کرونیے کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بطور کرکٹر اور کپتان مضبوط اعصاب کے مالک تھے جو میدان میں بہت خاموشی کے ساتھ اپنی حکمت عملی ترتیب دیتے نظر آتے اور میدان سے باہر بھی وہ بڑے تحمل سے میڈیا سے بات کرتے دکھائی دیتے تھے۔

نوٹ: یہ تحریر اس سے قبل یکم جون 2020 کو شائع کی گئی تھی جسے آج کے دن کی مناسبت سے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔
یکم جون 2002 کو جنوبی افریقی سابق کپتان ہنسی کرونیئے جوہانسبرگ سے جارج ٹاؤن روانہ ہونے والے تھے لیکن وہ پرواز منسوخ کر دی گئی۔
یہی وجہ ہے کہ ہنسی نے ایک چھوٹا جہاز کرائے پر لیا اور اس میں واحد مسافر کے طور سوار ہوئے لیکن یہ بدقسمت طیارہ جارج ٹاؤن ایئرپورٹ پر لینڈنگ سے پہلے ہی قریب واقع پہاڑ سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا اور ہنسی کرونیے طیارے کے دونوں پائلٹوں سمیت اس حادثے میں ہلاک ہو گئے۔
ہنسی کرونیے کی موت کو 22 سال ہو چکے ہیں لیکن دنیا انھیں بھلانے کے لیے تیار نہیں۔
اگرچہ وہ میچ فکسنگ سکینڈل کے ایک اہم کردار کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں لیکن انھیں یاد کرتے ہوئے نفرت آمیز الفاظ کے بجائے حیرانی اور ہمدردی کے جذبات زیادہ غالب ہوتے ہیں کہ ایک باوقار اور ایماندار کرکٹر کیسے اس گھناؤنے عمل (میچ فکسنگ) کا حصہ بن گیا؟
کرونیے کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بطور کرکٹر اور کپتان مضبوط اعصاب کے مالک تھے جو میدان میں بہت خاموشی کے ساتھ اپنی حکمت عملی ترتیب دیتے نظر آتے اور میدان سے باہر بھی وہ بڑے تحمل سے میڈیا سے بات کرتے دکھائی دیتے تھے۔
ان کے پرستار صرف جنوبی افریقہ تک ہی محدود نہیں بلکہ پوری دنیا میں موجود تھے اور شاید یہی وجہ ہے کہ جب میچ فکسنگ سکینڈل میں ان کا نام آیا تو کرکٹ کے سب مداحوں پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔

کرونیے سب کو دھوکہ دیتے رہے
جب دہلی پولیس نے سات اپریل 2000 کو ہنسی کرونیے کے مبینہ طور پر میچ فکسنگ میں ملوث ہونے اور ایک بک میکر سنجے چاؤلہ کے ساتھ ٹیلی فون گفتگو کی بنیاد پر باضابطہ مقدمہ درج کرنے کا اعلان کیا تو ایسا لگا کہ جیسے پورا جنوبی افریقہ ان کے دفاع میں آگے آ گیا ہو۔
کوئی بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہ تھا کہ کرونیے ایسا کچھ کر سکتے ہیں۔ وہ نہ صرف جنوبی افریقی کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے بلکہ ملک میں انھیں قومی ہیرو کا درجہ حاصل تھا۔
ہنسی کرونیے کے چرچ کے پادری رے مک کاؤلی ہوں یا جنوبی افریقی ٹیم کے کوچ گراہم فورڈ، سب نے اسے محض الزام تراشی قرار دیا جبکہ سابق کوچ باب وولمر کا کہنا تھا کہ اپریل فول کا اس سے زیادہ خراب مذاق کوئی اور نہیں ہو سکتا۔
جب یہ خبر منظرعام پر آئی تو جنوبی افریقی کرکٹ بورڈ کے صدر ڈاکٹر علی باقر نے فوری طور پر ہنسی کرونیے سے رابطہ کیا اور دونوں کی گفتگو کے بعد ڈاکٹر علی باقر کی جانب سے جو بیان جاری کیا گیا اس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ ان کا کپتان میچ فکسنگ میں ملوث نہیں ہے۔ اس دوران انڈیا اور جنوبی افریقہ کے سفارتی تعلقات میں بھی گرما گرمی آ گئی تھی۔

بک میکرز سے پیسے لینے کا اعتراف
گیارہ اپریل 2000 کی صبح ہونے میں ابھی بہت وقت باقی تھا جب ہنسی کرونیے نے جنوبی افریقی ٹیم کے چیف سکیورٹی افسر روری سٹین کو فون کر کے ہوٹل میں اپنے کمرے میں بلایا اور اپنا تحریر کردہ بیان ان کے حوالے کر دیا۔
روری سٹین نے جب وہ بیان پڑھا تو وہ حیران رہ گئے کیونکہ اس میں وہ سب کچھ تحریر تھا جس سے کرونیے پچھلے چند روز کے دوران انکار کرتے آئے تھے۔
یہ سب کچھ ایسے وقت ہوا جب اگلے ہی روز جنوبی افریقہ کو ڈربن میں آسٹریلیا کے خلاف ون ڈے انٹرنیشنل میچ کھیلنا تھا۔
جنوبی افریقی کرکٹ بورڈ کے صدر ڈاکٹر علی باقر نے ہنسی کرونیے کو فوری طور پر معطل کر کے شان پولاک کو کپتان بنانے کا اعلان کیا جس کے بعد کنگ کمیشن تشکیل دیا گیا جس نے ہنسی کرونیے پر تاحیات پابندی عائد کر دی تھی۔

پانچ رینڈ یومیہ سے بک میکر کے لاکھوں تک
ہنسی کرونیے نے کرکٹ سے جائز ناجائز کتنا کمایا اس کا کوئی حساب کتاب موجود نہیں ہے لیکن کرکٹ سے ان کی والہانہ محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب وہ سولہ برس کے تھے تو فری سٹیٹ کے صوبائی میچوں میں سکور بورڈ پر ڈیوٹی دیا کرتے تھے جس میں انھیں لنچ کے علاوہ پانچ رینڈ یومیہ ملا کرتے تھے۔
یہی کرکٹ میں ہنسی کرونیے کی پہلی آمدنی کہی جا سکتی ہے اور جب وہ جنوبی افریقی کرکٹ ٹیم میں آئے تو دولت شہرت اور عزت سب کچھ ان کی منتظر تھی لیکن بک میکرز سے روابط کے بعد انھیں پیسے اور تحائف تو ملتے رہے لیکن ساتھ ہی وہ اس مافیا کے شکنجے میں جکڑتے چلے گئے۔

ہنسی کرونیے کی زندگی میں بک میکر سنجے چاؤلہ کا ذکر نمایاں ہے جسے برطانوی حکومت نے بیس سال انگلینڈ میں رہنے کے بعد انڈیا کے حوالے کیا تھا اور بعدازاں عدالت نے ان کی ضمانت منظور کر لی تھی۔
دوسری جانب ہنسی کرونیے کی بیوہ برتھا نے کرونیے کی موت کے ایک سال بعد ہی ایک فنانشل آڈیٹر جیک ڈوپلیسی سے شادی کر لی تھی۔ زندگی ان سب کے لیے اسی طرح رواں دواں ہے لیکن کرونیے کے لیے جیسے سب کچھ تھم گیا۔