چند دن قبل بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں مسیح برادری کے
میتھوڈست فرقے سے منسلک چرچ پر خودکش حملے میں 9 افراد جاں بحق اور درجنوں
کے زخمی ہونے کی اطلاع ملی۔اس دہشت گردانہ حملے نے پورے پاکستان کے تمام
طبقات کو افسردگی میں مبتلا کر دیا۔اب کی بار بھی دہشت گردوں کی سر پرست
قوتوں نے وقت ،مقام اور ٹارگٹ کا چناؤ بڑی سوچ سمجھ کے بعد کیا۔اس وقت پوری
دنیا سمیت پاکستا ن کی مسیح برادری بھی تہوار کی تیاری میں مشغول ہے اور
کارروائی کے لئے جس چرچ کا انتخاب کیا گیا وہ اسی میتھوڈسٹ فرقے سے منسلک
تھا جس کے پیروکاروں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی شامل ہیں۔جب کہ چرچ پر
حملے کی ذمہ داری عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کے ہینڈلرز افغانستان میں بیٹھ
کر قبول کی۔
وقت اور مقام کے چناؤ سے چند باتیں بڑی واضح ہیں کہ اس دہشتگردانہ کارروائی
کا پہلا مقصد تو پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنا تھا۔دوسرا مقصد اہم
اور حساس موقعے پر جب پوری دنیا کی مسیحی برادری اپنے اہم تہوار کو منانے
جارہی تھی ،پاکستانی مسیحی برادری کو خون میں نہلا کر پوری دنیا کو یہ
پیغام دینا تھا کہ یہاں پر اقلیتیں غیر محفوظ ہیں اور ان کا قتل عام جاری
ہے۔جس کے رد عمل میں عالمی سطح پر مسیحی برادری غم و اضطراب کی کیفیت میں
مبتلا ہو جاتی اس حملے کے رد عمل میں جس غصے کا اظہار کیا جاتا اسے پاکستان
مخالف پراپیگنڈہ مہم کے طور پر استعمال کیا جانا مقصود تھا۔تیسرا مقصد پوری
دنیا میں موجود مسلمان باشندوں پر دہشت گرد مذہب کا لیبل لگا کرانکے کے گرد
گھیرا تنگ کر تے ہوئے انہیں غیر محفوظ بنانا تھا۔ملک دشمن عناصر کوایک اہم
فائدہ یہ بھی حاصل ہونا تھا کہ خود کش حملے میں جو افراد نشانہ بنے ہیں ان
کا تعلق اسی فرقے سے ہے جس سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ وابستگی رکھتے ہیں ۔لہذا
اس گھناؤنے اقدام سے صدر ٹرمپ کے باولے پن میں اضافہ اور پاک امریکہ تعلقات
میں مزید تناؤ پیدا کر کے ریاستی اداروں کو الجھانا بھی مقصود تھا۔لیکن
ریاست پاکستان کے اداروں آرمی چیف،وزیر اعظم پاکستان سمیت تمام طبقات نے
قومی وحدت کو قائم کرتے ہوئے دشمن کی اس سازش کو نہ صرف ناکام بنادیابلکہ
نادیدہ قوتوں کو یہ پیغام بھی دیا کہ کوئٹہ چرچ میں مسیحی برادری پر کیا
جانے والے حملہ نا تو مسیحیت پر حملہ ہے اور نہ ہی چرچ پر حملہ ہے ۔یہ حملہ
پاکستان پر حملہ ہے۔اور اس مشکل کی گھڑی میں پاکستان کی عوام ،تمام ریاستی
ادارے مظلوم مسیحی متاثرین کے دکھ اور درد میں برابر کے شریک ہیں۔
اب آتے ہیں مقام کے چناؤ کی طرف۔۔۔ آخر اس حملے کے لئے پاکستان دشمن قوتوں
نے بلوچستان کے شہر کوئٹہ کو ہی کیوں چنا۔؟اس کا واضح سا جواب ہے ۔اس وقت
بلوچستان کی سرزمین انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔وہاں پر خطے میں تبدیلی لانے
والا سی پیک منصوبہ جسے ’’گیم چینجر‘‘ بھی کہا جاتا ہے تیزی سے جاری ہے۔سی
پیک سے پاکستان خصوصا بلوچستان میں روز گار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔اب تو
عالمی تھنک ٹینک رپورٹس بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ گوادر میں شروع کیا
جانے والا منصوبہ بہت جلد ملک پاکستان کو مضبوط و مربوط معیشت کے ساتھ
