سچے انسانی جذبوں کی شاعرہ پروین شاکر نے نہ جانے
کس لہر میں جھومتے ہوئے محبت کی اتنی مختصر اور جامع تعریف کر ڈالی تھی اور
’’ اﷲ والوں ‘‘جیسی یہ بات کہہ دی تھی کہ ’’محبت بیان نہیں رویہ ہے‘‘ ۔یہ
سراسررب کی مرضی پر منحصر ہے جس زباں سے جب جو چاہے کہلوا دے بالکل اسی طرح
خود رب جس من میں چاہے سما جائے، رب کے وجود کا احاطہ کرنا انسان کے لئے
ممکن نہیں ،یوں مخلوق کی عقل کے دائرے اگر خالق کی ذات کی وسعتوں کا احاطہ
کرلیں تو یہ رب کی شان ہی نہیں ،رب کی تعریف اور شان یہ ہے کہ اسکا احاطہ
ممکن نہیں ہوسکتا ،وہ دائروں میں نہیں سما سکتا ،کسی الجبرا وحساب میں نہیں
آسکتا ۔
محبت کی میرے نزدیک سب سے خوبصورت تعریف یہ ہے کہ یہ اﷲ کی سنت ہے ،رب نے
محبت کی تو پھر محبوب کانام بار بار سننے کے لئے شاہ مدینہ ﷺ کی محبت ایمان
کے لئے پہلی شرط رکھ دی ، کلمہ طیبہ میں محبوب کا نام اپنے ساتھ رکھا ہے
باوجود اسکے کہ رب کا کوئی شریک نہیں مگر مصطفیٰ ﷺ کو کلمے میں ساتھ بھی
رکھا ہوا ہے ،محبت ہر جذبے سے بڑھ کر پر لطف ہے،محبت کی اس کیفیت میں محبوب
کا ذکر سننا سب کو بھلا لگتا ہے ، سماعتوں کو تلاش رہتی ہے ،کہیں کوئی اسکا
نام لے اور دھڑکنیں بے ترتیب ہو جائیں ، رب کو بھی اپنے محبوب ﷺکا ذکر پسند
ہے ، قیامت تک اپنے محبوب کا ذکر سنتے رہنے کے لئے فرمادیا
’’اﷲ تعالیٰ اور فرشتے آپ ﷺ پر درود و سلام بھیجتے ہیں اے ایمان والو تم
بھی آپ ﷺ پر درود و سلام بھیجا کرو‘‘ ۔
یعنی قرآن نے آقا ﷺ سے محبت کا حکم دے کر نجات اور شفاعت کا طریقہ بھی بتا
دیا ، خود محبوب کے ذکر کو سننے کے لطف اور اس سرشاری میں خالق کائنات نے
خود کو شامل کر لیا اور ساتھ ہی محمدﷺ کی صورت میں پوری کائنات کے ذرے ذر ے
کے جھومنے کا انتظام بھی کردیا ، یعنی جب تک کائنات کا وجود رہیگا ، محمد ﷺ
کا اسطرح نام رہیگا کہ پوری کائنات محمد ﷺ کانام لے لے کر جھومتی رہے گی ۔
محبت کے اس رشتے نے اﷲ اور محمد ﷺ کے فاصلے بھی گم کر رکھے ہیں ، محبت کی
اس مثال نے آگے چل کر یہ شکل اختیار کر لی کہ جس نے محمد ﷺ کو پالیا اس نے
اپنے رب کو پالیا کہ اﷲ کی پاک ذات تک جتنے راستے جاتے ہیں وہ محمد ﷺ کے
بغیر نہیں جاتے ، اس محبت کا نتیجہ ہے کہ محمد ﷺ والے قیامت تک اﷲ والے ہو
گئے ہیں اوران کا یہ اعزاز روزمحشر تک محفوظ ہو گیا ہے ، شاعر مشرق بھی
محمد ﷺ والا تھا سو اﷲ والا ہو گیا ،اقبال ؒ کی شاعری عشق محمد ﷺ سے سرشار
ہونے کے باعث مسلمانوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ بن گئی ،اقبال ؒنے رقص وسرور
کی اسی مستی میں جواب شکوہ کا وہ شعر کہا جورہتی دنیا تک امر ہو گیا ہے
اقبال ؒنے نبی ﷺ کی محبت میں جھومتے ہوئے شعر کیا کہا دنیا کے تمام مسائل
کا حل ہی تو بتا دیا، یہی رب کائنات کی بندے کے لئے ہدایت بھی ہے کہ
ًّکی محمد ﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
