کل تک سوشل میڈیا اور انڈین میڈیا پر فخر کے ساتھ انڈیا کی جانب سے پانچ سنچریوں کے ریکارڈ کو پیش کیا جا رہا تھا اور لوگ اس نئی ٹیم کی تعریف کرتے تھک نہ رہے تھے جس میں نہ تو کوہلی تھے اور نہ ہی روہت شرما لیکن آج اسی پر حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ کوئی ٹیم اتنے رنز اور سنچریاں بنانے کے بعد بھی کیسے ہار سکتی ہے۔

کرکٹ کو شاید اسی لیے ناقابل یقین چیزوں کا کھیل بھی کہا جاتا ہے کیونکہ کبھی کبھی کوئی ٹیم ریکارڈ بنا کر بھی ہار جاتی ہے۔
گذشتہ روز انگلینڈ کے شہر لیڈز میں ایسا ہی کچھ ہوا جب نوجوان انڈین ٹیم دونوں اننگز میں پانچ سنچریاں بنانے کے بعد بھی انگلینڈ کی دو سنچریوں کے سامنے ڈھیر ہو گئی۔
اس طرح انگلینڈ نے پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے پہلے میچ میں پانچ وکٹوں سے کامیابی حاصل کر کے ایک صفر کی برتری حاصل کر لی۔
کل تک سوشل میڈیا اور انڈین میڈیا پر فخر کے ساتھ انڈیا کی جانب سے پانچ سنچریوں کے ریکارڈ کو پیش کیا جا رہا تھا اور لوگ اس نئی ٹیم کی تعریف کرتے تھک نہ رہے تھے جس میں نہ تو کوہلی تھے اور نہ ہی روہت شرما لیکن آج اسی پر حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ کوئی ٹیم اتنے رنز اور سنچریاں بنانے کے بعد بھی کیسے ہار سکتی ہے۔
میچ کا احوال
بین سٹوکس کی سربراہی میں انگلینڈ ٹیم نے لیڈز کے میدان پر ٹاس جیت کر انڈیا کو بیٹنگ کی دعوت دی۔
سابقہ ریکارڈز کے مطابق بین سٹوکس پہلے دن پچ کی تازگی کا فائدہ اٹھانا چاہتے تھے لیکن انڈین ٹیم نے اچھی شروعات کی اور ان کی پہلی وکٹ 91 رنز پر گری اور یوں لگا کہ جیسے بین سٹوکس نے فیصلہ لینے میں غلطی کر دی۔
اوپنر یشسوی جیسوال نے سنچری بنائی (101) جبکہ دوسرے اوپنر کے ایل راہل 42 رنز بنا کر آوٹ ہوئے۔
رواں سال آئی پی ایل میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے سائی سدرشن کا یہ پہلا میچ تھا لیکن وہ صفر پر آؤٹ ہو گئے۔ اس کے بعد کپتان شبھمن گل آئے جنھوں نے ٹیم کے لیے سنچری (147) سکور کی اور جیسوال کے آؤٹ ہونے کے بعد آنے والے وکٹ کیپر بیٹسمین رشبھ پنت نے بھی سنچری (134) سکور کی۔
انڈین ٹیم ایک ریویو کے نتیجے کی منتظر جو اس کے حق میں نہ جا سکایوں ایک وقت پر انڈیا کا سکور تین وکٹوں کے نقصان پر 430 رنز تھا لیکن پھر یکے بعد دیگرے وکٹیں گرنے لگیں اور پوری ٹیم 471 رنز پر پویلین لوٹ گئی۔
جواب میں انگلینڈ کی ابتدا اچھی نہ رہی اور زیک کرالی محض چار رنز بنا کر آؤٹ ہو گئے لیکن پھر بین ڈکٹ اور اولی پوپ نے ٹیم کا سکور 126 تک پہنچا دیا۔ ڈکٹ 62 رنز بنا کر بمراہ کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے۔
اولی پوپ نے سنچری سکور کی اور 106 رنز بنا کر آوٹ ہوئے۔ انگلینڈ کے سب سے تجربہ کار بیٹسمین جو روٹ محض 28 رنز بنا سکے لیکن نوجوان ہیربروک 99 رنز پر آوٹ ہو گئے۔
