والدین بننے کی خواہش ہر شادی شدہ جوڑے کو ہوتی ہے، کچھ جوڑے شادی کے فوراً بعد بچے کیلیئے کوشش کرتے ہیں تو کچھ جوڑے کچھ سال وقفے کے بعد پر بچہ ہر کسی کو چاہیئے ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بچہ ماں باپ کے رشتے کو مضبوط کرتا ہے! اب یہ بات کس حد تک سچ ہے یہ نہیں کہا جاسکتا، والدین بننے کیلیئے ہر کسی کو الگ الگ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آج ہم ایک ایسے جوڑے کی کہانی آپکو بتانے جارہے ہیں جنھوں نے بچے کیلیئے 8 سال انتظار کیا اسکے بعد انکے ساتھ کیا ہوا یہ آپ اس ماں کی زبانی ہی سنیں۔
ہیومنز آف بمبئی کی ویب سائیٹ پر شائع ہونے والی یہ کہانی ممبئی سے تعلق رکھنے والے ایک جوڑے کی ہے، جب انٹرویو میں ان سے انکے ماں بننے کے سفر کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے بتایا؛
میرے شوہر آدتیہ اور میں نے والدین بننے کا فیصلہ ہماری شادی کے آٹھ سال بعد کیا اس دوران ہم نے اپنی زندگی بھرپور طریقے سے جی۔ ایک دن میں نے آدتیہ سے کہا کہ میں اب ماں بننے کے لیے تیار ہوں اور یہ سن کر وہ راضی ہو گیا اور ہم اگلے دن ڈاکٹر کے پاس گئے، ڈاکٹر نے کچھ ٹیسٹ کروائے اور نتائج کا انتظار کرنے کو کہا۔ میں بے چین تھی کہ نہ جانے کیا ہوگا میں ماں بن بھی پاؤں گی یا نہیں اس پریشانی کے وقت میں آدتیہ نے میری کافی حوصلہ افزائی کی۔ اور 3 ماہ بعد، ڈاکٹر نے کہا 'آپ تیار ہیں'۔ ہم نے فوراً کوشش شروع کر دی اور چند ہفتوں بعد، جب میری ماہواری نہیں آئی تو میں نے گھر میں ٹیسٹ کیا اور جب میں نے وہ دو گلابی لکیریں دیکھی تو میں خوشی کے مارے آدتیہ کے گلے لگ گئی۔ ایک ہفتے بعد اپنی شادی کی سالگرہ کے دن ہم نہرو پارک گئے جہاں آدتیہ نے کہا 'اگلے سال ہم دو سے تین ہوجائیں گے'۔ میں نے اپنی صحت کا بہت خیال رکھنا شروع کر دیا تھا کیونکہ میں کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتی تھی۔
پہلا مہینہ تھوڑا مشکل گیا میری شوگر کی سطح میں اتار چڑھاؤ آرہا تھا۔ آدتیہ نے میرا اور زیادہ خیال رکھنا شروع کردیا۔ لیکن 9 ہفتوں کے بعد حالات مزید تب خراب ہوئے جب میں ایک دن بیدار ہوئی اور دیکھا کہ خون بہہ رہا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا 'بچے کی نشوونما معمول سے کم ہے'۔ میرا دل میرے منہ میں تھا۔ میں نے اور ٹیسٹ کروائے، مجھے دو ہفتوں کے لیے دوائی اور بیڈریسٹ پر رکھا گیا۔ کچھ دنوں بعد جب ٹیسٹ کے رزلٹ آئے تو ڈاکٹر نے بتایا 'آپ کے بچے کے دل کی دھڑکن بند ہوگئی ہے' یہ سن کر میری دھڑکنیں بند ہورہی تھیں۔ میں 10 ہفتوں کی حاملہ تھی جب مجھے اسقاط حمل ہوا تھا۔ میری زندگی جیسے رک سی گئی تھی۔
مزید یہ کہ دوائیوں کی وجہ سے مجھے مسلسل پیشاب آتا رہتا اور پیٹ میں دردناک درد رہتا تھا۔ میری ماں میرے پاس بیٹھتی میری پیٹھ رگڑتی اور مجھے حوصلہ دیتیں۔ میں نے کافی دن بستر پر گزارے۔ تین ماہ بعد میں نے "چائلڈ برتھ ایجوکیٹر" کے طور پر کام شروع کیا اور آج تک کررہی ہوں، میں ان خواتین کی مدد اور انکو مشورے دیتی ہوں جنہوں نے میرے جیسا تجربہ کیا ہو۔ اس حادثے کو تقریباً دو سال ہو چکے ہیں لیکن آج بھی آدتیہ اور میں اکثر اپنے بچے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اسقاط حمل کے تین 3 دن بعد، ہم واپس نہرو پارک گئے تھے اور اسی جگہ بیٹھ کر ان بچوں کو کرکٹ کھیلتے ہوئے دیکھ رہے تھے جہاں ہم نے اپنے بچے کو کھیلتا ہوا سوچا تھا۔ میری دادی کہتی ہیں "تمھارا بچہ خدا کے ساتھ کھیل رہا ہے" اور یہ بات میرے دل کو تسلی دیتی ہے، مجھے لگتا ہے کہ میں نے اپنا بچہ نہیں کھویا ہے بلکہ میں ایک ایسے بچے کی ماں ہوں جو آسمان پر ہے۔