گویارب کائنات نے تقدیر کو بندے کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے فرما دیا کہ محمدﷺ
کی محبت کا لباس زیب تن کر لو ، میں بھی مل جاؤں گا اور ہر وہ شے بھی جسکی
تمنا بندے کو ہو سکتی ہے،محبت والی کیفیت سروراوریہ مستی صرف محمد ﷺ والوں
کو ملتی ہے ۔۔۔نبی ﷺ والالمحوں میں اﷲ والا بن جاتا ہے ۔۔ ۔۔۔۔محمد ﷺ کے
بغیر تو رب کے ملنے کا تصور نہیں ہو سکتا ۔۔۔الجبروں اور حساب میں نہ آنے
والے،دائروں میں نہ سمانے والے سچے رب نے اس جگہ آکرسارا حسا ب بندے کو
دولائنوں میں سمجھا دیا ،محمدﷺ کا دامن تھام لو شفاعت ہو جائے گی ،سارے
بیڑے پار لگ جائیں گے ، سب بگڑے کام بن جائیں گے ۔
’’اور ہم نے آپ ﷺ کو دونوں جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے ‘‘ محمد ﷺ
والے دوسروں کے لئے نرم دل رکھتے ہیں کیونکہ سرکارﷺکی محبت کا غلبہ انسان
کے دل و دماغ کو نرمی اور اسے نرم و گداز میٹھی زبان عطا کر دیتا ہے ، اسکے
لفظوں میں شیرینی اور اثر آجاتا ہے ، انسان سراپا خیر بن جاتاہے اور باقی
انسانوں کے لئے بھلائی اور خیر کا عملی نمونہ بن جاتا ہے۔یہ سارا کچھ محبت
والوں کی دنیا میں ہوتا ہے ،جہاں کوڑا پھینکنے والی مائی پر غصہ نہیں آتا
۔مکہ میں برسوں مظالم ڈھانے والوں کو معاف کر دیا جاتا ہے،مسجد میں ٹھہرنے
والے غیر مسلموں کو عبادت کی بھی سہولت دی جاتی ہے۔ یہ وہ محبت ہے جسے رویہ
کہا گیا ہے۔
یہ رویہ محض انسانوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ چرند پرند،اشجار سمیت ہر
مخلوق ہی کیا پوری کائنات نبی ﷺ کے عشق اور محبت میں رقصاں ہے اوربرابرجھوم
رہی ہے ۔۔۔۔۔۔محمد ﷺ کے نور سے پوری کائنات روشن ہے ، محمد ﷺ والوں کا لمحہ
لمحہ عشق نبی میں رقصاں ہے خالق کی طرف سے اس محبت کا حکم ہمیشہ کے لئے دے
دیا گیا ہے ، محبت کی خوبصورت ترین شکل دیکھئے کہ جہاں جہاں رب کا نام لیا
جا رہا ہے ،مصطفی ﷺکا نام بھی ساتھ ہی لیا جا رہا ہے،نشانیاں ہر جگہ واضح
ہیں ۔
اﷲ محمد ﷺ والوں کی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی یہ ہے کہ انکے اخلاق بڑے
بلند ہو تے ہیں ،اﷲ کی محبت میں مبتلا ہونے والے اسکی مخلوق کی خوش کرنے
،ان کا دکھ بانٹنے ،تکالیف کم کرنے جیسا مشکل کام کرتے ہیں ، انکی زبان اور
ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہتے ہیں ،یہ کسی کاحق نہیں کھا سکتے ،انہیں
جھوٹ کا مرض لاحق نہیں ہوتا ،یہ خوف خدا رکھنے والے ہوتے ہیں مگر رب کے سوا
کسی اور ڈرتے بھی نہیں ،اﷲ اور محمدﷺ والے کہیں بھی ہوں وہ مکے مدینے میں
ہوتے ہیں
عشق مصطفی جس کے سینے میں ہے
وہ کہیں بھی رہے،مدینے میں ہے
انہیں خاندان دوست احباب کو دکھانے کے لئے کسی عمرہ کی حاجت نہیں رہتی
،انکے سرکبھی سجدوں سے نہیں اٹھتے ۔
حسن اخلاق محمد ﷺ کی شان ہے،محمد ﷺ سے محبت کرنے والا تکلیف پہنچنے کی صورت
