ماہواری کسی بھی خاتون کی اچھی صحت کی ضامن ہے ظاہر ہے کہ ایک عورت صحت مند ہوگی، اس کی ماہواری صحیح ہوگی، وقت پر ہوگی تو وہ آگے کی نسل بھی اچھی بنائے گی۔ مگر اس وقت پاکستان کی ایک کثیر آبادی ان خواتین پر مشتمل ہے جو پیریڈز میں اب بھی کپڑے کا استعمال کرتی ہیں یا پھر ان دنوں میں ایسے بھاری کپڑے پہنتی ہیں جن میں سے خون نظر نہ آسکے۔ انہیں آج بھی پیڈز کے متعلق معلومات نہیں ہے۔
یہ صحت کے اعتبار سے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کیونکہ کپڑا زیادہ دیر تک گیلے پن کو جذب نہیں کر پاتا اور اگر 4 گھنٹے تک وہی استعمال کیا جائے تو اس سے دانے ہو جاتے ہیںِ خارش پھیلتی ہے اور نچلے جسم میں کئی قسم کے مسائل ہوتے ہیں وہیں پیڈز 7 سے 8 گھنٹے کے لئے اخاتون کو محفوظ کرلیتے ہیں ظاہر ہے کہ ان میں جذب لاکز ہوتے ہیں جو خون کے بہاؤ کو اپنے اندر جذب کرکے ایک ریلیف دیتے ہیں۔ مگر جو خواتین ان سے لاعلم ہیں ان کو اس وقت جہاں سیلاب کی وجہ سے صحت کے ڈھیروں مسائل کا سامنا ہے وہیں اب پانی میں اور گندگی میں رہنے کی وجہ سے ماہواری کی پریشانیوں کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔
مگر وہ کیسے خود کو محفوظ رکھیں گیں؟ پاکستان میں چونکہ ماہواری سے متعلق یوں بات نہیں کی جاتی مگر اب کچچھ تنظیمیں بہت زیادہ فوکس ہو کر ان سے متعلق کام کر رہی ہیں اور خواتین خود بھی دوسری خواتین کے لئے پیڈز اور زیرِ جامہ ان تک پہنچا رہی ہیں۔ ایک نجی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق جب ان خواتین کو پیڈز دیے گئے تو وہ کہنے لگیں ہمیں بچوں کے پیمپر نہ دو، جب انہیں پیریڈز سے متعلق آگاہی دی گئی تو معلوم ہوا کہ وہ ان دنوں میں ایسی کوئی چیز استعمال نہیں کرتی ہیں اور اکثر یونہی گھومتی ہیں جس سے ان کے جسم میں جلد کے بھی کئی مسائل ہیں جن سے متعلق وہ ڈاکٹر کو تو دور اپنے گھر میں بھی تذکرہ نہیں کرتیں ۔۔ دنیا کتنی آگے نکل گئی اور ہماری عورت آج تک اپنے بنیادی مسائل سے ہی نمٹ نہیں پا رہی ۔۔
