے کا اجازت نامہ نہیں تھا۔ اسی جگہ پر انھوں نے یہ خزانہ دریافت کیا تھا۔
قانونی تقاضہ تو یہ تھا کہ وہ 14 دن کے اندر اس دریافت کی اطلاع زمین کے مالک اور مقامی حکام کو دیتے۔ تاہم اس کی بجائے ان دونوں نے اس خزانے کو ایک تھیلی میں ڈالا اور ویلز واپس چلے گئے جہاں انھوں نے اپنی دریافت کی تصاویر میٹل ڈیٹیکٹر کے شوقین افراد کی ایک ویب سائٹ پر شیئر کیں۔
بعد میں انھوں نے وہ تصاویر ویب سائٹ سے اور اپنے فونز سے ڈیلیٹ کر دیں تاہم شاید وہ نہیں جانتے تھے انٹرنیٹ اور پولیس کے جدید تفتیشی سافٹ ویئر کچھ بھی بھولتے نہیں۔
پاول نے کارڈف میں قدیم چیزوں کی ایک دکان پر ڈیلر پال ویلز سے رابطہ کر کے اس بارے میں مزید جاننے کی کوشش بھی کی۔
نوادرات کے ڈیلر جیسن سلم کے ساتھ جب ویلز نے چاندی کے تقریباً 12 سکے میز پر پھیلے دیکھے تو وہ حیران رہ گئے۔
270 سکے ابھی تک گمشدہ ہیںاس کیس کے حوالے سے بی بی سی کی پوڈ کاسٹ میں بات کرتے ہوئے ویلز نے بتایا کہ ’یہ ایسا ہی تھا جیسے انھیں اسی دن زمین میں دفنا دیا گیا ہو جس دن انھیں بنایا گیا تھا۔‘
’جیسے انھیں کبھی بھی روٹی یا بیئر خریدنے کے لیے استعمال نہ کیا گیا ہو۔‘
’میری جیب میں ایک لینز تھا، جس کے ذریعے میں نے ان سِکوں کو دیکھا۔ پہلی جھلک میں مجھے لگا کہ یہ گیارھویں یا بارہویں صدی کے ہیں۔‘
جیسن سلم جو اس بارے میں بہت پرجوش تھے، انھوں نے کہا کہ یہ سکے ساتویں یا آٹھویں صدی کے ہو سکتے ہیں۔
پاول اور ان کے دوست ڈیوس نے اس خزانے سے ملنے والے سونے کے زیورات دکھانے سے پہلے جھوٹ بولا اور ڈیلرز کو بتایا کہ انھیں زمین کے مالک کی جانب سے کھدائی کرنے کی اجازت تھی۔
’میری آنکھیں میرے سر سے جیسے باہر آ گئی ہوں۔ انھوں نے کہا کہ سکے اور زیوارت انھیں ایک ساتھ ہی ملے ہیں۔‘
ان سکوں پر ویسکس کے بادشاہ ایلفرڈ دا گریٹ اور مرسیا سلطنت کے بادشاہ کیول وولف کی تصاویر تھیںڈیلرز نے ان دونوں دوستوں کو خبردار کیا کہ یہ نوادرات ایک خطرناک خطے سے ملی ہیں اور انھیں اس بارے میں حکام کو مطلع کرنا چاہیے۔ لیکن ویلز کے مطابق پاول بہت زیادہ خوش تھے اور انھوں نے ان کی بات پر دھیان نہیں دیا۔
پھر ویلز ان میں سے کچھ سکے لینے کو تیار ہو گئے۔
بعد میں انکشاف ہوا کہ ان سکوں پر ویسکس کے بادشاہ ایلفرڈ دا گریٹ اور مرسیا سلطنت کے بادشاہ کیول وولف کی تصاویر تھیں اور یہ قدیم سلطنتیں اس علاقے میں تھیں، جہاں سے یہ سکے ملے تھے۔
