ٹرمپ کا سفر درحقیقت منزل نہیں بلکہ عارضی پڑاؤ کی جانب تھا: امریکی صدر کے ساتھ گزرے 24 گھنٹوں کی روداد

غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کی تکمیل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایک روزہ دورے سے ہوئی۔ غزہ میں دو سال تک جاری رہنے والی جنگ کے خاتمے کے لیے یہ سب سے پیچیدہ لمحات میں سے ایک تھا۔
ٹرمپ
Getty Images

غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کی تکمیل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایک روزہ دورے سے ہوئی ہے۔ غزہ میں دو سال تک جاری رہنے والی جنگ کے خاتمے کے ضمن میں یہ سب سے پیچیدہ لمحات میں سے ایک تھا۔

ٹرمپ نے اسے تین ہزار برسوں کا ’ٹرننگ پوائنٹ‘ یعنی اہم موڑ قرار دیا ہے۔ منگل کی صبح مصر سے واپسی کی پرواز کے دوران انھوں نے کہا کہ ’اگر میں اسے سادہ الفاظ میں بھی بیان کروں تو یہ تاریخی دن ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اُن کی قیادت میں طویل عرصے تک تشدد کی لپیٹ میں رہنے والے خطے میں ’دیرپا امن‘ حاصل کیا گیا ہے۔

وائٹ ہاؤس کی کوریج کرنے والے صحافیوں کے ہمراہ ہم امریکی صدر کے طیارے ’ایئر فورس ون‘ میں سفر کر رہے تھے۔ اور اس سفر کے دوران میں نے خود کو ’امریکی سفارتی طوفان‘ کے بیچ و بیچ محسوس کیا۔

جب ہم تل ابیب کی طرف بڑھ رہے تھے تو صدارتی طیارہ ساحل کے قریب سے گزرا۔ پائلٹ کی جانب سے طیارہ کچھ نیچے لایا گیا تاکہ طیارے پر سوار صحافی ساحلی ریت پر بڑا سا ’تھینک یو ٹرمپ‘ (شکریہ ٹرمپ) لکھا دیکھ سکیں۔ اس پر اسرائیلی پرچم کے ساتھ ساتھ امریکی صدر کی تصویر بھی بنی ہوئی تھی۔

A giant sign created on a Tel Aviv beach reads
Reuters

طیارے کو ساحل کی جانب موڑ کر تھوڑا نیچے کرنے جیسی حرکت اِس سفر کی نمائندگی کرتی ہے جو کسی فتح کے جشن سے کم نہیں تھا۔ اس دوران غزہ جنگ بندی کے ’دوسرے مرحلے‘ کے لیے باریکی سے تفصیلات طے نہیں کی جا رہی تھی جس کے تحت غزہ کے طویل مدتی مستقبل میں امن کو یقینی بنایا جائے۔

گذشتہ ہفتے دوحہ میں ٹرمپ کی طرف سے فریقین پر شدید دباؤ کے بعد امن معاہدے پر اتفاق ہوا تھا۔ یہ لاکھوں لوگوں کے لیے ایک تاریخی لمحہ تھا۔ اس کے نتیجے میں غزہ میں فوجی کارروائیاں بند ہوئیں، حماس نے فلسطینی قیدیوں کے بدلے یرغمالیوں کو اسرائیل کے حوالے کیا اور غزہ میں فلسطینی اپنے تباہ حال گھروں میں لوٹ گئے، کیونکہ اسرائیلی دستوں نے جزوی طور پر انخلا کر لیا تھا۔

میرا خیال ہے کہ ٹرمپ کا سفر ایک راستے کی شروعات ہے مگر اس کی کوئی منزل نہیں۔ یہ ایک صدی پرانی لڑائی پر ایک کمزور جنگ بندی کا معاہدہ ہے اور ایسے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے کہ یہ مسئلہ حل ہو چکا ہے۔

