’سادہ مگر طاقتور‘: صفائی کے لیے آزمودہ سرکہ کیا جراثیم اور بیکٹیریا کو بھی ختم کرتا ہے

میں نے دو چمچ گاڑھا سرکہ ٹوائلٹ میں ڈالا اور آدھے گھنٹے بعد اسے رگڑا تواس پر جما ہواضدی چونا پلک جھپکتے میں صاف ہو گیا۔اس دن کے بعد سے میں نے جوش و خروش سے سرکے کا استعمال شروع کر دیا تاکہ اپنی دنیا کو لائم سکیل سے پاک کر سکوں۔میں نے محسوس کیا کہ سرکہ میرے باورچی خانے کے عام کلینر سے بھی زیادہ مؤثر ہے خاص طور پر سنک کو چمکانے میں۔ تاہمکیا یہ سادہ، قدرتی چیز عام صفائی کے کیمیکلز سے زیادہ ماحول دوست اور صحت بخش ہے؟
تصویر
Getty Images
سرکے کے فوائد اس بات پر منحصر ہیں کہ آپ اسے کس طرح استعمال کرتے ہیں

چند ماہ قبل جب میں نے اپنے نئے فلیٹ میں رہنا شروع کیا تو یہاں میری سب سے پہلی جنگ میرے ٹوائلٹ کے ساتھ تھی۔ میں اُسے جتنا بھی رگڑتی، جتنا بھی ٹوائلٹ کلینر کا استعمال کرتی، اس کے اندر کی سطح پر جما ہوا چونا (لائم سکیل) ہٹنے کا نام نہیں لیتا تھا۔

تنگ آ کر میں نے گوگل کا رُخ کیا جہاں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے سرکہ استعمال کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ میرے فلیٹ کے سابق مکین جاتے وقت بہت سارا سرکہ چھوڑ گئے تھے۔

میں نے دو چمچ گاڑھا سرکہ ٹوائلٹ میں ڈالا اور پھر اسے آدھے گھنٹے کے لیے چھوڑ دیا۔ اس کے بعد جب اسے رگڑا تو اس پر جما ہوا ضدی داغ پلک جھپکتے میں صاف ہو گیا۔

اس دن کے بعد سے میں نے داغوں کو ہٹانے کے لیے سرکے کا استعمال شروع کر دیا۔

میں نے محسوس کیا کہ سرکہ میرے باورچی خانے کے عام کلینر سے بھی زیادہ مؤثر ہے، خاص طور پر سِنک کو چمکانے میں۔

سنک کے نلکے کو صاف کرنے کے لیے میں نے سرکے میں ایک ٹشو بھگو کر اس کا استعمال کیا کیونکہ میرا معمول کا کلینر تو نلکوں پر بہہ جاتا تھا۔ اسی طرح شیشے کی کیتلی کو اندر سے صاف کرنے کے لیے میں نے صرف دو چمچ گاڑھا سرکہ ڈالا اور اُسے ابلنے رکھ دیا۔

یہ صورتحال دیکھ کر میں نے سوچنا شروع کیا کہ کیا سرکے کے اور بھی فائدے ہیں؟ کیا یہ جراثیم اور بیکٹیریا کو بھی ختم کرتا ہے؟ اور سب سے اہم بات کہ کیا یہ مارکیٹ میں صفائی کے لیے دستیاب کیمیکلز سے زیادہ ماحول دوست اور صحت کے لیے بہتر ہے؟

انٹرنیٹ پر اس حوالے سے لاتعداد بلاگز موجود ہیں جن میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ سرکہ ہر طرح کی صفائی کرنے والی چیز ہے اور مارکیٹ میں دستیاب ’زہریلے کیمیکلز‘ کا محفوظ ماحول دوست متبادل ہے۔