ریویل نے اپنے جاسوسوں کے نیٹ ورک کو اس دریافت کے بارے میں پتا چلانے کے لیے متحرک کیا2015 میں پیٹر ریویل برٹس میوزیم میں کام کرتے تھے۔ پاول اور ڈیوس کو اس بارے میں مشورے کے لیے ان سے رابطہ کرنے کی ضرورت تھی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اس بارے میں افواہیں گردش کر رہی تھیں جس کا مطلب تھا کہ کوئی اہم چیز ملی ہے۔ افواہوں کے مطابق کسی کو قرون وسطی کے سکے ملے ہیں اور ان سکوں کی تعداد کم از کم 300 ہے۔‘
’یہ بھی بتایا جا رہا تھا کہ دو لڑکے ویلز سے آئے اور انھیں یہ خزانہ ملا۔ اس وقت ہمیں ان کے نام نہیں پتا تھے لیکن ہمیں یہ معلوم تھا کہ یہ مقامی افراد نہیں۔‘
ریویل نے اپنے جاسوسوں کے نیٹ ورک کو یہ پتا چلانے کے لیے متحرک کیا کہ ’کیا کسی نے کچھ ٹھوس سنا اور وہ سب یہ کہتے ہوئے واپس آئے کہ انھوں نے تقریباً ایک ہی بات سنی ہے کہ لیومنسٹر کے قریب قرون وسطی کا ایک بڑا خزانہ ملا۔‘
پاول اور ڈیوس نے جو تصاویر آن لائن شیئر کی تھیں، وہ بھیپیٹر ریویل تک پہنچیں اور وہ دیکھ سکتے تھے کہ ایک سے زیادہ سکے دریافت ہوئے تھے۔
انھوں نے پاول اور ڈیوس کے ایک ای میل ایڈریس کا پتہ لگایا اور بتایا کہ انھیں ملنے والی چیزیں خزانے کے زمرے میں آتی ہیں اور ان کے پاس اس بارے میں اطلاع دینے کے لیے 14 دن ہیں۔
لیکن ایک بار پھر پاول اور ڈیوس نے مشورے پر عمل نہیں کیا۔
انھوں نے زیورات تو ویلز کے میوزیم میں دے دیے لیکن 300 سکے ’گمشدہ‘ ہی رہے اور اسی پر پولیس نے تفتیش شروع کر دی۔

سنہ 2019 میں پاول اور ڈیوس کو چوری کے جرم میں سزا سنائی گئی۔
پاول کو 10 برس قید کی سزا سنائی گئی جو اپیل کے بعد ساڑھے چھ برس میں بدل گئی۔ ڈیوس کو ساڑھے آٹھ برس کی سزا سنائی گئی جو بعد میں کم ہو کر پانچ برس ہو گئی۔
ویلز کو اس دریافت کو چھپانے پر ایک برس قید کی سزا سنائی گئی تاہم اس پر عملدرآمد معطل کر دیا گیا۔
پاول اور ڈیوس نے اپنی سزائیں پوری کیں لیکن بعد میں عدالت کے حکم پر انھیں چھ لاکھ پاؤنڈ ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔
ستمبر 2024 میں ڈیوس کو مزید پانچ برس اور تین ماہ قید کی سزا سنائی گئی کیونکہ وہ چھ لاکھ پاؤنڈ ادا نہیں کر سکے تھے تاہم پاول فرار ہو گئے اور اکتوبر میں فیس بک کی بدنام پوسٹ پر نظر آئے۔
یہ پوسٹ دیکھنے کے بعد رپورٹر ہولی مورگن کی پاول سے آن لائن گفتگو ہوئی۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پاول نے کہا کہ میں کہیں نہیں بھاگ رہا۔‘
اور پھر پاول کو سکاٹ لینڈ کے شہر ایڈنبرگ سے گرفتار کر لیا گیا لیکن جب جنوری 2025 میں انھیں عدالت کے سامنے پیش کیا جانا تھا تو وہ ایک بار پھر فرار ہو گئے اور ابھی تک مفرور ہیں۔