میں بھی کسی کو برا بھلا نہیں کہہ سکتا ،نفرت آقاﷺ کے غلاموں کے لئے بنی ہی
نہیں ، دل آزاری ،تخریب اور طعنہ زنی محمدﷺ والوں کا شیوہ نہیں ،محبت اظہار
کی محتاج نہیں ہوتی ،ہوجائے تو انسان کے انگ انگ ،چال ڈھال ،بول چال سب کے
سب اسکی نشانیاں اورگواہ بن جاتے ہیں ،محبت کرنے والے کی نشانیوں میں سے
ایک نشانی یہ ہے کہ اﷲ کی مخلوق کے لئے بھلائی اسکے من ہی نہیں تن بدن میں
بھی رچ بس جاتی ہے، محبت کرنے والے کی ہرسانس محبوب کی مالا جپتی ہے ،اسے
محبوب کا ذکر پسند ہو تا ہے ، رب نے سرکارﷺ کی محبت میں دلوں کو جاری کر
دیا تو ان دلوں میں محبت کے چشمے پھوٹ پڑے ، صحابہ کرام ؓ اس محبت کی کیفیت
میں برسوں ڈوبے رہے ،یہ سلسلہ ہمیشہ کے لئے ہے ،اس محبت کو کوئی زوال نہیں
،آپ غور کریں کہ جس زباں سے سرکارﷺ پر درود بھیجا جاتا ہے کیا اس زبان سے
بدکلامی گالی گلوچ کا سوچا بھی جا سکتا ہے۔۔۔؟ اس محبت میں سرشار شخص سب کے
لئے باعث برکت بن جاتا ہے اورانتقام ،بدلہ جیسے لفظوں سے نا آشنا ہو جاتا
ہے، یہ محبت کرنے والوں کی چندنشانیاں ہیں یہ نشانیاں نہ ہوں تو سمجھیں
محبت ہوئی نہیں ، بس کرنے کی ایک یکطرفہ کوشش کی گئی ہے جو قبول نہیں ہوئی
جبکہ محبت تو کرنے کا کام ہی نہیں ،یہ ایک کیفیت طاری ہو جانے کا نام ہے
،جوکسی اظہار،بناوٹ ،بیان کی محتاج نہیں ہوتی یہ ہو جائے تو بس ہو جاتی ہے
، گالی گلوچ ،مارپیٹ،جلاؤ گھیراؤکرنے والا آقاﷺ کی محبت کا دعوے دار تو ہو
سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔مگر صرف دعوے دار ۔۔۔ سرکارﷺ کی محبت کی قبولیت کے لئے اسے
اپنے رویے پر غورکرنا ہو گا کیونکہ اﷲ اور نبی ﷺ نفرت والے دل میں قیام
نہیں رکھتے ، مکے مدینے کا بسنا تو دور کی بات اسکا نقشہ تک نفرت کے اس شہر
میں کھینچا نہیں جا سکتا لیکن اگر انسانیت کا احترام سیکھ لیا جائے تو
سرکارﷺ کی نظر کرم ضرور ہوگی ۔۔۔۔ ہمارا ایمان ہے کہ رب کائنات نے نبوت کو
کریم آقا ﷺ پر ختم کر دیا ، پھرسرکار ﷺ کے بعد کسی کے نبی ہونے کے دعوے سے
خوف کا توسوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ نبوت تو بنائی ہی آپ ﷺکے لئے گئی تھی
بلکہ صرف نبوت ہی نہیں پوری کائنات محبوب خدا ﷺ کے لئے تخلیق کی گئی اور اس
میں محبت کا سارا ’’کھیل ‘‘ رچایا گیا ۔سرکار ﷺ کے خاتم النبیین ﷺ ہونے کے
بارے میں شک و شبہ کی اس لئے گنجائش نہیں کہ آپ ﷺ کو آخری نبی تسلیم نہ
کرنے والے کا ایمان ہی باقی نہیں رہتا اور وہ قطعی غیرمسلم ہے، اس لئے تعصب
اور شک کی بناء پرکسی کو حقیر نہ جانیں، عین ممکن ہے کوئی بظاہر ان پڑھ
جاہل اور گنوار اس’’ منصب دلبری‘‘ پر فائز ہو جائے اورکوئی عالم فاضل اس
لطف وسرور، سرمستی اور رقص کی کیفیت کے قریب بھی نہ پھٹک سکے کہ
جسے چاہا در پہ بلا لیا
جسے چاہا اپنا بنا لیا
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے
یہ بڑے نصیب کی بات ہے |