عالمی تجارتی منڈی میں لا کھڑا کرے گا۔جہاں خصوصا چین کے ساتھ بہت سے دوسرے
ممالک اس پراجیکٹ سے فائدہ اٹھائیں گے وہیں پاکستان کی معیشت بھی انتہائی
مستحکم ہوگی۔پاکستان کے عوام جنہوں نے طویل عرصہ مشکلات کا سامنا کیا ہے
بہت جلد معاشی طور پر خوشحال نظر آئیں گے، انہیں نہ صرف بہترین روز گار کے
مواقع فراہم ہوں گے،بلکہ درآمدات و برآمدات کی صورت میں عالمی منڈی تک
رسائی بھی حاصل ہوگی۔ پاکستان کا دوست ملک چین کے اشتراک سے جاری یہ منصوبہ
چند عالمی قوتوں اور پاکستان دشمن عناصر کو کسی صورت قبول نہیں ہے ۔ یہی وہ
اہم وجہ ہے جس کی بنا پر مسلسل دیگر شہروں سمیت خصوصا بلوچستان کو ٹارگٹ
بنایا جارہا ہے اور وہاں جاری ترقیاتی منصوبوں کو ناکام کرنے کے لئے آئے دن
سنگین نوعیت کی سازشیں کی جارہی ہیں۔
افسوس کی بات ہے کہ اسلام دشمن قوتیں ا سلام کے نام پر بنائے گئے نام نہاد
ریسرچ سینٹرز میں دین اسلام کی غلط تعبیرات نا پختہ اذہاں میں اتار کر چند
نوجوانوں کو گمراہ کرتے ہوئے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے مقابلے میں کھڑا کر
چکی ہیں۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عالم اسلام اور خصوصا پاکستان کے ان
گمراہ نوجوانوں کو بتایا جائے کہ پاکستان کلمے کے نام پر حاصل کیا جانے
والاواحد اسلامی ملک ہے۔اور پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام
نے پاکستان کے اندر کسی بھی قسم کے حملوں کو چاہے وہ بازار ،سکول ، ہسپتال
،عوامی مقامات ،ریاستی مراکز ، تمام مذاہب و مسالک کی عبادت گاہوں پر شرعاََ
حرام قرار دیا ہے ۔اسلام توامن کا مذہب ہے اور اس طرح کے شرپسندانہ حملے
اسلامی تعلیمات کے ہی منافی ہیں۔ بلکہ اسلام کے دائرہ کار میں رہ کر اس طرح
کے حملوں کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
یہ واحد مذہب اسلام ہی ہے جس نے غیر مسلم (ذمیوں ) کے حقوق کی بات کی ہے،ان
کے ساتھ مثالی رحم و کرم ، مساوات ، ہمدردی اوررواداری کا معاملہ کیا ہے۔
ان کو وہ سماجی اور قومی حقوق دیئے ہیں جو آج تک کسی مذہب نے دوسرے مذہب کے
پیروکاروں کو نہیں دیئے۔یہ اسلامی تعلیمات ہی ہیں کہ جو غیر مسلم اسلامی
ریاست میں قیام پذیر ہوں،اسلام نے ان کی جان مال ،عزت ،آبرو اور مذہبی
آزادی کے تحفظ کی ضمانت دی ہے اور مسلم حکمرانوں کو پابند کیا ہے کہ ان کے
ساتھ مسلمانوں کے مساوی سلوک کیا جائے۔جب کہ نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ۔’’ جو کسی غیر مسلم پر ظلم کرے گا یا اس کے حقوق
میں کمی کرے گا یا طاقت سے زیادہ مکلف کرے گا یا اس کی کوئی چیز اس کی مرضی
کے بغیر لے گا تو میں (ﷺ)قیامت کے دن اس کی طرف سے دعوے دار بنوں
گا۔(مشکوٰۃ)
ذرا سو چئے کہ! آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے تو بغیر مرضی کے کوئی چیز لینے
سے منع فرمایا اور آج اسلام ہی کے نام پر ان کی جانیں لی جا رہی ہیں۔یہ بات
تو اظہر من الشمس ہے کہ کبھی اپنے مسلمان بھائیوں کا قتل عام اور کبھی
اقلیتوں کا قتل عام کر کے اسلام کی نہیں ،اسلام مخالف گروہوں کی خدمت کی
جارہی ہے۔لہذا اب وقت ہے کہ غیر ملکی ایجنٹوں کے ہاتھوں اپنے دین و ضمیر
کوبیچنے کے بجائے دین اسلام کی حقیقی روح کو سمجھتے ہوئے اسلام کے نام پر
بننے والے پاکستان کے بارے میں سوچیں۔اور اپنے ملک کی وحدت، تعمیر و ترقی ،بقائے
وطن کی خاطر محب وطن اقدامات کریں ۔۔۔!
|