بچے کی پیدائش کے بعد جہاں ایک جانب ماں کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے وہیں دوسری طرف اس کی اپنی صحت اور وزن پر توجہ ہٹتی چلی جاتی ہے۔ اور جب تک ماں کو ان تمام باتوں کا احساس ہوتا ہے تب تک بہت دیر ہوچکی ہیں- اکثر خواتین کو بچے کی پیدائش کے بعد ماں کے وزن میں ہونے والے بےپناہ اضافے کی شکایت ہوتی ہے- اس صورتحال میں وزن کیوں بڑھتا اور اسے کیسے قابو کیا جاسکتا ہے؟ ان سوالات کے جواب جاننے کے لیے ہماری ویب کی ٹیم نے معروف ماہرِ خوراک ڈاکٹر عائشہ عباس سے خصوصی ملاقات کی- ڈاکٹر عائشہ ماؤں کو کیا تجاویز اور مشورے دیتی ہیں٬ آئیے جانتے ہیں:;ڈاکٹر عائشہ کہتی ہیں کہ “ بچے کی پیدائش کے بعد ماں کے وزن میں اضافہ ہوجانا ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے- ظاہر سی بات ہے کہ حمل ہمارے معاشرے کا ایک عام عنصر ہے جس کا سامنا ہر خاتون کو کرنا ہوتا ہے“- بچے کی پیدائش کے بعد اکثر خواتین کا خیال ہوتا ہے کہ وزن کے حوالے سے ہم ماہرِ خوراک سے اس وقت مشورہ کریں گی جب ہمارا بچہ 6 ماہ یا ایک سال کا ہوجائے گا- لیکن ہم اس خیال کی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتے“-“ آج کل آپریشن بھی عام ہوچکا ہے٬ اسی وجہ سے اگر بچے کی پیدائش آپریشن سے بھی ہوئی ہے تو بھی خواتین کو 40 دن مکمل ہونے کے فوراً بعد ماہرِ خوراک سے رابطہ کر لینا چاہیے“-ڈاکٹر عائشہ کا کہنا تھا کہ “ اس وقت ہم ماؤں کو متوازن غذا٬ اس کا شیڈول اور ساتھ ہی وہ ورزشیں بھی بتاتیں جو انہیں گھر پر ہی کرنی ہوتی ہیں- بچے کی پیدائش کے بعد خواتین جتنی دیر سے ڈاکٹر کے پاس جائیں گی ان کے جسم میں اتنی زیادہ چربی بن جائے گی جسے نکالنے میں مشکل کا سامنا بھی کرنا پڑے گا“-“ اس لیے ڈاکٹر کے پاس جانے میں تاخیر نہ کریں اور اگر آپ یہ سوچتی ہیں کہ میری ڈلیوری ہوئی ہے اور مجھے آرام کرنا چاہیے اور ساتھ ہی ایسی غذائیں کھانی چاہیے جو توانائی فراہم کریں تو یاد رکھیں کہ حمل کے دوران اور اس کے بعد ماں کو صرف 300 کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ دو سیب اور دو اضافی دودھ کے گلاس پی کر بھی حاصل کی جاسکتی ہے“- ہمارے یہاں خواتین میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ انہیں ڈلیوری کے بعد بہت زیادہ مربے٬ مرغن غذاؤں٬ دیسی گھی میں تیار کردہ اشیاﺀ اور میوہ جات کا استعمال کرنا چاہیے- لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کھانے سے ماں کا وزن اور زیادہ بڑھ جاتا ہے جس کا اثر پورے جسم پر آتا ہے“- اور یوں وہ بچے کی صحیح طرح دیکھ بھال نہیں کر پاتی- اضافی وزن کی وجہ سے ماں کے جوڑوں میں درد شروع ہوجاتا ہے اور وہ صحیح معنوں میں حرکت بھی نہیں کرتے- اس کے علاوہ نیند بھی پوری نہیں ہوتی اور وہ دباؤ کا شکار ہوجاتی ہے اور اس طرح بچے کو بھی نظر انداز کرنے لگتی ہے“-عائشہ مزید کہتی ہیں کہ “ بچے کی پیدائش کے فوراً بعد ماں کو چاہیے کہ وہ اپنی خوراک پر کنٹرول کرے- جو خواتین بچے کو دودھ پلاتی ہیں وہ دودھ پلانے سے قبل skimmed milk کا استعمال کرسکتی ہیں- اس کے علاوہ صبح و شام کی غذاؤں میں پھلوں کا استعمال بڑھا دیں“- “ ڈلیوری کے بعد پہلے ہفتے سے ہی 15 سے 20 منٹ کی چہلی قدمی کا آغاز کردیں اور بتدریج اس دورانیے میں 5 منٹ کا اضافہ کرتی جائیں“- “ کوشش کیجیے کہ بیکری آئیٹم سے پرہیز کریں کیونکہ اس طرح بھی بہت سی کیلوریز جسم میں داخل ہوجاتی ہے اور موٹاپے کا شکار بنا دیتی ہے- اسی لیے دعوت وغیرہ میں بھی ایسے آئیٹم ہرگز نہ کھائیں“- ڈاکٹر عائشہ مزید تدابیر کے طور پر یہ بھی کہتی ہیں کہ “ ماں کا پرسکون رہنا بہت ضروری ہے اور اسے پانی کا استعمال کسی صورت کم نہیں کرنا چاہیے- دن میں 10 سے 12 گلاس پانی لازمی پئیں اور اس کے علاوہ ہر کھانے سے قبل بھی 1 یا 2 گلاس پانی ضرور پئیں- اور اپنی نیند اور آرام پر بھی بھرپور توجہ دے“-ماؤں کا خوش رہنا بھی ضروری ہے اور اسے ایسے عوامل سے دور رہنا چاہیے جو دباؤ کا سبب بنیں- اس سلسلے میں پورے خاندان کو ماں کی مدد کرنی چاہیے“- ماں کو چاہیے کہ عبادات سمیت دیگر امور کے لیے بھی ایک ٹائم ٹیبل ترتیب دے- ایک ڈائری میں تمام امور اور ان کی انجام دہی کا وقت تحریر کر لے اور اسی کے مطابق دن گزارے- اس طرح وہ کاموں کے حوالے سے دباؤ کا شکار نہیں بنے گی“-“ ایسی خواتین جو ماں بننے والی ہیں یا پھر بن چکی ہیں انہیں اپنی صحت کا بھرپور خیال رکھنا چاہیے“