بظاہر یہ دعوے معقول لگتے ہیں کیونکہ سرکہ تو صرف خمیر شدہ الکحل ہوتا ہے جو نہ صرف کھانے کو محفوظ رکھنے میں استعمال ہوتا ہے بلکہ صفائی کے لیے بھی اس کا استعمال عام ہے۔ تاہم میں نے اس کا ثبوت ڈھونڈنا چاہا۔

جب میں نے تین ماہرین سے بات کی تو پتا چلا کہ اگرچہ انٹرنیٹ پر سرکے سے متعلق کچھ دعوے درست تو ہیں لیکن سرکے کے فوائد اس بات پر منحصر ہیں کہ آپ اسے کس طرح استعمال کرتے ہیں اور کس قسم کی گندگی یا جراثیم سے نجات پانے کے لیے اس کا استعمال کر رہے ہیں۔

 کیتلی کی سرکے سے صفائی
Getty Images

یونیورسٹی آف پٹسبرگ، پنسلوانیا، سے منسلک کیمیکل انجینئر اور ریٹائرڈ پروفیسر ایرک بیکمین نے مجھے بتایا کہ سرکے کا بنیادی جزو یعنی ایسیٹک ایسڈ کا سب سے مؤثر استعمال لائم سکیل (چونے) کو صاف کرنے کے لیے ہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ لائم سکیل اور زنگ میں ایسے آئنز ہوتے ہیں جو تیزابی محلول جیسا کہ سرکے میں باآسانی حل ہو جاتے ہیں۔

دوسری جانب جرمنی کی رائن ویال یونیورسٹی آف اپلائیڈ سائنسز کے مائیکرو بائیولوجسٹ ڈرک بوک مول ان کاموں کے لیے لیموں کے رس کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اس میں موجود سٹرک ایسڈ لائم سکیل ہٹانے میں زیادہ مؤثر ہے جبکہ اس کی خوشبو بھی بہتر ہوتی ہے۔

تاہم سرکہ ہر چیز پر کام نہیں کرتا۔ بیکمین کے مطابق برتنوں پر جمع چکنائی کو ہٹانے میں صابن زیادہ مؤثر ہوتا ہے، جب کہ بیکنگ سوڈا کھانا پکانے کے دوران جم جانے والے پراسیسڈ آئلز کے خلاف مؤثر ہے۔

البتہ بیکمین سرکہ اور بیکنگ سوڈا کو ملا کر استعمال کرنے کے قائل نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ آمیزہ کیمیاوی طور پر بیکار ہوتا ہے کیونکہ سرکے کا تیزاب اور بیکنگ سوڈے کا اساس (alkaline) ایک دوسرے کے اثر کو ختم کر دیتے ہیں۔

بیکمین کہتے ہیں کہ میں دونوں چیزیں استعمال کرتا ہوں، لیکن ایک ساتھ نہیں۔ کیونکہ جب آپ دونوں کو ایک ساتھ ملاتے ہیں، تو آپ کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔

اور جہاں تک سرکے کو ایک طاقتور جراثیم کش کے طور پر پیش کیے جانے کی بات ہے تو ڈرک بوک مول کے مطابق اصل حقیقت کچھ زیادہ پیچیدہ ہے۔

سنہ 2020 میں بوک مول اور ان کے ساتھیوں نے سرکے کو مختلف بیماری پیدا کرنے والے بیکٹیریا، وائرس اور فنگس کے خلاف آزمایا۔

اگرچہ انٹرنیٹ پر اکثر مشورہ دیا جاتا ہے کہ صفائی کے لیے پانی کی بالٹی میں سرکہ ڈال دیا جایا، لیکن بوک مول کے مطابق سرکے کی جراثیم کش صلاحیت تبھی مؤثر ہوتی ہے جب اس میں پانچ فیصد ایسیٹک ایسڈ ہو یعنی خالص سرکے کی مقدار۔

