شادی ایک ایسا رشتہ ہے کہ جس میں دو لوگ ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بھر رہتے ہیں، اسلام میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے۔ لباس تن کو ڈھانپتا ہے، تن کی ساری خوبیوں اور خامیوں کو چھپا لیتا ہے، اسی طرح میاں بیوی بھی ایک دوسرے کی خوبیوں اور خامیوں کو ڈھانپ کر دنیا کے سامنے اپنا ایک مطمئن اور خوش چہرہ پیش کرتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ماں باپ بہت ارمانوں سے اپنے بچوں کی شادی کرتے ہیں لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد علیحدگی یا طلاق کی نوبت آ جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے، ایسا اس لئے ہوتا ہے کیوں کہ شادی کے بعد پتہ چلتا ہے کہ لڑکا یا لڑکی میں کچھ طبی مسائل تھے۔ جس کی وجہ سے ایک ساتھ گزارا مشکل ہو گیا۔ یا بعض جوڑے اولاد کی نعمت سے محروم رہ جاتے ہیں اس کی بھی مختلف وجوہات ہوتی ہیں تو اسی لئے یہ زیادہ بہتر ہے کہ شادی سے پہلے لڑکا اور لڑکی اپنا چیک اپ کروا لیں اور اگر ڈاکٹر کہے تو کچھ ٹیسٹ کروالیں۔ تاکہ بعد کے مسائل سے بچ سکیں۔
کون سے ٹیسٹ کروانا چاہیے ؟
ڈاکٹر سمیہ شبیر کا کہنا ہے کہ شادی سے پہلے مردوں اور عورتوں دونوں کو ٹیسٹ کروا لینا چاہیے۔
اس میں تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ، فرٹیلٹی ٹیسٹ، ہارمونز کا ٹیسٹ، خواتین کو پیلوک کا الٹراساؤنڈ کروانا چاہئے اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اندر بچہ دانی کی کیا پوزیشن ہے، اس کے علاوہ ایک ٹیسٹ سیکسوئل ٹرانسمٹڈ ڈیزیز کا ٹیسٹ ہوتا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ خدانخواستہ دونوں میں سے کسی کو کوئی ایسی بیماری تو نہیں ہے جو ایک دوسرے کے لئے خطرناک ہو۔ اس کے علاوہ ایچ آئی وی ایڈز کا بھی ٹیسٹ کروالیں، بلڈ گروپ ضرور معلوم کروائیں کیونکہ اگر بلڈ گروپ میچ نہیں ہوں گے تو اس سے حمل میں مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اور آگے حمل ضایع ہونے کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔
کیونکہ عموماً بلڈ گروپ اگر میچ نہیں ہو رہے ہوتے تو اس سے اسقاط حمل یا بچے کے ابنارمل ہونے کے بھی امکانات ہو سکتے ہیں۔ اس لئے بہتر ہے کہ یہ ٹیسٹ کروالیں اور آئندہ کی پیچیدگی سے بچ سکیں۔ اس کے علاوہ مردوں کا سیمن سپرمز ٹیسٹ ہوتا ہے یا سیمن اینالائز ٹیسٹ جس سے پتہ چل جاتا ہے کہ ان کے ہاں اولاد ہو سکتی ہے یا نہیں۔
یہ تمام ٹیسٹ اگر شادی سے پہلے کروالئے جائیں تو آئندہ کی بد مزگی اور پریشانی سے بچا جا سکتا ہے۔ ان میں سے کچھ خواتین کے ٹیسٹ ہیں اور کچھ مردوں کے۔ ان کو کروانے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہو نی چاہیے،وقت کے ساتھ ساتھ ذہنوں کو کشادہ ہونا چاہیے، وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