ٹرمپ کے اس دورے پر سب سے اہم سوال یہی تھا کہ کیا یہ معاہدہ قائم رہ سکے گا اور کیا ٹھوس بات چیت اسے آگے بڑھا سکے گی۔

پرواز کے دوران ٹرمپ نے ہم سے گفتگو کی۔ دروازے کے قریب کھڑے ہو کر وہ واضح طور پر اسے اپنی کامیابی ظاہر کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے معاہدے کے لیے مذاکرات میں اپنے کردار کا بارہا ذکر کیا۔

انھوں نے یہ دہرایا کہ ’ہر ملک کی گلیوں میں لوگ رقص کر رہے ہیں۔‘ میں نے اُن سے پوچھا کہ آیا جنگ بندی دیرپا ہو گی؟ وہ اس بارے میں پُراعتماد ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’بہت سی وجوہات ہیں کہ یہ جنگ بندی کیوں دیرپا ہو گی۔‘

تل ابیب کے مرکزی چوک پر سکرین لگا کر ٹرمپ کی آمد کے لمحات عوام کو دکھائے گئے
Getty Images
تل ابیب کے مرکزی چوک پر سکرین لگا کر ٹرمپ کی آمد کے لمحات عوام کو دکھائے گئے

میں نے اُن سے انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس (آئی ایس ایف) کے بارے میں پوچھا جس کا ذکر 20 نکاتی غزہ امن منصوبے میں کیا گیا ہے۔ منصوبے میں کہا گیا ہے کہ یہ فورس غزہ میں تعینات ہو گی اور امن یقینی بنائے گی۔ مگر اب تک اس کے بارے میں فریقین کے درمیان اتفاق نہیں ہوا ہے۔

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک بڑی اور طاقتور فورس ہو گی۔‘ اُن کا کہنا تھا کہ اسے شاذ و نادر ہی استعمال کرنے کی ضرورت پڑے گی کیونکہ ’لوگ اپنا برتاؤ ٹھیک رکھیں گے۔ سب کو اپنی جگہ معلوم ہے۔‘

تل ابیب میں رن وے پر اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے ٹرمپ کا ریڈ کارپٹ استقبال کیا اور وہاں فوجی بینڈ بھی موجود تھا۔ ہم پھر پروٹوکول کے ساتھ یروشلم روانہ ہوئے اور صدارتی قافلے کے لیے سڑکیں بالکل خالی تھیں۔

تل ابیب میں واقع ’ہاسٹیج سکوائر‘ پر ہزاروں لوگوں کی آنکھیں سکرینز کی طرف تھیں۔ جب غزہ میں حماس نے یرغمالیوں کو اسرائیل کے حوالے کیا تو لوگوں خوشی کے آنسو بہائے اور سکھ کا سانس لیا۔ سکرین میں دوسری طرف ٹرمپ کی آمد دکھائی جا رہی تھی کہ امریکی صدر اسرائیل میں پہنچ چکے ہیں۔

اسرائیلی پارلیمنٹ میں سڑکوں سے زیادہ شور شرابہ تھا۔ بعض اراکین نے ٹرمپ کی جماعت کی نمائندگی کرنے والی سرخ ٹوپیاں پہن رکھی تھیں جو پارلیمانی عملے نے تقسیم کی تھیں۔ اُن پر ’امن کا صدر‘ تحریر تھا۔

پارلیمان کی گیلری میں موجود لوگوں نے ’تھینک یو ٹرمپ‘ کے نعرے لگائے۔ قانون سازوں نے ڈیسک بجا کر ٹرمپ کا استقبال کیا اور ٹرمپ نے ’مشرق وسطیٰ کے نئے تاریخی دور‘ کا اعلان کیا۔

انھوں نے ایسے تمام شکوک و شبہات دور کر دیے کہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ انھیں توقع ہے کہ جنگ دوبارہ شروع نہیں ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ امریکی مدد سے ساتھ اسرائیل نے ہتھیاروں کی طاقت سے تمام فتوحات حاصل کیں۔

