حمل کی شروعات سے ہی خواتین کو خاص خیال کرنے کی ہدایات دی جاتی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ دورانِ حمل کسی بھی خاتون کے جسم میں کئی قسم کی ہارمونل اور کیمیائی تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں اور ایک جان سے دوسری جان سے غذا منتقل ہوتی ہے۔ ماں کے پیٹ میں سے بچے کو غذا فراہم ہوتی ہے جوکہ دراصل ماں کا خون ہی ہوتا ہے جو قدرتی طور پر پانی اور فلوئیڈ کی شکل میں بچے کو ملتا ہے جس سے نشوونما ہوتی ہے۔ لیکن اگر احتیاط نہ کی جائے یا کوئی بیماری ہو جائے تو اکثر حمل کے 9 ماہ پورے نہیں ہو پاتے یا اگر مکمل ہو جائیں تو بچے میں یا تو کوئی پیچیدگی ہو جاتی ہے یا پھر بچہ دنیا میں آنے سے پہلے ہی مر جاتا ہے۔
ایک خاتون اپنی کہانی بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ:
"
میری شادی کو 12 سال ہوگئے، میں اس دوران 6 مرتبہ حاملہ ہوئی ہوں اور 5 مرتبہ میرے بچے پیٹ میں ہی مر جاتے تھے۔ کبھی اچانک پیٹ میں درد اٹھتا اور ڈاکٹر کے پاس جا کر معلوم ہوتا کہ پلیسنٹا پھٹ گیا اور بچہ مر گیا۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہوتی تھی جو دردناک تھی، شاید میری زندگی میں اتنا برا وقت کبھی نہیں آیا۔ پہلی 3 مرتبہ تو ڈاکٹر نے کہا کہ بچے کو خوراک صحیح نہیں ملی اور اس لیے وہ مر گیا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ مجھے ذیابطیس کا مسئلہ حمل کے شروع میں ہی ہونے لگتا اور بلڈ پریشر مستقل نہ رہتا جس کی وجہ سے بچوں کی اموات ہوئیں۔
"
مشہور گائناکولوجسٹ ڈاکٹر نائلہ جبین کہتی ہیں کہ:
"
اگر ایک مرتبہ بچہ پیٹ میں مر جائے تو اس کی مکمل جانچ پڑتال کروائیں کہ ایسا کیوں ہوا کیونکہ اگر آپ وجہ معلوم نہیں کروائیں گی تو آپ کے بعد میں آنے والے بچے بھی یونہی پیٹ میں مرنے کے خدشات زیادہ ہوں گے کیونکہ بچوں کی نشوونما اور ترسیل کا تمام تر راستہ ایک ہی ہے۔
"
ڈاکٹر نائلہ مزید بتاتی ہیں کہ:
"
اگر ماں کو شوگر ہو تو اس کا شوگر ہی بچے کے مرنے کی وجہ بنتا ہے کیونکہ ایسے کیسز میں خواتین کا خون گاڑھا ہو جاتا ہے اور بچے کو غذا کی ترسیل مکمل نہیں ہو پاتی۔ مزید جاننے کیلئے یہ ویڈیو دیکھیں:
"