اُن کے مطابق یہ تبھی مکمل طور پر مؤثر ہوا جب اسے 10 فیصد ارتکاز تک پہنچایا گیا اس میں تھوڑا سٹرک ایسڈ بھی شامل کیا گیا تاکہ وہ پانچ عام بیکٹیریا جیسے پھپھوندی، خمیر (yeast) اور ایک کمزور ویکسینیا جیسے وائرس کے خلاف کام کر سکے۔

سرکہ پروسیسڈ تیل کے خلاف کم مؤثر ہے
Getty Images
سرکہ پروسیسڈ تیل کے خلاف کم مؤثر ہے جو کھانا پکانے کے دوران سطحوں پر پھنس جاتا ہے

تاہم ان تمام باتوں کے باوجود سرکہ ضدی قسم کے ایم آر ایس اے (MRSA) بیکٹیریا پر مؤثر ثابت نہ ہو سکا ۔ بیکٹیریا کی اس قسم میں بعض اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت موجود ہے جبکہ بے شمار دیگر بیکٹیریا تو ابھی تک آزمائے ہی نہیں گئے۔

اسی طرح کچھ پھپھوندیاں بھی ایسیٹک ایسڈ کے خلاف مزاحمت رکھتی ہیں۔

بیکمین کے مطابق صابن بیکٹیریا کے خلاف زیادہ مؤثر ہے جبکہ عام جراثیم کش مواد وائرس اور پھپھوندیوں کے خلاف بہتر کام کرتے ہیں۔

بلیچ جیسے سخت مواد یقینی طور پر ہر چیز کو مار دیتے ہیں اگرچہ ان کا غلط استعمال خطرناک ہو سکتا ہے۔

بوک مول کا کہنا ہے کہ جن جراثیموں کو سرکہ واقعی مارتا ہے ان کے لیے بھی کافی زیادہ توجہ درکار ہوتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ صرف ایک چائے کا چمچ سرکہ صفائی کے محلول میں ڈالیں تو اس کا اثر کافی نہیں ہو گا۔

البتہ ایسیٹک ایسڈ کی مقدار جتنی زیادہ ہو، وہ جلد کے لیے اتنی ہی زیادہ جلن پیدا کر سکتی ہے اور اگر یہ آنکھوں میں چلی جائے تو نقصان دہ ہو سکتی ہے۔

اطالوی کیمیا دان داریو بریسانینی کی کتاب ’دی سائنس آف کلیننگ‘ کے مطابق سرکہ قدرتی پتھر، تانبے، کانسی اور پیتل جیسی دھاتوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔

برتن دھونے کی مشین یا واشنگ مشین میں سرکہ ربڑ کی گیس کٹ کو نقصان پہنچا سکتا ہے جب کہ کافی مشین کو بھی خراب کر سکتا ہے اور ٹائلوں کی کوٹنگ کو ہٹا سکتا ہے۔

تاہم بوک مول کے تجربے کے مطابق سرکہ شیشے، سیرامک سطحوں (جیسے بیت الخلا) اور سٹین لیس سٹیل کے سنک پر استعمال کرنا محفوظ ہے۔

بوک مول کے مطابق گھریلو طور پر بنائے گئے صفائی کے محلول کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ان کے ساتھ کوئی ہدایات یا حفاظتی تدابیر شامل نہیں ہوتیں۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ محفوظ ہو سکتے ہیں اگر آپ کو معلوم ہو کہ آپ کیا کر رہے ہیں تاہم انٹرنیٹ پر بہت سی عجیب اور مضحکہ خیز تجاویز گردش کر رہی ہیں۔

یہ جاننے کے لیے کہ سرکہ کے صحت پر اثرات روایتی صفائی کی مصنوعات کے مقابلے میں کیسے ہیں، میں نے برطانیہ کی یونیورسٹی آف یارک کی کیمسٹری کی ماہر پروفیسر نِکولا کارسلاؤ سے بات کی۔

پروفیسر نکولا کے مطابق صفائی کے مصنوعات ہمارے گھروں کی فضا میں کیمیائی خلل ڈال سکتی ہیں۔

یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ گھریلو صفائی کے پیشہ ور کارکنوں میں دمے کی شرح زیادہ ہوتی ہے، اگرچہ اسے کسی ایک مخصوص مصنوعات یا جزو سے جوڑنا مشکل ہوتا ہے۔

ایک حالیہ مطالعے میں کارسلاؤ اور ان کے ساتھیوں نے 23 مختلف صفائی کی مصنوعات کا تجزیہ کیا جن میں ڈش واشر کے محلول، برتن دھونے کا صابن اور سپرے وغیرہ جیسی مصنوعات شامل تھیں۔

اس تجربے میں سامنے آیا کہ ان میں سے اکثر نے خاص کیمیائی مرکبات فضا میں خارج کیے۔ ان میں سے کچھ مرکبات وہ تھے جو خوشبو کے لیے شامل کیے جاتے ہیں (مثلاً لیونڈر یا پائن آئل کی خوشبو) لیکن وہ فضا میں انتہائی سرگرم ہو جاتے ہیں۔

مثلاً ٹرپینز فضا میں آسانی سے ردِعمل کرتے ہیں اور نہایت باریک ذرات بناتے ہیں۔ عموماً اس سائز کے ذرات کو سانس کے ذریعے جسم میں داخل کرنے کو پھیپھڑوں اور دل کی بیماریوں سے جوڑا گیا ہے۔

کارسلاؤ کہتی ہیں کہ ’آپ کی ناک بڑے ذرات کو فلٹر کرنے میں اچھی ہے لیکن چھوٹے ذرات آپ کے پھیپھڑوں تک، حتیٰ کہ خون کے دھارے تک پہنچ سکتے ہیں۔‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے مطالعے میں یہ معلوم ہوا کہ قدرتی یا ماحول دوست صفائی کی مصنوعات اس معاملے میں کوئی خاص بہتر ثابت نہیں ہوئیں۔

وہ کہتی ہیں کہ قدرتی یا گرین مصنوعات نے بھی اتنے ہی کیمیائی مرکبات فضا میں چھوڑے جتنے عام مصنوعات میں پائے گئے۔ تاہم سرکہ کیمیائی طور پر مختلف ہے۔ وہ صرف پانی اور ایسیٹک ایسڈ (اور چند اور عناصر جو اسے سرخ یا سفید سرکہ بناتے ہیں) پر مشتمل ہوتا ہے۔

کارسلاؤ کہتی ہیں کہ سرکہ اس انداز میں کیمیائی طور پر ردعمل ظاہر نہیں کرتا۔

کارسلاؤ مزید کہتی ہیں کہ سرکہ کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اسے سپرے کے بجائے عام طور پر کپڑے سے سطح پر لگایا جاتا ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سپرے کی شکل میں صفائی کی مصنوعات کا استعمال سانس کے نظام پر زیادہ منفی اثر ڈالتا ہے جبکہ مائع یا کپڑے کے ذریعے لگانے کا اثر زیادہ برا نہیں ہوتا۔

وہ کہتی ہیں کہ جب آپ کسی چیز کو سپرے کرتے ہیں، تو آپ کیمیکل کو اس شکل میں بدل دیتے ہیں جو سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہونے کے لیے بہت آسان ہوتی ہے۔

البتہ وہ تلقین کرتی ہیں کہ چاہے کوئی بھی چیز استعمال کی جائے، ہمیشہ دستانے پہنیں، ہوا دار ماحول رکھیں اور کسی بھی قسم کی صفائی میں اعتدال مدنظر رکھیں۔

یہ سب جاننے کے بعد میرے ذہن میں ایک سوال باقی رہ گیا کہ کیا سرکہ روایتی صفائی کی مصنوعات کے مقابلے میں ماحول دوست انتخاب ہے؟