ٹرمپ
Getty Images

مگر ان کی تقریر کے دوران امریکہ میں سیاسی مخالفین پر حملے میں شامل تھے۔ انھوں نے گیلری میں بیٹھے لوگوں کی تعریف کی جو ان کی انتخابی مہم کے بڑے ڈونر تھے۔

ٹرمپ نے اپنی تقریر کے دوران اسرائیلی صدر سے مطالبہ کیا کہ وہ وزیر اعظم نتن یاہو کو بدعنوانی کے مقدمے میں صدارتی معافی دیں۔ نتن یاہو اس الزام کی تردید کرتے ہیں کہ انھوں نے رشوت میں مہنگے تحائف لیے تھے۔ ٹرمپ نے کہا کہ ’سگار اور شیمپین، کس کو ان کی پرواہ ہے؟‘

اسرائیل میں سات گھنٹے گزارنے کے بعد وائٹ ہاؤس کے پریس افسران ہمیں اپنے ساتھ ایئر پورٹ لے گئے جہاں سے ہمیں مصر (شرم الشیخ) لے جایا گیا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں اسرائیل اور حماس کے درمیان بات چیت میں پیشرفت ہوئی تھی۔

مصر میں لینڈنگ سے قبل مصری ایف 16 طیاروں نے ہمارا استقبال کیا۔ انھیں معلوم تھا کہ امریکی صدر فوجی طاقت کی نمائش پسند کرتے ہیں۔ ٹرمپ اس دن کے ہر لمحے کا جشن منانا چاہتے تھے۔

مگر اس خطے میں کئی خطرات ہیں۔ یہ بھی ایک خطرہ تھا کہ وہ یہاں پہنچنے سے پہلے ہی معاہدے کی تکمیل کا اعلان کر چکے تھے۔

ٹرمپ
Getty Images

شرم الشیخ میں اجلاس کے موقع پر ایک بڑے سائن بورڈ پر بڑے حروف میں لکھا تھا کہ ’مشرق وسطیٰ میں امن۔‘ پھر عالمی رہنما اس کمرے میں جمع ہو گئے جہاں ٹرمپ نے تقریر کے دوران امن کی بات کی۔

تمام سربراہان اپنے پرچموں کے سامنے کھڑے تھے اور ٹرمپ نے ایک، ایک کر کے سبھی کے ملکوں کو گنوایا۔ مصری صدر عبدالفتح السیسی نے ٹرمپ کو تقریر کی دعوت دی۔ انھوں نے کہا تھا کہ اس تمام کارروائی کا مقصد اسرائیلی اور فلسطینیوں کے درمیان دو ریاستی حل ہے۔

ٹرمپ سال کی شروعات کے بعد اپنی پوزیشن میں بڑی تبدیلی لائے ہیں۔ اُن کی اسرائیلی قیادت کے برتاؤ سے الجھن بڑھ رہی تھی اور وہ خلیج میں اپنے دوستوں کے مزید قریب ہو گئے۔

ایسا اس سفارتی اقدام کے دوران ہوا جب یورپی ممالک نے غزہ میں فوجی کارروائیاں بڑھنے پر اسرائیل کو تنہا کر دیا اور وہ اپنے مقاصد کے لیے سعودی قیادت کے قریب ہو گئے۔

ٹرمپ نے اپنے خلیجی اتحادیوں کی طرف رُخ کیا۔ اس دورے پر انھوں نے اپنے اِن اتحادیوں کی دولت اور 'طاقت' کا بار بار ذکر کیا تھا۔

ٹرمپ شرم الشیخ میں اس تقریب کا حصہ بنے جس میں معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ انھوں نے کہا کہ اس میں تین ہزار سال لگے ہیں۔

لیکن ابھی کئی سال باقی ہیں اور غزہ میں قیام امن کے لیے ایک آدمی ناکافی ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US