وقت کو مرہم کہا جاتا ہے, وہ مرہم جو ہر زخم بھر دے. لیکن
بسا اوقات اس طرح کی ادویات سکون قلب کی بجائے زخم کو منجمد کر دیتی
ہیں.پھر وہ زخم ایک گلیشیئر کی مانند جمع ہو جاتا ہے,گویا انسان کے اند
ناسور بن جاتا ہے.پھر ایک وقت آتا ہے جب برف پگھلتی ہے لیکن اس وقت تک دیر
ہو چکی ہوتی ہے.
وقت ہمیشہ مرہم کا کام نہیں دیتا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے, وقت انسان کے دل و
دماغ پر زخم کے اثرات چھوڑتا چلا جاتا ہے.ایسا یقینا(ن) عشق کے مریضوں کے
ساتھ ہوتا ہے. جن کے زخم گہرے ہوتے ہیں, اور جن کا مرہم وقت نہیں ہوتا. جن
کے احساسات پیروں تلے روندے جا چکے ہوتے ہیں. پھر نہ سکون قلب ان کی سترس
میں رہتا ہے نہ زندگی کے رنگ ان کو دو پل کی خوشی دے پاتے ہیں.ان کا اندر
سیاہ,سفید اسکرین کی مانند ہو جاتا ہے. جس پہ نہ تو پھر مزید دکھ کی لکیریں
ٹھہرتی ہیں, نہ کوئی دل کو چھو لینے والا جذبہ اس کی تجدید کا باعث بنتا ہے.
شاید اسی کو زندگی کا بے رنگ ہونا کہتے ہیں. |