بیک مین کہتے ہیں اس کا جواب آسان نہیں ہے۔

ان کے مطابق مثالی طور پر ہر صفائی کی مصنوعات کے لیے لائف سائیکل تجزیہ ہونا چاہیے جو اس کے خام مال سے لے کر پیداوار، ترسیل، پیکجنگ اور آخرکار تلف کرنے تک کے اثرات کا احاطہ کرے۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ ’بہت کم کمپنیاں یہ مکمل تجزیہ کرتی ہیں، چاہے وہ اپنی مصنوعات کو ’گرین‘ ہی کیوں نہ ظاہر کریں۔‘

سرکے سے صفائی
Getty Images
سرکہ تیزی سے ٹوٹ جاتا ہے اور لہذا اس کا ماحولیاتی اثر کم ہوتا ہے

بیکمین نے مزید بتایا کہ ’سرکے کے بارے میں یہ ضرور کہوں گا کہ اس کی طاقت اس کی سادگی میں ہے۔‘

ان کے مطابق روایتی صفائی کے سامان میں ایک درجن سے زیادہ اجزا شامل ہو سکتے ہیں، جن میں سے کئی صنعتی طریقے سے توانائی خرچ کر کے تیار کیے جاتے ہیں۔

جبکہ ایسیٹک ایسڈ قدرتی طریقے سے الکحل کو خمیر کر کے بنتی ہے جبکہ الکحل خود شکر کو قدرتی طور سے خمیر کر کے بنائی جاتی ہے۔

بیکمین کہتے ہیں کہ سرکہ بنانے کے عمل میں سب سے بڑا ماحولیاتی اثر اس بات پر منحصر ہے کہ شکر کہاں سے آئی چاہے وہ انگور، سیب، اناج، آلو یا چاول ہوں اور یہ سب عام طور پر قابلِ تجدید ذرائع ہیں۔

تاہم بوک مول خبردار کرتے ہیں کہ یہ فارمولا صرف قدرتی طور پر خمیر شدہ سرکے پر لاگو ہوتا ہے، یعنی وہ جو عموماً خوراک کے طور پر بیچے جاتے ہیں۔

مارکیٹ میں کئی مصنوعی سرکے بھی موجود ہیں جو فوسل فیولز (یعنی تیل و گیس) استعمال کر کے تیار کیے جاتے ہیں، اور ان کے ساتھ وہ تمام ماحولیاتی نقصانات جڑے ہوتے ہیں جو تیل و گیس کی کھدائی سے ہوتے ہیں۔

یہاں تک کہ سرکہ جب استعمال کے بعد ماحول میں جاتا ہے تب بھی اس کا اثر بہت معمولی ہوتا ہے۔

بیکمین کے مطابق صابن میں موجود کئی اجزا ایسے سخت مالیکیول ہوتے ہیں جو آسانی سے تحلیل نہیں ہوتے اور بعض اوقات وہ ماحول میں جانے کے بعد بھی جانداروں کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔

جبکہ سرکہ بہت جلد ٹوٹ کر تحلیل ہو جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ سرکہ کسی بھی پائیداری کے پیمانے پر پورا اترتا ہے کیونکہ یہ سادہ ہے اور تحلیل ہونے والا ہے۔

یہ سب جاننے کے بعد میں نے سرکہ استعمال کرنے کے معاملے میں خود کو پہلے سے بھی زیادہ مطمئن پایا۔

میں غالباً صفائی کے دوران جراثیم ختم کرنے کے لیے اس پر مکمل انحصار نہیں کروں گی لیکن چونے (لائم اسکیل) کو صاف کرنے کے لیے اسے ضرور استعمال کرتی رہوں گی اور اگلی زنگ آلود چیز پر آزمانے کا انتظار رہے گا۔

مجھے خوشی ہے کہ میں ایک ایسا پائیدار اور ممکنہ طور پر صحت بخش متبادل استعمال کر رہی ہوں خواہ اس کی بو مجھے ناگوار ہی کیوں نہ لگے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.