انگلینڈ کے بقیہ کھلاڑیوں نے بھی تھوڑے تھوڑے رنز بنائے لیکن انگلینڈ انڈیا کے سکور سے چھ رنز پیچھے رہ گئی اور یوں انڈیا کو پہلے ٹیسٹ میں نفسیاتی برتری مل گئی۔ انڈیا کے فاسٹ بولر بمراہ نے پانچ وکٹیں لیں۔
’پہلی اننگز میں 650 رنز بنا کر میچ پر حاوی ہو سکتے تھے لیکن ایسا نہ ہوا‘
انڈیا نے دوسری اننگز کی ابتدا کی تو پہلی اننگز میں سنچری بنانے والے جیسوال چار رنز پر آؤٹ ہو گئے لیکن دوسرے اوپنر کے ایل راہل نے 137 رنز کی عمدہ اننگز کھیلی۔
وکٹ کیپر رشبھ پنت نے دوسری اننگز میں بھی جارحانہ انداز میں بیٹنگ کرتے ہوئے سنچری سکور کی۔ ایک وقت پر انڈیا کا سکور چار وکٹوں پر 333 رنز تھا کہ اوپنر راہل آؤٹ ہو گئے۔ ان کے آوٹ ہونے کے بعد ٹیم زیادہ رنز نہ بنا سکی اور پوری ٹیم 364 رنز پر آوٹ ہو گئی۔
یوں انگلینڈ کو میچ جیتنے کے لیے 371 رنز کا ہدف ملا جو اس نے اوپنر بین ڈکٹ کی سنچری اور زیک کرالی کی نصف سنچری کے ساتھ پانچ وکٹوں کے نقصان پر حاصل کر لیا۔
بین ڈکٹ کو پہلی اننگز میں 62 اور دوسری اننگز میں 149 رنز کے لیے پلیئر آف دی میچ قرار دیا گیا۔
رشبھ پنت نے دونوں اننگز میں سنچری بنائیمیچ کے بعد انڈین کپتان شبھمن گل نے کہا کہ ’ہم انگلینڈ کو 430 کا ہدف دینا چاہتے تھے لیکن آخری پانچ وکٹیں محض 25 رنز پر گر گئیں۔ انھوں نے کہا کہ کئی کیچز چھوڑ دیے گئے جس کا انڈین ٹیم کو خمیازہ بھگتنا پڑا۔‘
کوچ گوتم گمبھیر نے میچ کے بعد کہا کہ ’پانچوں دن ہمارے پاس مواقع تھے جب ہم میچ پر حاوی ہو سکتے تھے۔ ہمارے بہترین فیلڈرز نے کيچز گرائے۔ کرکٹ میں ایسا ہوتا ہے لیکن بیٹنگ میں ہم نے 40 رنز پر سات اور 30 رنز پر چھ وکٹیں کھوئیں۔ ہم پہلی اننگز میں 650 رنز بنا کر میچ پر حاوی ہو سکتے تھے لیکن ایسا نہ ہوا۔‘
ریکارڈز
انگلینڈ نے کرکٹ کی تاریخ میں سب سے زیادہ رنز کا ہدف دوسری بار کامیابی کے ساتھ حاصل کیا۔ اس سے قبل اس نے انڈیا کے ہی خلاف 378 رنز کا ہدف تین وکٹوں کے نقصان پر برمنگھم میں 2022 میں حاصل کیا تھا۔
اس سے قبل 2019 میں آسٹریلیا کے خلاف 362 رنز کا ہدف ان کی بہترین کارکردگی تھی جو کہ 1928 کے ایک ریکارڈ کے بعد قائم ہوئی تھی۔
انڈین ٹیم نے دونوں اننگز میں پانچ سنچریاں بنائیں جو انڈین ٹیم کے لیے تو ایک نیا ریکارڈ تھا لیکن اس معاملے میں آسٹریلیا اور پاکستان کے پاس بھی مشترکہ ریکارڈ ہے کہ ان کی ٹیم نے ایک ہی اننگز میں پانچ سنچریاں بنائی تھیں۔
آسٹریلیا نے 1955 میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کنگزٹن میں یہ ریکارڈ قائم کیا تھا جب انھوں نے آٹھ وکٹوں کے نقصان پر 758 رنز بنائے تھے اور یہ ٹیسٹ انھوں نے ایک اننگز اور 82 رنز سے جیت لیا تھا۔
پاکستان نے 2001 میں ملتان میں یہ کارنامہ دہرایا تھا جب بنگلہ دیش کے خلاف اس کے پانچ کھلاڑیوں نے سنچریاں بنائیں۔ پاکستان نے تین وکٹ کے نقصان پر 546 رنز بنا کر اپنی اننگ ڈیکلیئر کر دی تھی اور بنگلہ دیش کو ایک اننگز اور 264 رنز سے شکست ہوئی تھی۔
