اسرائیل نے کہا ہے کہ سویڈن سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن گریٹا تھنبرگ فلائٹ کے ذریعے فرانس جا رہی ہیں۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اسرائیل وزارت خارجہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’گریٹا تھنبرگ بذریعہ فلائٹ اسرائیل سے فرانس کے لیے روانہ ہو رہی ہیں۔‘اسرائیلی فوج نے پیر کو غزہ جانے والی ایک امدادی کشتی ’میڈلین‘ کو بین الاقوامی پانیوں میں روکتے ہوئے اپنے قبضے میں لے لیا تھا اور اس میں سوار مشہور ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ سمیت 12 کارکنوں کو حراست میں لیا تھا۔انسانی حقوق کے لیے سرگرم اسرائیلی تنظیم ’عدلہ‘ نے کہا تھا کہ تمام کارکنوں کو اسرائیلی شہر راملے کے حراستی مرکز منتقل کیا گیا ہے جہاں سے بعدازاں انہیں ان کے آبائی ممالک واپس بھیج دیا جائے گا۔دوسری جانب فرانسیسی وزیر خارجہ نے منگل کو کہا کہ کشتی پر سوار پانچ فرانسیسی کارکنوں کو اسرائیلی جج کے سامنے پیش ہونا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے وکیل کی چھ فرانسیسی شہریوں سے ملاقات ہوئی ہے جنہیں گزشتہ رات اسرائیلی حکام نے حراست میں لیا تھا۔‘’ان میں سے ایک نے رضاکارانہ طور پر واپس جانے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے اور انہیں آج پہنچ جانا چاہیے۔ جبکہ دیگر کو جبری جلاوطنی کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘یہ امدادی مشن ’فریڈم فلوٹیلا کولیشن‘ کے زیرِ اہتمام ترتیب دیا گیا تھا جس کا مقصد غزہ میں جاری انسانی بحران کے خلاف آواز بلند کرنا اور ضروری امداد پہنچانا تھا۔گروپ کا کہنا ہے کہ کارکنوں کو اس وقت ’اغوا‘ کیا گیا جب وہ مظلوم فلسطینی عوام تک امداد پہنچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ترکیہ کی حکومت نے اس کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسرائیل پر ’بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی‘ کا الزام عائد کیا ہے۔اس سفر میں یورپی پارلیمنٹ کی فرانسیسی رکن ریما حسن سمیت مختلف ملکوں کے کارکن شریک تھے۔ ریما حسن کو فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھانے پر پہلے ہی اسرائیل میں داخلے سے روک دیا گیا تھا۔اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی امدادی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی ناکہ بندی اور مسلسل بمباری نے غزہ کو قحط کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔اسرائیل نے مارچ کے اوائل میں خوراک، ایندھن اور ادویات سمیت تمام امداد کی ترسیل بند کر دی تھی تاہم بین الاقوامی دباؤ کے بعد معمولی مقدار میں امداد کی اجازت دی گئی۔