میں اپنی فلم " اوم شانتی اوم" بنا رہی تھی اس وقت میرا آئی وی ایف کا پروسیجر بھی چل رہا تھا، صبح سات بجے میں اپنی ڈاکٹر کے پاس جاتی تھی اس کے بعد اپنی شوٹنگ پر اور پھر شام میں دوبارہ ہسپتال جاتی تھی کیونکہ اس میں 5 انجیکشن روزانہ لگتے تھے اور میں اس پروسیجر کے دوران تکلیف سے اور اسٹریس سے مسلسل روتی جاتی تھی لیکن کیونکہ مجھے بچے چاہیے تھے تو میں اس تکلیف سے بار بار گزری۔ اور ہر دفعہ جب یہ تجربہ ناکام ہوتا تھا تو میں بہت تکلیف ،اذیت اور مایوسی میں ہوتی تھی جبکہ میرے شوہر کی طرف سے بھی اس سلسلے میں کوئی دباؤ نہیں تھا ۔ لیکن مجھے اپنی اولاد چاہیے تھی۔
اب میرے 3 بچے ہیں اور یہ آئی وی ایف کی بدولت ہی مجھے ملے ہیں۔ ان میں 2 بیٹیاں اور 1 بیٹا ہے۔ تینوں بہت شرارتی ہیں اور مل کرشرارتیں بھی کرتے ہیں اور مجھے تنگ بھی کرتے ہیں۔ لیکن میرے بچے میری جنت ہیں اگر یہ نہ ہوتے تو میں بالکل ویران ہوتی۔ میری بیٹیاں میرے بال بناتی ہیں ، میرے پیر دباتی ہیں، ہم لوگ مل کر ہلا گلا کرتے ہیں ۔ میں نے ان کی دیکھ بھال کے لئے اسٹاف رکھا ہوا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ آئی وی ایف کےعمل میں بچے اپنے نہیں ہوتے لیکن ایسا بالکل نہیں ہے یہ بائیولوجیکلی اور ایموشنلی دونوں طرح سے میرے بچے ہیں۔ میری بیٹی کے بال بالکل میری طرح ہیں ، بیٹے کی شکل میرے شوہر سے ملتی ہے، آئی وی ایف کے طریقہ علاج کے لئے ضروری ہے کہ کسی اچھے سینٹر سے رابطہ کریں جو آپ کے پورے پروسیجر پر چیک رکھے اور آپ کو بھی ہر طرح سے مطمئن کر دے۔ اور ماہر ڈاکٹرز کی زیرِ نگرانی یہ سارا عمل شفاف طریقے سے کیا جائے۔