سمتھ نے جڈیجہ کے ایک اوور میں 18 رنز بنا کر میچ جیت لیا جس میں دو چھکے شامل تھےانگلینڈ کو آخری دن جیت کے لیے 350 رنز چاہیے تھے جو اس نے کامیابی کے ساتھ حاصل کیا۔ اس سے قبل ایک ہی بار اس سے زیادہ رنز حاصل کیا جا سکا تھا اور آسٹریلیا نے انگلینڈ کے خلاف 404 رنز بنائے تھے اور میچ میں جیت حاصل کی تھی۔
انڈیا پہلی ٹیم بنی جس نے پانچ سنچریاں بنانے کے بعد میچ گنوایا اس سے قبل 1928 میں آسٹریلیا کی جانب سے چار سنچریاں لگائی گئی تھی اور پھر بھی ٹیم انگلینڈ سے میچ ہار گئی تھی۔
میچ میں مجموعی طور پر 835 رنز بنانے کے باوجود انڈین ٹیم ہار گئی۔ یہ چوتھا موقعہ تھا جب اتنا یا اس سے زیادہ رنز بنانے کے بعد کوئی ٹیم ہاری ہو۔ اس سے قبل وہ 759 رنز بنا کر آسٹریلیا سے ہاری تھی۔
واضح رہے کہ اس میچ میں دونوں ٹیموں نے مل کر کل 1673 رنز بنائے جو دونوں کے درمیان آج تک سب سے زیادہ سکور ہے۔
رشبھ پنت انڈیا کی جانب سے دونوں اننگز میں سنچری بنانے والے پہلے وکٹ کیپر بنے۔ انھوں نے اس دوران انڈیا کی جانب سے وکٹ کیپر کی حیثیت سے سب سے زیادہ سنچری کا مہیندر سنگھ دھونی کا ریکارڈ توڑ دیا۔
بین ڈکٹ کو ان کی دونوں اننگز میں نمایاں کارکردگی کے لیے پلیئر آف دی میچ قرار دیا گياسوشل میڈیا پر ردعمل
لوگ سوشل میڈیا پر پوچھ رہے ہیں کہ پانچ سنچریاں بنانے کے بعد بھی انڈیا کی شرمناک شکست کا ذمہ دار کون ہے۔
بہت سے صارفین ہیڈ کوچ گوتم گمبھیر کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ بہت سے لوگ کیچ ڈراپ کیے جانے کو شکست کی وجہ بتا رہے ہیں۔
کیچز چھوڑنے کے لیے جیسوال کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جنھوں نے کئی کیچ چھوڑے۔
معروف امپائر رچرڈ کیٹلبرو نے ٹویٹ کیا کہ ’148 سالہ کرکٹ کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ کوئی ٹیم پانچ سنچریاں بنانے کے بعد بھی ہار جائے۔ تو اس شرمناک شکست کا ذمہ دار کون ہے؟‘
انڈیا کے سابق کرکٹر مناف پٹیل نے ایکس پر لکھا کہ ’یقیناً ہم ہدف سے دور رہے، کیچز گرنے سے ہمیں میچ ہارنا پڑا۔ آئیے غلطیوں سے سیکھیں اور اگلے کھیل میں مزید مضبوطی سے واپس آئیں۔‘
جیسوال نے پہلی اننگز میں سنچری سکور کی لیکن انھیں کیچز ڈراپ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہےکریتیکا کوئن نامی ایک صارف نے لکھا: 'آپ جیسوال کو گلی میں رکھیں، وہاں وہ ایک آسان سا کیچ چھوڑ دیتے ہیں۔ انھیں باؤنڈری پر رکھ دیں تو بھی وہ کیچ نہیں پکڑ سکتے۔‘
جہاں لوگ جیسوال کو کیچز نہ پکڑنے کے لیے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں وہیں رشبھ پنت کی تعریف بھی کر رہے ہیں کہ وہ تاریخ میں صرف دوسرے وکٹ کیپر ہیں جنھوں نے دونوں اننگز میں سنچری بنائی۔
بہت سے صارفین وراٹ کوہلی اور ان کی کپتانی کو بھی یاد کر رہے ہیں جبکہ ایک صارف نے لکھا کہ پچھلے نو میچز میں انڈیا نے ایک میچ میں جیت حاصل کی جبکہ ایک میچ ڈرا رہا بقیہ سات میچز میں اسے ناکامی حاصل ہوئی۔